ﻧﺎﻭﻝ سنائپر از ریاض_عاقب_کوہلر قسط نمبر 27
ﻧﺎﻭﻝ سنائپر
از
ریاض_عاقب_کوہلر
سنائپر قسط نمبر 27
ریاض عاقب کوہلر
دروازہ کنڈی کرنے سے پہلے میں نے باہر جھانکا وہ تیز قدموںسے وہاں سے دور جا رہی تھی دروازہ کنڈی کر کے میں اندر آگیا ۔
میری آنکھ دروازے پر ہونے والی دستک سے کھلی ۔دروازہ کھولنے سے پہلے میں نے کلائی پر بندھی گھڑی پر نگاہ دوڑائی صبح کے سات بج رہے تھے ۔دروازہ کھولنے پر سفید ریش کمانڈر نصراللہ کا مسکراتا چہرہ نظر آیا ۔
”اسلام علیکم !“کہتے ہوئے وہ اندرداخل ہوا ۔
”وعلیکم اسلام ۔“کہہ کر میں نے اس کا مصافحے کے لیے بڑھایا ہوا ہاتھ تھام لیا ۔
”میرا خیال ہے پہلے میں ناشتا لے آﺅں ؟“اس نے پر شفقت مسکراہٹ سے پوچھا ۔
”بہت اچھا خیال ہے ۔“میں نے تائید میں سر ہلایا۔
”اکیلے ہو یا پلو خان بھی ساتھ ہے ؟“
”اکیلا ہوں ،لیکن ناشتا آپ دو بندوں ہی کا لائیں ۔کل رات کا کھانا نہیں کھا سکا تھا ۔“
میری بات پر وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے باہر نکل گیا ۔
اس نے بھی میرے ساتھ ہی ناشتا کیا ۔ناشتے کے دوران ہی میں اسے کل کے واقعے کے بارے تفصیل سے بتا دیا ۔
تمام تفصیل خاموشی سے سن کر اس نے مجھ سے موٹر سائیکل چھپانے کی جگہ کے بارے پوچھا۔ اور کہنے لگا ۔
”موٹر سائیکل کی فکر نہ کرو میں منگوا لیتا ہوں ۔“
”کہیں موٹر سائیکل کی وجہ سے آپ لوگوں پر تو کوئی بات نہیں آئے گی ۔“
”بالکل بھی نہیں ،موٹر سائیکل کے اندر تبدیلیاں کرنا کون سا مشکل کام ہے ۔یوں بھی یہاں گاڑیوں اورموٹر سائیکلوں کے کاغذات اور نمبر پلیٹ وغیرہ نہیں ہوتی ۔“
اور میں نے اطمینان بھرے انداز میں سر ہلادیا ۔ناشتے کے بعد وہ برتن سمیٹ کر بیٹھک سے نکل گیا جبکہ میں ایک بار پھر آرام کرنے کے لیے لیٹ گیا ۔اگلے دو دن میں نے بیٹھک میں آرام کرتے گزارے ۔
تیسرے دن کمانڈر نصراللہ ناشتالے کر آیا تو بیٹھتے ساتھ قبیل خان کا ذکر چھیڑ دیا ۔
”قبیل خان افغانستان سے واپس پہنچ گیا ہے اور کل اپنی تباہ شدہ حویلی کا جائزہ لینے گیا تھا ۔ سنا ہے وہ جلد از جلداپنی حویلی دوبارہ تعمیر کرانا چاہتا ہے ۔ “
”لازمی بات ہے اس کی عیاشی کا اڈہ جو تھا۔“اورناشتے کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے پوچھا۔ ”ویسے آپ کو کیسے پتا چلا ۔یقینا مجاہدین اس کی نقل و حرکت پر تو نظر نہیں رکھتے ۔“
”صحیح کہا ۔“اس نے اثبات میں سر ہلادیا۔”بس گزشتہ رات اتفاقاََاس کے ایک آدمی سے ملاقات ہو گئی ،میرا پرانا شناسا ہے ۔گپ شپ کے دوران ہی یہ سب پتا چلا ۔“
”ہونہہ!....“
”شاید وہ آج بھی وہاں جائے ۔“کمانڈر نصراللہ نے ایک اور انکشاف کیا ۔
میں حیرانی سے اس کی جانب متوجہ ہوا ۔” کیا یہ یقینی بات ہے ۔“
”ایک خبر ملی تھی بھائی، جو آپ کے سامنے دہرا دی ۔“معنی خیز لہجے میں کہتے ہوئے وہ برتن سمیٹنے لگا ۔
”شکریہ جناب ۔“میں نے ممنونیت بھرے لہجے میں کہا ۔میں جانتا تھا کہ وہ یہ خبر مجھ تک کیوں پہنچا رہا تھا ۔
اس کے جانے کے بعد میں تھوڑی دیر تو شش و پنج میں ڈوبا رہا کہ وہاں جاﺅں یا نہ جاﺅں ،آخر میں جانے کا ارادہ غالب آ گیا ۔ دن کے دس ساڑھے دس ہونے کو تھے میں تیار ہو کربیٹھک سے نکل آیا ۔ اگر رات کو یہ بات معلوم ہوئی ہوتی تو شاید میں پلوشہ کو بھی بلوا لیتا ۔گو وہ نرا سر درد ہی تھی لیکن قبیل خان کے خلاف کام کرتے وقت اس کا ساتھ ہونا ضروری تھا ۔البتہ اس وقت اس سے رابطے کا کوئی ذریعہ نہیں تھااس لیے میں اکیلا ہی چل پڑا۔
تباہ شدہ حویلی تک جانے کا جو رستا پلوشہ نے ہمیں دکھایا تھا وہ آسان ہونے کے ساتھ مختصر بھی تھا ۔دو اڑھائی بجے تک میں وہاں پہنچ تھا ۔گھنے درختوں اور گنجان جھاڑیوں کے درمیان رستا بناتے ہوئے میں چکر کاٹ کر حویلی کے عقب میں موجود پہاڑی کے قریب پہنچا وہاں بلندی سے میں حویلی کی جگہ کا آسانی سے جائزہ لے سکتا تھا ۔
میں درختوں کے جھنڈ سے نکل کر آگے بڑھا ہی تھا کہ اچانک دھماکا ہوا ،جھٹکا سالگا اور مجھے محسوس ہوا جیسے کوئی گرم انگارہ میرے بائیں کندھے میں گھس گیا ہو۔میں کولہوں کے بل نیچے گرا اورجلدی سے جھاڑیوں میں رینگ گیا ۔یقینا اس پہاڑی پر قبیل خان کے آدمی موجود تھے ۔میں کچھ زیادہ ہی بے احتیاطی کا مظاہرہ کر بیٹھا تھا ۔میرے ہاتھ میں تھامی ہوئی ڈریگنوو کو دیکھ کر انھوں نے للکارنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی تھی اس کا مطلب یہی تھا کہ قبیل خان وہاں پہنچا ہوا تھا اور اس کے محافظ چوکس تھے ۔
ایک اور برسٹ فائر ہوا گولیاں اسی جھاڑی کی طرف ہی آئی تھیں ۔میں جھک ہر وہاں سے دور ہٹنے لگا ۔پندرہ بیس گز دور آکر میں بھل بھل کرتے خون کو روکنے کے لیے زخم پر اپنی چادر باندھنے لگا۔ گولی گوشت کے اندر ہی رہ گئی تھی ۔یہ پہلا موقع تھا کہ میں کسی کی گولی کا شکار بنا تھا ۔شروع میں گولی لگنے کی تکلیف بالکل نہیں ہوئی تھی ،مگراس کے بعد لمحہ بہ لمحہ درد بڑھتا جا رہا تھا ۔دور مجھے کسی کے چلاکر کچھ کہنے کی آواز آ رہی تھی ۔یقینا ان کی تعداد کافی زیادہ تھی اور میرے لیے ان کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں تھا ۔ خاص کر اس حالت میں تو میںرائفل چلانے کے قابل بھی نہیں رہا تھا ۔
زخم پر کپڑا لپیٹ کر میں وہاں رکا نہیں تھا ،کیونکہ زخم سے ٹپکتے خون کے قطرے میرے چھپنے کی جگہ کو افشا کر سکتے تھے ۔اور اس وقت میرا دماغ کندھے کی تکلیف کو بھلا کر جان بچانے کی تجویز سوچنے میں سر گرداں تھا۔ چادر لپیٹنے کے بعد خون بہنا تقریباََ رک گیا تھا ۔جو تھوڑا بہت نکل رہا تھا وہ بھی چادر میں جذب ہوتا جا رہا تھا ۔میں تیز قدموں سے وہاں سے دور ہٹنے لگا ۔عقبی جانب مجھے دو تین برسٹ سنائی دیے ۔یقینا وہ خواہ مخواہ گولیاں ضائع کر رہے تھے ۔درختوں کی بہتات اور جھاڑیوں کے گھنے جھنڈ میرے لیے بہترین پناہ گاہ تھے ،وہ اتنی آسانی سے مجھے نہیں ڈھونڈ سکتے تھے ۔ اور جہاں تک میرا اندازہ تھا قبیل خان کے ذاتی محافظ میری تلاش میں زیادہ دیر سر نہیں کھپا سکتے تھے ۔
میرے کندھے کا درد مسلسل بڑھتا جا رہا تھا ۔رائفل سے سلنگ نکال کر میں نے گلے میں ڈالی اور مضروب بازو کواس میں لٹکا لیا ۔کیونکہ کسی سہارے کے نہ ہونے کی وجہ سے زخم میں درد مزید بڑھ رہا تھا۔ اس وقت میرا رخ اسی غار کی طرف تھا جہاں میں نے پلوشہ کو زدوکوب کرکے اس سے پوچھ گچھ کی تھی۔ لیکن زیادہ خون بہنے کی وجہ سے میری رفتار میں کمی آ گئی تھی مجھے سخت قسم کی نقاہت محسوس ہونے لگی، لیکن میں آہستہ روی سے چلتا رہا ۔کلاشن کوف کی گولی میرے کندھے میں موجود تھی ۔اگر وہ جلد باہر نہ نکالی جاتی تو یقینا گولی کازہر پھیل کر میرے کندھے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا تھا ۔اس وقت مجھے کسی ساتھی کی اشد ضرورت محسوس ہورہی تھی۔اگر پلوشہ بھی میرے ساتھ موجود ہوتی، پھر بھی مجھے کافی آسرا ہوتا ۔پتا نہیں وہاں سے پلوشہ کے ساتھ رابطہ ممکن تھا یا نہیں اس بارے مجھے کچھ اندازہ نہیں تھا البتہ کسی بلند جگہ پر جا کر میں اس تک اپنی آواز پہنچانے میں کامیاب ہو سکتا تھا اور اس وقت مجھے اس کی اشد ضرورت تھی ۔اس سے مدد لینے کا خیال آتے ہی میرے ذہن میں تین چار دن پہلے اپنے کہے ہوئے الفاظ گونجے ۔جب اس نے مجھ سے مدد مانگتے وقت کہا تھا ۔
”دیکھ لو راجا !....ہم دشمن سہی پر قبیل خان کی موت تک ساتھی ہیں ۔کسی وقت تمھیں بھی مجھ سے کام پڑ سکتا ہے ۔“اور جواباََ میں نے ”تمھیں کام بتانے سے پہلے میں خود کشی کرنا پسند کروں گا۔“کہ کر اس کی توہین میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ۔
”لیکن اس کے باوجود میں نے اس کامکمل ساتھ دیا تھا ۔“میں خود کو تسلی دینے لگا۔وقفے وقفے سے کلاشن کوف کے فائر آواز میرے کانوں میں پڑ رہی تھی ۔
پلوشہ نے جاتے وقت کہا تھا کہ وہ رات کے آٹھ اور نو بجے کے درمیان آئی کام آن کرے گی اور اب مجھے آٹھ بجنے کا انتظار کرنا تھا ۔ میں نے کلائی پر بندھی گھڑی پر نگاہ دوڑائی چار بجنے والے تھے ۔ آٹھ بجنے سے چار گھنٹے اب بھی بقایا تھے ۔اس وقت میں اس غار سے جہاں میں نے اور سردار نے بسیرا کیا تھا،ڈیڑھ دو کلومیٹر ہی دور ہوں گا مگر اپنی حالت کے پیش نظر وہ ذرا سا فاصلہ مجھے بہت زیادہ محسوس ہو رہا تھا ۔لمحہ بہ لمحہ میری حالت بگڑتی جا رہی تھی۔ کچھ دیر دم لینے کے لیے میں نے نیچے بیٹھ کر درخت کے تنے سے ٹیک لگا لی اسی وقت مجھے عقب کی طرف سے کسی کے بولنے کی آواز آئی ۔
”ہلکانوواپس زو ،ھغہ بہ منڈا کڑے ای۔“(لڑکو واپس چلو وہ بھاگ گیا ہوگا)وہ میرے کافی قریب پہنچ گئے تھے ۔ اپنی نقاہت اور درد کو پس پشت ڈال کرمیں فوراََ قریبی جھاڑی میں رینگ گیا ۔وہ سرسری انداز میں دائیں بائیں دیکھتے آرہے تھے ورنہ وہاں جھاڑیوں کے اتنے جھنڈ تھے کہ انھیں کھنگالنے کی صورت میں وہ ابھی تک دس پندرہ گز بھی آگے نہ بڑھ سکے ہوتے ۔
”ویسے اسے گولی تو لگی ہوئی ہے شاید زیادہ دور تک نہ جا سکے ۔“ایک اور آدمی نے خیال ظاہر کیا ۔
”یار !....شاہ زیب کہہ رہا تھا کہ اسے گولی بازو میں لگی ہے اس کی ٹانگیں تو سلامت ہیں اور وہ یہ بھی جانتا ہو گا کہ یہاں رکنے کی صورت میں اس کی موت یقینی ہے ۔“یہ بات پہلے والے آدمی نے کہی تھی ۔
”ویسے شاہ زیب خان کو جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیے تھا ۔اسے کچھ قریب آنے دیتا تو با آسانی زندہ پکڑا جا سکتا تھا ۔“یہ چوتھی آواز تھی ۔چاروں تھوڑا سا پھیل کر ایک قطار میں آگے بڑھتے آ رہے تھے ۔میں دم سادھے اسی جگہ دبکا رہا ۔چلتے چلتے وہ کسی گھنے جھنڈ میں ایک دو چھوٹے چھوٹے برسٹ فائر کر دیتے ۔گویا دائیں بائیں پھیلے درختوں کے گھنے جھنڈو ں کی وہ فائر ہی کے ذریعے چھان بین کرتے آرہے تھے ۔وہ مجھ سے چند قدم کے فاصلے پر گزرتے چلے گئے ۔لیکن وہاں سے وہ زیادہ آگے نہیں گئے اور پچاس ساٹھ گز آگے جا کر پیچھے مڑ آئے ۔واپسی پر ان میں سے ایک تو بالکل میرے پاس سے گزرا تھا لیکن ان کا دھیان ایک دوسرے کی باتوں کی طرف تھا ۔ان کا تلاشی لینے کا انداز کسی نا پسندیدہ کام کو سر انجا دینے جیسا تھا ۔لگتا تھاوہ کسی ناگوار حکم کی بجا آوری کے لیے اس طرف آئے ہوں ۔
ان کے گزر جانے کے تھوڑی دیر بعد تک میں لیٹا رہا اور پھر جھاڑی سے باہرنکل آیا۔میرے جسم کا درجہ حرارت آہستہ آہستہ بڑھتا جا رہا تھا اور صحیح طریقے سے چلنا بھی دشوار ہو رہا تھا ۔اس وقت ضروری تھا کہ میں کسی قریبی آبادی کا رخ کرتا ،مگر اس حالت میں وہاں سے انگور اڈے تک چل کر جانا مشکل ہی نہیں ناممکن تھا ۔سب سے بہتر پلوشہ ہی سے رابطہ کرنا تھا ۔لیکن ایک تو اس سے بات کرنے کے لیے مجھے رات آٹھ بجے کا انتظار کرنا پڑتا دوسراوہاں جنگل میں مشکل تھا کہ اس سے بات ہوپاتی ۔اس سے با ت کرنے کے لیے میرا کسی بلند ی پر پہنچنا ضروری تھا ۔اور اس وقت بدقسمتی سے میں ہموار زمین پر بہ مشکل چل پا رہا تھا تو بلندی پر کیسے چڑھتا مگر اس کے علاوہ کوئی چارہ کار بھی نہیں تھا ۔میں آہستہ روی سے قریبی پہاڑی کی طرف بڑھتا رہا ۔سب سے مناسب غار والی پہاڑی تھی ۔دو اڑھائی کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنے میں مجھے دو تین گھنٹے لگ گئے تھے ۔جب میں غارسے پچاس ساٹھ گز کے فاصلے پر پہنچا اس وقت شام کے ساڑھے چھے بج رہے تھے ۔میرے پاس اس پہاڑٰ پر چڑھنے کے لیے ڈیڑھ گھنٹے کا وقت موجود تھا لیکن اس وقت میری جو حالت ہو رہی تھی اس سے میں یا میراکریم ربّ ہی واقف تھا ۔نقاہت ،کمزوری، بخاراور درد کی شدت نے مجھے بے حال کردیا تھا ۔یوں لگ رہا تھا کہ میں زیادہ دیر درد کا مقابلہ نہیں کر پاﺅں گا ۔صرف جان بچانے کی جبلت مجھے تحریک دیے ہوئے تھی ۔میں رینگنے کی رفتار سے بلندی کا سفر طے کرنے لگا ۔پہاڑی کی اونچائی پر چڑھتے وقت صحت مند شخص کا سانس بھی پھول جاتا ہے ، میں تو گھایل تھا۔وہاں آکسیجن بھی بہت کم تھی اور اس کے ساتھ بخار بھی مجھے اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا۔ گویاایک ساتھ کئی مصیتوں مجھ پر ٹوٹ پڑی تھیں ۔اس وقت اگر میں اپنا پچھلا قدم اٹھا کر آگے کی طرف رکھ رہا تو اس میں صرف میری قوت ارادی کا عمل دخل تھا ۔ورنہ میری حالت ایسی نہیں تھی کہ خالی سفرہی کر سکتا کجا چڑھائی چڑھنا ۔غار کے دہانے کے قریب پہنچ کر میں نے اپنی رائفل اور جھولا وہیں پھینکا اور صرف آئی کام سیٹ جھولے سے نکال کر اوپر کی جانب بڑھ گیا ۔
زخم سے بہنے والا گاڑھاخون زخم کے منہ پر جم چکا تھا ۔زخم پر باندھی گئی چادر بھی اکڑ کر کندھے ہی کا حصہ بن چکی تھی ۔ میں چیونٹی کی رفتار سے حرکت کرتا رہا ۔ہر دس بارہ قدم کے بعد مجھے سانس لینے کے لیے بیٹھنا پڑتا ۔سورج پہاڑ کے پیچھے غائب ہو گیاتھا ۔تیز ہوا چلنے لگی تھی جو اس موسم میں بھی مجھ پر کپکپی طاری کر رہی تھی ۔یہ ایک نئی اذیت تھی ۔سردی ،درد ،بخار ،تھکن ،دشمنوں کا خوف ،ناامیدی اور موت کی آہٹ۔اس وقت جانے میں کس کس کیفیت سے گزر رہا تھا ۔پلوشہ جس سے بات کرنے کے لیے میں بلندی کا اذیت ناک سفر طے کر رہا تھا اس کی ذات سے بھی مجھے کوئی خاص امید نہیں تھی ۔یہ بھی ممکن تھا کہ بلندی سے رابطہ نہ ہو پاتا اور یہ بھی ممکن تھا کہ وہ کوئی بہانہ کر دیتی بلکہ یہ کہہ کر جان چھڑا لیتی کہ....
”اچھا ہے قبیل خان کے بعد میں نے تمھیں یوں بھی قتل کرنا تھا ۔“
اگر دیکھا جاتا تو رات کے وقت اس کا اکیلا سفر کرنا بھی تو کافی مشکل کام تھا ۔گو وہ ایک بہادر لڑکی تھی ۔مگر اس وقت وہ اکیلی میری تلاش میں تو اپنی پناہ گاہ سے نہیں نکل سکتی تھی ۔ اور پھر اس کی ماں کیا پڑی تھی کہ کسی غیر کے لیے اسے اتنی رات گئے کہیں جانے کی اجازت دیتی ۔لیکن کہتے ہیں ڈوبتے کو تنکے کا سہار اہوتا ہے ۔ رات کو نہ سہی وہ صبح سویرے تو مجھے ڈھونڈتے ہوئے آ سکتی تھی ۔اور اگر میں اذیت بھری رات گزار لیتا تو شاید اگلی صبح مجھے کوئی نہ کوئی مدد مل جاتی ۔میرے ذہن پر آہستہ آہستہ اندھیروں کی یلغار ہونے لگی تھی ۔ زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے میری حالت ناگفتہ بہ ہورہی تھی ۔ان ساری تکلیفات کا مقابلہ کرتے آخر میں اونچائی پر پہنچ ہی گیا ۔اس علاقے میں ہوا عموماََ مغرب سے مشرق کی جانب چلتی ہے ۔اس وقت میں پہاڑ کی جنوب مغربی جانب موجود تھا اور اسی وجہ سے میں براہ راست ہوا کی زد میں بھی تھا ۔پہاڑی کی چوٹی پر پہنچ کر میں دوسری سمت دو تین گز نیچے ہو کر ایک بڑی چٹان کی آڑ میں ہو گیا ۔ وہاں ہوا کی براہ راست زد میں آنے بچ گیا تھا ۔پانچ دس منٹ مجھے اپنا سانس بحال کرنے میں لگے ۔ اس کے بعد میں نے گھڑی کی اندرونی لائیٹ جلا کر وقت دیکھا ۔ سوا آٹھ ہو رہے تھے ۔
مجھے ڈر ہوا کہیں پلوشہ نے آٹھ بجے آئی کام سیٹ آن کرنے کے بعد کوئی کال نہ آتی دیکھ کرآئی کام کو بند ہی نہ کر دیا ہو ۔یوں بھی جب سے وہ گئی تھی میں نے ایک بار بھی اس سے رابطہ نہیں کیا تھا۔میرے دماغ میں آہستہ آہستہ اندھیرا پھیل رہا تھا ۔ مجھے آنکھیں کھلی رکھنا مشکل ہو رہا تھا ۔لیکن میں کسی نہ کسی طرح سر جھٹکتے خود کو ہوش میں رکھتے ہوئے آئی کام سیٹ آن کرکے پلوشہ کو پکارنے لگا ۔ ”پلوشہ ....پلوشہ ....پلوشہ ....“میں نے بٹن پریس کر کے چند بار پکارا مگر کوئی جواب نہ آیا ۔فقط وائرلیس کا اپنا شور سنائی دیتا رہا ۔
میری آنکھیں بند ہونے لگی تھیں اور اسی غنودگی میں میرے دماغ میں ۔”راجا ....راجا ....راجا “کی آوازیں گونجیں کوئی بہت دور سے مجھے پکار رہا تھا ۔میری پلکیں بہ مشکل وا ہوئیں ۔وہ پلوشہ ہی کی آواز تھی ۔
”پلوشہ !“میں نے بٹن پریس کر کے بہ مشکل جواب دیا ۔
”ہاں راجاکیا بات ہے ؟....سب ٹھیک ہے نا ؟“
”مم....مجھے گولی لگ گئی ہے۔“
”کیا کہہ رہے ہو ؟“اس کی آواز میں تشویش تھی ۔”اور تم اس وقت کہاں پر ہو؟“
”میں ....میں اس وقت اسی غارکی مغربی سمت میں واقع بلند چوٹی پر موجود ہوں ، جہاں تم پہلی بار مم....مل....ملی تھیں ۔“ یہ کہتے ہی میری آنکھیں پھر بند ہونے لگیں ۔
”کون سی بلند چوٹی ؟“اس کی آوازمجھے کہیں دور سے آتی محسوس ہوئی ۔
”کک....کندھے میں گولی لگی ....خخ....خون ،بب....بہت .... بہہ گیا ........“ میں جیسے خود کلامی کے انداز میں بڑبڑا رہا تھا ۔
”اپنی جگہ کے بارے بتاﺅ ....راجا ....راجا....راجا۔“اس کے مسلسل پکارنے پر میں نے دوبارہ کوشش کی ۔مجھ سے وائرلیس کا بٹن بھی بڑی مشکل سے دبا یا جا رہا تھا ۔
”غغ....غا....ر....غار....جج....جہاں ....رے ....رات ....گزاری تھی .... اکٹھے ....پہاڑ،مغرب میں سس.... سب ....سب ....سے اونچی جج جگہ ۔جج....جا....جس کے دد....دامن....مم....میںچچ....چل....غو....زوںکا....جج....جنگل.... جنگل....ہوں....“ اور میرے دماغ میں غنودگی چھا گئی ۔اس کے بعد اس نے کیا کہا تھا یہ میری سماعتیں نہیں سن پائیں تھیں ۔
اور پھر نہ جانے رات کا کون سا پہر تھا ۔کسی نے مجھے جھنجوڑا اس کے ساتھ ہی میرے چہرے پر گیلا ہاتھ پھیراگیا ۔”راجا .... راجا ۔“میرے کانوں بہت دور سے پلوشہ کی آواز آرہی تھی شاید ابھی تک وائرلیس سیٹ آن تھا ۔
”ہاں پلوشہ !....میں پہاڑ کی چوٹی ....“
”راجا!.... ہوش میں آﺅ۔“مجھے اپنے گالوں پر پھر گیلے ہاتھوں کا لمس محسوس ہوا ۔اس کے ساتھ ہی اس نے میرے منہ کے ساتھ پانی کی بوتل لگا دی ۔مجھے سخت پیاس محسوس ہو رہی تھی ۔دوتین گھونٹ لیتے ہی مجھے کچھ ہوش آیا اور میں نے آنکھیں کھول دیں ۔اپنے چہرے پر مجھے ٹارچ کی روشنی محسوس ہوئی۔
”پلوشہ !....؟“میں نے سوالیہ انداز میں پکارا ۔
”ہاں میں پلوشہ ہوں ۔اور اٹھو یہاں سے چلنا ہو گا ۔“
”مم....میں بہت تھک گیا ہوں ۔“میں نے جیسے خود کلامی کی تھی ۔
”ہاں جانتی ہوں ۔“اس کی نرم آواز میری سماعتوں میں گونجی ۔”مگر یہ جگہ مناسب نہیں ہے نیچے غار میں جانا ہوگا ۔اٹھو میں تمھیں سہارا دیتی ہوں ۔“
طوعن و کرہن میں کراہتے ہوئے اٹھا ۔بایاں کندھا بالکل شل ہو چکا تھا ۔اس نے میرا دایاں ہاتھ اپنے کندھے پر رکھ لیا ۔اس کا بدن بہت مضبوط اور توانا تھا ۔وہ عام لڑکیوں سے بالکل مختلف تھی ۔ لیکن اس کے باوجود اس حالت میں بھی میں اس کے بدن کا گداز پن محسوس کیے بنا نہیں رہ سکا تھا ۔
مجھے سہار ا دے کر وہ آہستہ آہستہ نیچے اترنے لگی ۔اپنا بایاں ہاتھ اس نے میری کمر سے لپیٹا ہوا تھا ۔آدھے گھنٹے کی کوشش کے بعد ہم کافی نیچے اتر آئے تھے ۔ایک چھوٹی ٹارچ جلا کر اس نے دائیں ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھی ۔ہوا تو جیسے ہم دونوں کو اڑا رہی تھی ۔مزید پندرہ منٹ حرکت کرنے کے بعد وہ جھاڑیوں کے جھنڈ میں رستا بناتی ہوئی اندر داخل ہوئی اس کے ساتھ ہی مجھے ٹارچ کی روشنی میں غار کا کھلا دہانہ نظر آنے لگا ۔نیچے جھک کر ہم اندر داخل ہوئے ۔ دہانے سے آگے غار اچھی خاصی اونچی تھی ۔یہ وہی غار تھی جس میں میں نے بڑی بے دردی سے اسے تشدد کا نشانہ بنایا تھا اور آج میں مکمل طور پر اس کے رحم و کرم پر تھا ۔مجھے بٹھا کروہ غار کے دہانے پر پڑا اپنا اور میرا سامان سمیٹ کر اندر لے آئی ۔میں گھٹنوں پر سر رکھ کر بیٹھ گیا تھا ۔میرا تھیلا میرے سر کے جانب رکھتے ہوئے وہ مجھے لیٹنے میں مدد دینے لگی۔
مجھے نیچے لٹاکر۔”میں آتی ہوں ۔“ کہہ کر وہ باہر نکل گئی ۔تھوڑی دیر بعد وہ خشک لکڑیوں کا گٹھا لے کر اندر گھسی ۔چھوٹی چھوٹی لکڑیاں ترتیب سے رکھ کر اس نے لکڑیوں کو آگ لگا دی ۔چند لمحوں میں غار کے اندرآگ کی روشنی کے ساتھ خوشگوار حدّت پھیل گئی تھی ۔گو وہ موسم آگ جلانے والا نہیں تھا ،لیکن مجھ پر طاری کپکی دیکھ کر اس نے آگ جلانا ضروری سمجھا تھا ۔
”گولی بازو کے اندر ہے یا نکل گئی ہے ۔“آگ جلا کر وہ میرے جانب متوجہ ہوئی ۔
”اندر ہی ہے ۔“میں بے بسی سے بولا۔
”ہونہہ!....یہ تو اچھی بات نہیں ہے ۔بہ ہرحال تمھیں تھوڑی تکلیف برداشت کرنا پڑے گی۔“عام سے لہجے میں کہتے ہوئے اس نے اپنا جھولا کھول کر باریک دھار کا ایک خنجر نکالااور ایک درمیانی جسامت کا پتھر آ گ کے قریب رکھ کر اس پر وہ خنجر اس طرح رکھا کہ اس کی دھار کو آگ کے شعلے چھونے لگے ۔اس کا ارادہ جانتے ہی میرے بدن میں چیونٹیاں رینگنے لگی تھیں ۔
”پہلے بھی کبھی یہ کیا ہے ؟“میں نے تھوک نگلتے ہوئے پوچھا ۔
”کیا نہیں ہے ،دیکھا تو ہے نا ....اور میرے خیال میں اتنا کافی ہے ۔“
”مم....مگر دیکھنے اور کرنے میں بہت فرق ہے ۔“میں ہکلایا۔
وہ ہلکے سے مسکرائی ۔”اگر تمھارے پاس کوئی دوسری تجویز ہے تو میں رہنے دیتی ہوں ۔“
”نہیں ۔تجویز تو کوئی نہیں ہے ۔“
”اگر تجویز کوئی نہیں ہے تو پھر ہمت کرو ....صرف بندھی ہوئی لڑکیوں کی پٹائی کرنا ہی بہادری نہیںہوتی ۔درد اور تکلیف برداشت کرنے کا حوصلہ بھی ایک مرد میں ہونا چاہیے ۔“اس نے بے رحمی سے میری ماضی کی زیادتی کو یاد کیا تھا۔
میں پھیکی مسکراہٹ سے بولا۔”ویسے تمھارے لیے اچھا موقع ہے ۔تم اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کا بدلہ لے سکتی ہو ۔“
”میں مرے ہوئے کو نہیں مارا کرتی ۔باقی تمھیں میں نے قبیل خان کی ہلاکت کے بعد قتل کرنے کا ارادہ کیا ہوا ہے اور اپنے ارادے کے خلاف میں کبھی قدم نہیں اٹھاتی ۔“یہ کہتے ہی وہ میرے قریب ہوئی اور میرے کندھے سے بندھی چادر کو کھولنے لگی ۔اس کے چہرے پر چھائے بے پرواہی کے تاثرات اس کے بلند حوصلے کو ظاہر کر رہے تھے ۔اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ وہ ایک بہادر ،دلیر ،جرّات مند اوربا حوصلہ لڑکی تھی ۔حالانکہ اس کی عمر کی لڑکیاں تو بہ مشکل گڑیوں سے کھیلنے سے فارغ ہوتی ہیں ۔اور وہ میرے کندھے سے گولی نکالنے کی تیاری کر رہی تھی ۔
چادر کھول کر میرے زخم کا جائزہ لیتے ہوئے اس نے اپنے جھولے سے سٹیل کا بڑا سا مگ نکالا اور اس میں پانی بھرکر آگ پر رکھ دیا ۔میں خالی خالی نظروں سے اس کی کارروائی دیکھ رہا تھا ۔میرا دل آنے والے جاں گسل لمحات کا سوچ کر دھڑک رہا تھا ۔وہ جو طریقہ اپنا کر میرے کندھے سے گولی نکالنے والی تھی اس درد کو برداشت کرنے کی ہمت میں اپنے اندر مفقود پاتا تھا ۔لیکن اس وقت ایک لڑکی کے سامنے اپنی بزدلی ظاہر کرنے کا حوصلہ بھی مجھ میں نہیں تھا ۔اس کے ساتھ یہ بھی مسئلہ تھا کہ اسے منع کرنے کی صورت میں میرے پاس کوئی متبادل حل بھی موجود نہیں تھا ۔نہ تو وہاں ہسپتال موجود تھا اور نہ کوئی ڈاکٹر۔ گولی زیادہ دیر کندھے میں رہتی تو کندھے کو ناقابل تلافی نقصا ن بھی پہنچ سکتا تھا ۔خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑنے کا فیصلہ کر کے میں خاموش پڑا پلوشہ کی کارروائی دیکھتا رہا ۔پانی گرم کر کے اس نے میری قمیص کندھے سے پھاڑکر زخم کوبالکل ننگا کر دیا ۔پھر اپنے جھولے سے ایک صاف چادر نکال کر اس میں سے ایک ٹکڑا پھاڑا اور گرم پانی میں وہ کپڑا بھگو کر زخم کا منہ صاف کرنے لگی ۔گرم پانی کے لگتے ہی زخم سے پھر خون رسنے لگا تھا ۔اس کے ساتھ ہی درد میں اضافہ ہو گیا ۔میں دانت بھینچے خاموش پڑا رہا ۔رہ رہ کر میرے دماغ میں پلوشہ کا طعنہ گونج رہا تھا ۔
”صرف بندھی ہوئی لڑکیوں کی پٹائی کرنا ہی بہادری نہیںہوتی ۔درد اور تکلیف برداشت کرنے کا حوصلہ بھی ایک مرد میں ہونا چاہیے ۔“
میرے اپنے خیال کے مطابق مجھ میں برداشت کا مادہ وافر مقدار میں موجود تھا ۔مگر اس وقت جو مرحلہ درپیش تھا اس بارے سوچ کر ہی میری ہمت جواب دیتی جا رہی تھی ۔اگر کوئی تجربہ کار شخص ہوتا تب بھی مجھے اتنا خوف نہ ہوتا ،لیکن وہاں تو ایک نا تجربہ کار لڑکی تھی ۔
میرے خیا لات سے بے خبروہ اطمینان سے میرے زخم کو گرم پانی سے دھوتی رہی ۔زخم کو اچھی طرح صاف کرنے کے بعد اس نے اپنے جھولے سے ایک اور بوتل نکالی ۔اس کا ڈھکن کھلتے ہی میری ناک میں سپرٹ کی ناگوار بو داخل ہوئی ،یقینا وہ اپنی جگہ سے مکمل تیاری کر کے چلی تھی ۔بوتل کا ڈھکن کھول کر وہ میرے زخم پر سپرٹ ڈالنے لگی ۔زخم میں شدید جلن شروع ہو گئی تھی ۔میرے ہونٹوں سے بے اختیار سسکی برآمد ہوئی ۔ تھوڑی سی مزید سپرٹ میرے زخم پر انڈیل کر اس نے بوتل بند کر کے ایک طرف رکھ دی ۔
”تیار ہو ۔“اس نے عام سے لہجے میں پوچھا ۔میرا دل کر رہا تھا کہ انکار کر دوں ایک اناڑی کے ہاتھوں اپنے کندھے کا بیڑا غرق کرانا کہاں کی دانش مندی تھی ۔مگر میں چاہتے ہوئے بھی انکار نہ کر سکا اور آنکھیں بند کرتے ہوئے میں نے اثبات میں سر ہلادیا ۔
اچانک مجھے اپنے گالوں پر اس کے ہاتھوں کا لمس محسوس ہوا ۔میں نے ایک دم آنکھیں کھول دیں ۔وہ ٹکٹکی باندھے اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے مجھے گھور رہی تھی ۔آگ کے بھڑکتے شعلوں کی روشنی میں اس کا چہرہ عجیب مگر بہت دلکش لگ رہا تھا ۔چند لمحے مجھے گھورنے کے بعد وہ نرم لہجے میں بولی ۔
”گھبرانا نہیں ....درجن سے زیادہ مرتبہ یہ کام کر چکی ہوں ۔اتنی زیادہ تکلیف نہیں ہونے دوں گی تمھیں ....بلکہ قبیل خان کی ہلاکت کے بعد جب تمھیں قتل کروں گی اس وقت بھی ڈائریکٹ تمھارے دل میں گولی اتاروں گی تاکہ تمھارا سانس جلدی نکلے ۔“یہ کہتے ہوئے اس کے ہونٹوں پر دل آویز مسکراہٹ ابھری ۔
اس کی اول الذکر بات نے مجھے بہت حوصلہ دیا تھا ۔اگر واقعی میں وہ درجن بھر سے زیادہ مرتبہ یہ کام کر چکی تھی تو اسے کافی ماہر ہونا چاہیے تھا ۔صاف کپڑے کا ایک ٹکڑا کاٹ کر اس نے گولا سا بنا کر میرے منہ میں دیا تاکہ میں چیخ روک سکوں ۔
اس کے بعد خنجر آگ سے اٹھا کراس نے ٹارچ جلا کر اپنے منہ میں پکڑلی۔بائیں ہاتھ سے میرا کندھا تھام کر اس نے خنجر کی گرم نوک زخم پر رکھی درد کی شدید لہر سے میں کانپ سا گیا تھا ۔دانت سختی سے بھینچ کر میں نے آنکھیں بند کر لی تھیں ۔اس نے ماہرانہ انداز میں خنجر کی نوک زخم میں گھمائی اور کندھے کے گوشت میں گھسے بُلٹ کو محسوس کیا ۔میرا ہاتھ کانپنے لگ گیا تھا ۔اور پھر ایک دم اس نے مخصوص انداز میں جھٹکا دیا۔ درد کی شدید لہر سے میں اچھل پڑا تھا ۔میرا بایاں ہاتھ مسلسل کانپ رہا تھا ۔پتا نہیں گولی باہر نکلی تھی کہ نہیں لیکن درد کی شدت سے میرا برا حال تھا ۔میں نیم بے ہوش سا ہو گیاتھا ۔اور خود کو اس کی دوسری کوشش کے قابل نہیں سمجھ رہا تھا ۔اچانک مجھے اپنے گالوں پر اس کی ہتھیلیوں کا لمس محسوس ہوا ۔
”بس ....بس ....ہو گیا ۔نکل گئی گولی باہر ۔“میں نے گہرا سانس لے کر آنکھیں کھول دیں۔
میرے منہ سے کپڑے کا گولا نکال کر وہ ہلکے سے مسکرائی ۔”اتنی سی بات تھی ،تم یونھی گھبرا رہے تھے ۔یقین مانو یہ کام کسی بے بس لڑکی کی پٹائی کرنے سے بھی زیادہ آسان ہے ۔“
واقعی اس نے بہت سرعت اور تیزی سے یہ کام کیا تھا ۔منٹ سے بھی کم وقت میں اس نے گولی نکال لی تھی ۔اس کی موخّر الذکر بات سن کر میرے ہونٹوں پر پھیکی مسکراہٹ ظاہر ہوگئی تھی۔
میرے بگڑے ہوئے چہرے کو اعتدال پذیر ہوتے دیکھ کر وہ زخم کی طرف متوجہ ہو گئی ۔ زخم کو ایک مرتبہ پھر سپرٹ سے دھو کر اس نے نرم کپڑے کی چادر سے دو تین لمبی لمبی پٹیاں پھاڑیں اور اپنے جھولے سے ایک مومی لفافہ نکال لیا جس میں کوئی سفوف بھرا تھا ۔مٹھی بھر سفوف زخم پر ڈال کر اس نے ایک پٹی تہہ کر کے زخم پر رکھی اور پھر اس پر پٹی باندھنے لگی ۔زخم پر پٹی باندھ کر دوسری پٹی میرے گلے میں ڈالی اور میرا ہاتھ احتیاط سے دہرا کر کے پٹی سے گزار کر میرے پیٹ پر رکھ دیا ۔
سفوف سے میرے زخم میںہونے والی جلن کم ہونے لگی ۔وہ دوبارہ اپنے جھولے کی طرف متوجہ ہوئی ۔اس مرتبہ اس نے جھولے سے ڈیڑھ لیٹر کی کولڈ ڈرنک والی بوتل نکالی جو دودھ سے بھری ہوئی تھی ۔سٹیل کے مگ میں موجود پانی گرا کر اس نے تھوڑا سا مزید پانی ڈال کر مگ کو صاف کیا اور اس میں گلاس کے بہ قدر دودھ ڈال کر گرم کرنے لگی ۔اس دوران اس نے دودھ میں کچھ شامل بھی کیا تھاشاید وہ ہلدی وغیرہ تھی ۔دودھ کوہلکا سا گرم کر کے وہ میرے قریب آئی اور میری پیٹھ پیچھے بیٹھ اس نے آہستگی سے مجھے سہارا دے کر اٹھایااور میرے دائیں ہاتھ میں دودھ کا مگ پکڑا کر وہ مجھے پیچھے سے تھام کر بیٹھ گئی ۔
میں ہلکے ہلکے گھونٹ لے کر دودھ پینے لگا ۔دودھ پی کر میں نے اپنا سر تھکے تھکے انداز میں پیچھے ٹیکا لیکن اگلے ہی لمحے میں نے اپنا سر اوپر اٹھا لیا کہ اس جانے پہچانے گداز پن کو محسوس کرتے ہوئے میں اس حالت میں بھی گھبرا گیا تھا ۔
اسے بھی شاید میرے احساسات کی خبر ہو گئی تھی ۔اس نے آہستہ سے میرا سر دوبارہ تھیلے پر منتقل کر دیا ۔
”اچھا اب تم آرام کرو مجھے واپس جانا ہے ۔“
”تو آنے کی ضرورت ہی کیا تھی ۔“نہ چاہتے ہوئے بھی میرے لہجے میں تلخی کا عنصر نمایاں تھا۔
میری بات سن کر وہ ہولے سے مسکرائی ۔”اگر نہ آتی تو تمھیں موت کے منہ سے کون واپس لاتا ۔اور نہ گئی تو تمھارے لیے مناسب خوراک اور دوائیوں وغیرہ کا بندوبست کیسے کروں گی ؟“
”معذرت خواہ ہوں ۔میں نے سوچا شایدتم پکی واپس جا رہی ہو ۔“میں نے خفیف ہوتے ہوئے کہا ۔
”ویسے تمھارے چہرے پر ظاہر ہونے والا ندامت کا اثر مجھے بہت برا لگتا ہے ۔تمھاری عادتوں سے بھی برا ۔“
”اب تم نے طعنے تو دینے ہیں غلطی سے میرے کام جو آ گئی ہو ۔“میں نے اسے مطعون کرنے کی کوشش کی ۔
وہ میری کوشش کو ناکام کرتے ہوئے بولی ۔”اس میں شک ہی کیا ہے ....ایک ایسا شخص جسے میں قتل کرنے کا تہیہ کر چکی ہوں اس کی جان بچانے کے لیے رات کے وقت گھر سے نکلنا اور اتنے دشوار گزار رستے پر بغیر آرام کیے اس کے پاس پہنچنا ....مطلب اس کے بعد بھی اگر میں طعنے نہ دوں تو کون دے گا ۔“یہ سب کچھ اس نے سنجیدہ انداز میں کہا تھا ۔لیکن میرا وجدان کہہ رہا تھا کہ وہ یہ سب بہ طور مذاق کر رہی ہے ۔اسے میری فکر ہے ۔اگر فکر نہ ہوتی تو کیا یوں میری حفاظت کرنے پہنچتی ۔
”اگر طعنے ہی دینے ہیں تو براہ مہربانی تشریف لے جائیں ،مجھے تمھاری مدد کی کوئی ضرورت نہیں ۔“
”جا تو میں رہی ہوں ۔اور میرا دل بھی نہیں چاہ رہا کہ تم جیسے آدمی کی مدد کروں ۔ بس یہ چیز مجھے مجبور کر رہی ہے کہ تم میرے دشمن کے دشمن ہواس لیے تمھیں فی الحال مرنے کے لیے نہ چھوڑوںاور بعد میں ویسے بھی تم نے میری گولی کا نشانہ بننا ہے ۔“
اس مرتبہ میں اس کی بات کا جواب دیے بغیر خاموش رہا تھا ۔وہ اپنے تھیلے سے ایک چھوٹا سا سلپنگ بیگ نکال کر مجھے اوڑھانے لگی ۔
میں اسے مطلع کرتے ہوئے بولا۔”میرے تھیلے میں بھی ایک سلپنگ بیگ موجود ہے ۔“
”چلو پھر یہ نیچے بچھا دیتی ہوں ۔“اپنا سلپنگ بیگ نیچے بچھا کر اس نے مجھے اس پر لیٹنے میں مدد دی اور میرا سلپنگ بیگ مجھے اوڑھا دیا ۔ڈریگنوو رائفل اور بریٹا پستول میرے قریب رکھ وہ جانے کے لیے تیا رہو گئی ۔
”بہتر ہو گا کہ تم صبح جاﺅ ۔“
وہ مسکرائی ۔”کیوں اکیلے ڈر لگ رہا ہے ۔“
”نہیں ....لیکن اتنی رات گئے تمھیں دوائیں وغیرہ تو کہیں سے نہیں ملیں گی ۔اور تین چار گھنٹے آرام کے بعد ہم دونوں نکل چلیں گے ۔اب یہاں کتنے دن گزارے جا سکتے ہیں ۔میرا خیال ہے کمانڈر نصراللہ کی بیٹھک میرے لیے زیادہ آرام دہ رہے گی ۔“
”چل پاﺅ گے ؟“
”امید تو ہے ....یوں بھی مجھے تم پر بالکل اعتبار نہیں ہے ۔کیا پتا قبیل خان سے پہلے ہی میرا نمبر لگا دو ۔“
”ہاہاہا۔“اس کا سریلا قہقہہ بلند ہوا ۔”اب کی ہے عقل مندی کی بات ۔“
میں نے منہ بناتے ہوئے کہا ۔”تمھیں تو موقع مل گیاہے نا بدلہ لینے کا ۔“
”ہونہہ....“کہہ کر اس نے پر خیال انداز میں سر ہلایااور پھر جانے کا ارادہ موّخر کر کے میرے ساتھ ہی بیٹھ کر میرا سر دبانے لگی ۔
اس وقت میرے سر میں کافی درد ہو رہا تھا اور ایسی حالت میں آدمی کا جی چاہتا ہے کہ کوئی اس کا سر دبائے لیکن پلوشہ کا سر دبانا مجھے کافی عجیب لگا تھا ۔میں نے سر اس کے ہاتھ سے دور کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ۔”اس کی ضرورت نہیں ۔“
”آرام سے لیٹے رہو ۔“مجھے جھڑکتے ہوئے اس نے اپنا کام جاری رکھا ۔
میں نے بھی زیادہ اکڑ خانی دکھانے کے بجائے خاموشی میں عافیت سمجھی ۔جب وہ ڈھیٹ پن سے ہر کام مجھے کہہ سکتی تھی تو مجھے بھی اس سے سر دبوانے میں کوئی جھجک نہیں ہونا چاہیے تھی ۔ میں نے آنکھیں بندکر لیں ۔اس کے سر دبانے سے مجھے سکون محسوس ہونے لگا تھا ۔اور پھر اس کا دوسرا ہاتھ میرے بالوں میں سرسرانے لگا ۔ماہین بھی میرا سر دباتے ہوئے یونھی میرے بالوں میں انگلیاں پھیرا کرتی ۔اس کی یاد آتے ہی میرے منہ میں تلخی گھل گئی تھی ۔میں نے فوراََ آنکھیں کھول دیں ۔وہ اپنی موٹی موٹی آنکھوں سے میرے چہرے ہی کو گھو ررہی تھی ۔میں نے دوبارہ آنکھیں بند کر لیں ۔اسی وقت اس کی نرم آواز نے میری سماعتوں پر دستک دی ۔
”ویسے تم یہاں کیا کرنے آئے تھے ۔“
میں آنکھیں کھولے بغیر بولا۔”مجھے پتا چلا تھا کہ قبیل خان اپنی تباہ شدہ حویلی کو دوبارہ تعمیر کروا رہا ہے اور اس سلسلے میں وہ یہاں مسلسل پھیرے لگا رہاہے ۔بس میں اسی بات کی تصدیق کے لیے آیا تھا۔“
”مجھے کیوں نہیں بلایا۔“اس کے لہجے میں بلا کی خفگی پوشیدہ تھی ۔
”کہا تو ہے میں بس تصدیق کرنے لیے آیا تھا ۔“میں نے صفائی پیش کی ۔
اس نے اشتیاق بھرے لہجے میں پوچھا ۔”تو پھر کیا رہا ؟“
”کچھ معلوم کرنے سے پہلے ہی میں اس کے ایک محافظ کی نظروں میں آگیا ۔کم بخت نے دیر کیے بغیر گولی چلا دی ۔قسمت اچھی تھی جو کندھے میں لگی ۔ورنہ گولی سر میں لگنے کی صورت میں شاید تمھیں معلوم بھی نہ ہوتا کہ تمھارا دشمن ،قبیل خان کے محافظ کے ہاتھوں پورا ہو گیا ۔“
”بکواس نہ کیا کرو ۔“اس کے ہونٹوں سے بے ساختہ پھسلا۔میں نے ایک دم آنکھوں کھول کر اس کی آنکھوں میں جھانکا۔وہ نظریں چرا کر آگ کے مدھم پڑتے شعلوں کو دیکھنے لگی ۔
”اس میں بکواس کی کیا بات ہے ۔“میں پوچھے بنا نہیں رہ پایا تھا ۔
”کیونکہ تمھیں صرف میں ہی قتل کروں گی ۔“اس نے گڑبڑاتے ہوئے بات بنانے کی کوشش کی ۔
میں نے موضوع تبدیل کرتے ہوئے کہا ۔”اچھا تم نے یہ نہیں بتایا کہ شادی میں ڈانس کر کے کتنی رقم اکٹھی ہوئی ۔“
وہ بگڑتے ہوئے بولی ۔”تمھیں کیا، جتنی رقم بھی اکٹھی ہوئی ہے ۔“نا معلوم اسے کیوں میر ی بات پر غصہ آ گیا تھا ۔یا شاید وہ لمحہ بھر پہلے مجھ سے چاہت ظاہر کرنے والی بات کا ردعمل ظاہر کر رہی تھی ۔
میں دھیمی آواز میں ہنسا ۔”اچھا ایک بات پوچھوں ؟“
”کوئی ضرورت نہیں ۔“اس کا لہجہ اسی طرح بگڑا ہوا تھا ۔
میں نے کچھ کہے بنا متبسم ہو کر آنکھیں بند کر لیں ۔
”پوچھو....“دو تین منٹ کی خاموشی کے بعد وہ گویا بادل نخواستہ بولی تھی ۔
”ملک ثقلین خان کے بیٹے کی شادی میں میرے سر پر پیسے پکڑنے والا کون تھا ؟“میں نے کئی دنوں سے ذہن میں مچلنے والا سوال اگل ڈالا ۔
”مجھے اندازہ تھا کہ تم کچھ ایسا ہی پوچھو گے ۔“
”واہ ....بھلا وہ کیسے ؟“میں نے حیرانی ظاہر کی ۔
وہ شرارتی لہجے میں بولی ۔”کیونکہ مرد ہوتے ہی شکی مزاج ہیں ۔ابھی تک شادی کا پیغام نہیں بھیجا اور پہلے ہی سے مجھ پر شک کرنا شروع کر دیا ۔“
میں جھلاتے ہوئے بولا ۔”بکواس کرنا تو کوئی تم سے سیکھے ۔“
”ہا....ہا....ہا۔“اس کا سریلا قہقہہ بلند ہوا ۔”قسم سے بکواس نہیں کر رہی ۔ایمان سے بتاﺅ کیا تم اس لیے یہ نہیں پوچھ رہے کہ اس دن میں نے اس سے اکیلے میں بات کی اور بعد میں تمھارے سر پر پیسے رکھتے وقت اس نے آخری نوٹ میرے گال سے لگایا جس پر میں نے کوئی اعتراض نہیں کیا تھا اور یہی بات تمھیں تپائے ہوئے ہے ۔“
میں نے منہ بنات ے ہوئے کہا ۔”تم میں لڑکیوں والی کوئی بات ہے ہی نہیں ہے۔میری گود میں بھی تم بے شرموں کی طرح بیٹھ گئی تھیں تو کسی اور کے تمھارے گال چھونا تواس سے بہت چھوٹی بات ہے ۔“
”تمھاری بات تو خیر اور ہے ۔تم نے تو یوں بھی مجھ سے شادی کرنا ہے چاہے میں تمھیں قتل کرنے کے ارادے سے باز نہ بھی آﺅں ۔“
”پلوشہ ہر وقت بکواس نہ کیا کرو سمجھیں ....کبھی سنجیدہ گفتگو بھی کر لیا کرو ۔“
”اچھا تم قسم کھا کر بتاﺅ کیا تم نے اس آدمی کے بارے اسی لیے نہیں پوچھا کہ اس کی حرکت پر میں معترض نہیں ہوئی تھی ،حالانکہ اس کے علاوہ میں نے کسی کو بھی اس قسم کی حرکت کی اجازت نہیں دی تھی۔“
اس کی بات پر میں نے اپنے دل میں جھانک کر دیکھا تو مجھے اس کی بات میں کوئی شک محسوس نہ ہوا ۔اس کا اندازہ بالکل ٹھیک تھا لیکن یہ بات ظاہر کر کے میں اپنا مذاق نہیں بنا سکتا تھا اس لیے کچھ کہنے کے بہ بجائے میں نے خاموشی ہی میں عافیت سمجھی ۔
”اچھا زیادہ پریشانی ہونے کی ضرورت نہیں وہ میرا بھائی ہے ۔“
”کیا ....؟“میں نے حیرانی اور غصے سے اس کی جانب دیکھتے ہوئے کہا ۔”جھوٹ بولنے کی کوئی حد ہوتی ہے پلوشہ ۔پہلے تم نے کہا کہ تمھارا ایک چھوٹا بھائی اور ماں ہے ۔اب یہ نیا بھائی کہاں سے نکال لیا ۔“
”یہ میرے رشتے کے ماموں کا بیٹا ہے اور یہ چند ماہ کا تھا جب اس کی ماں فوت ہو گئی تھی ۔ اسے امی جان نے دودھ پلایا تھا ۔اب تمھاری سمجھ میں آگیا ہو گا کہ یہ کیسے میرا بھائی ہے ۔“
”تمھارا ماموں تو مجاہدہے نا ۔“
”ہاں ،لیکن یہ سمگلر ہے ۔قبیل خان کے لیے بھی کام کرتا ہے اور ملک ثقلین کے لیے بھی ۔ ان کی دہشت گردانہ کارروائیوں میں تو حصہ نہیں لیتا لیکن اسلحے اور نشہ آوراشیاءکی اسمگلنگ میں ضرورملوث ہے اور اس سے مجھے قبیل خان کے متعلق بھی کافی مفید معلومات مل جاتی ہیں ۔“
”تو کیا قبیل خان اس کے اور تمھارے رشتے سے ناواقف ہے ۔“
”کیا احمقوں جیسی بات کر رہے ہو ،قبیل خان مجھے کہاں جانتا ہے ۔سپوگمائے بھی اسے یاد نہیں ہو گی ۔اس کی ہوس کا شکار ہونے والی میری بہن اکیلی تو نہیں تھی نا۔یوں بھی اپنے تیئں قبیل خان ہمارے پورے خاندان کو ختم کر چکا ہے ۔اور میرا خیال ہے سردار بھائی تمھیں میری پوری کہانی بتا چکا ہو گا۔“
میں نے اس کی بات کی تصدیق یا تردید کیے بغیر پوچھا ۔”سپوگمائے تمھاری بہن کا نام ہے؟“
منہ سے کچھ کہے بنا اس نے اثبات میں سر ہلادیا ۔
”اچھا اس دن روشن خان کے پوچھنے پر کیوں کہا تھا کہ تم مجھے گولی مارنے پر تیار ہو ۔“
وہ شرارتی لہجے میں بولی ۔”اگر تمھیں قتل کرنے سے میری جان بچ رہی تھی تو اس میں کیا قباحت تھی۔“
”صحیح کہا ۔“گو مجھے معلوم تھا کہ وہ جھوٹ بول رہی اس کے باوجود میں ہونٹ بھینچتے ہوئے خاموش ہو گیا ۔
وہ اپنی مسکراہٹ دباتے ہوئے بولی ۔”میں نے سنا تھا کہ فوجی دماغ سے نہیں دل سے سوچتے ہیں اور اب دیکھ بھی لیا ۔“
”اس میں دل سے سوچنے کی کیا بات ہوئی ۔“
وہ قہقہہ لگا کر ہنسی ۔”فوجی صاحب !....مجھے دل دینے کی ضرورت نہیں کیونکہ میں تمھارے ساتھ ماہین ،رومانہ اور وہ کیا نام تھافرنگن کا ....“وہ سوچنے کی اداکاری کرتے ہوئے ایک لمحہ کے لیے خاموش ہوئی اور پھر بولی ۔”ہاں جینیفر بی بی ....ان تمام سے زیادہ برا سلوک کروں گی۔“
میں چڑتے ہوئے بولا۔”پلوشہ !....کتنی بار کہا ہے مجھے تمھاری فضول گوئی سے سخت قسم کی کوفت ہوتی ہے ۔“
”مذاق کر رہا تھا یار!....تم تو محسوس ہی کر گئے ۔“
”میں تمھارا یار نہیں ہوں ۔“میں سچ مچ جھلا گیا تھا ۔
وہ کہاں باز آنے والی تھی فوراََ بولی ۔”ہاں جانتا ہوں ....کیونکہ تم تو مجھے بیوی بنانے کے چکروں میں ہو ۔لیکن یاد رکھنا کہ امی جان پچاس لاکھ سے ایک روپیا بھی کم نہیں لیں گی اور قبیل خان کی موت کے بعد ....“
”بکواس بند کرو پلوشہ !....اور جاﺅ میں صبح خود آ جاﺅں گا ۔“
مگر اس ڈھیٹ پر میرے غصے کا کوئی اثر نہیں ہواتھا ۔اس نے میرا سر دبانے جاری رکھا ۔اس کے ساتھ اس کا ایک ہاتھ برابر میرے بالوں میں سرسرا رہا تھا ۔
”چاے پیو گے ۔“اس نے ایک لمحہ کی خاموشی کے بعد موضوع تبدیل کیا ۔
مجھے سچ مچ اس وقت چاے کی اچھی خاصی طلب ہو رہی تھی ۔اس کی دعوت ٹھکرانا مجھے مناسب نہ لگا لیکن چونکہ میں نے خود پر غصہ طاری کیا ہوا تھا اس لیے جواباََ ہاں نہ کہہ سکا۔
”میرا خیال ہے ہاں کہتے ہوئے جھجک رہے ہو کہ مجھے زحمت نہ ہو ۔“یہ کہہ کر وہ اپنے تھیلے کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے بولی ۔”ویسے زحمت تو مجھے ہو گی ،دشمن کی خدمت کرتے ہوئے کسے خوشی ہوتی ہے۔ بہ ہرحال پھر بھی بنا لیتی ہوں کہ مجھے خود بھی چاے کی طلب ہو رہی ہے ۔تمھاری فضول باتوں نے سر میں درد کر دیا ہے ۔“
میرا دل کر رہا تھا کہ اپنا سر پیٹ لوں ۔اس ڈھیٹ لڑکی کو باتوں میں ہرانا شاید ممکن ہی نہیں تھا۔پٹر پٹر باتیںکیے جاتی ۔نہ شرم و حیا نہ جھجک ،نہ کوئی لگی لپٹی رکھنا اور نہ اگلے کے احساسات کے بارے ہی کچھ سوچنا ۔
میری سوچوں سے بے خبر اپنے تھیلے سے دودھ کی بوتل اور میرے تھیلے سے پتی چینی نکال کر وہ سٹیل کے کٹورے میں چاے بنانے لگی ۔میرے ذہن میں رومانہ در آئی ۔کشمیری چرواہن جس کے چہرے پر سرخ گلابوں کی جھلک دکھائی دیتی تھی ۔جس کی سیاہ آنکھیں شب دیجور کا منظر پیش کرتیں، باتیں کرتی تو یاقوتی ہونٹوں سے پھول جھڑتے تھے اور گھنی زلفیں دیکھنے والے کو یوں اپنی گرفت میں لیتیں کہ ناظر کا مقدرہمیشہ ہمیشہ کی اسیری ہی بنتا ۔مگر وہ کسی اور کی امانت تھی ۔شاید وہ میرے دل پر گھاﺅ لگانے ہی کے لیے ملی تھی ۔اور اب پلوشہ ۔رومانہ کو یاد کرتے کرتے سامنے بیٹھی پلوشہ نے دل کے کسی کونے سے سر ابھارا ۔ایک انوکھی ،بہادر ،جرّات مند اور دلیر لڑکی ۔جو رات کے وقت بھی بغیر کسی خوف و ڈر کے میری مدد کرنے کے لیے اپنے گھر سے نکل پڑی تھی ۔جو کسی دشمن پر گولی چلاتے یا اس کے گلے پر خنجر پھیرتے وقت ذرا سی بھی جھجک محسوس نہیں کرتی تھی ۔جوخالی ہاتھ لڑتے ہوئے کسی بھی اچھے لڑاکے کو ناکوں چنے چبوا سکتی تھی ۔اور پھر شکل و صورت کے لحاظ سے بھی وہ رومانہ سے زیادہ خوب صورت نہیں تھی تو کم بھی نہیں تھی ۔گو لڑکوں والے کپڑے اور حلیہ بنانے کی وجہ سے اس کی صورت تھوڑی پس منظر میں چلی گئی تھی لیکن حلیہ تبدیل کرنا اتنا مشکل تو نہیں تھا ۔
”لیکن مجھے کیا وہ حلیہ تبدیل کرتی ہے یا ساری زندگی اسی حال میں گزارتی ہے ؟“میں نے خود سے سوال کیا اور میری سوچیں گڑبڑا گئیں ۔بے اختیار میرے منہ سے گہرا سانس خارج ہوا ۔اسی وقت پلوشہ نے چاے کی پیالی میرے قریب رکھی اور مجھے اٹھنے کے لیے سہارا دینے لگی ۔ایک دم میرے ذہن میں چند لمحے پہلے نادانستگی میں حاصل ہونے والا اس کے بدن کے لمس کا ذائقہ جاگا اور میں اس ڈر سے ذرا آگے کو جھک کر بیٹھ گیا کہ کہیں وہ دوبارہ میرے پیچھے نہ بیٹھ جائے ۔مگر اس نے ایسی کوئی کوشش نہیں کی تھی ۔اپنے لیے وہ گلاس میں چاے ڈال کر دوبارہ میرے قریب آ بیٹھی ۔کہ چاے کی پیالی ایک ہی تھی ۔
تازہ دودھ کی بنی ہوئی چاے بہت اچھی بنی تھی ۔میرے پیالی خالی کرتے ہی اس نے دوبارہ پیالی بھر دی ۔
”اچھا ایک بات پوچھوں ؟“چاے کا گلاس خالی کرتے ہوئے اس نے ایک جانب رکھتے ہوئے پوچھا ۔میں نے استفہامیہ نظروں سے اس کی جانب دیکھتے ہوئے اثبات میں سر ہلادیا ۔
”اس دن تم نے سردار بھائی کو اس کی بیوی کی موت کا کیوں نہیں بتایا تھا ۔“
”کیونکہ وہ اپنی بیوی سے بہت محبت کرتا ہے اور ہو سکتا ہے پردیس میں یہ بری خبر معلوم ہونے کے بعد اسے کچھ ہو جاتا ۔یا ذہنی پریشانی کی وجہ سے وہ رستے میں کچھ الٹا سیدھا کر دیتا ۔گھر میں تو بہت سے رشتا دار بھی سنبھالنے والے ہوتے ہیں ۔اور یہی ہمارے فوجیوں کا طریقہ کار ہے ۔“
”اچھا تھوڑی دیر آرام کر لو ۔“آگ پر چند لکڑیاں ڈال کر اس نے اپنا تھیلا سر کے نیچے رکھا اور میرے قریب ہی لیٹ گئی ۔
”ویسے تھوڑا سا دور بھی لیٹا جا سکتا ہے ۔“اس کے یوں لیٹنے پر میں نے ناک بھوں چڑھائی ۔
”میں دور ہی لیٹا ہوں اور مزید بکواس سننے کا میرا بالکل ارادہ نہیں ہے ۔اگر اور کچھ کہا تو سلپنگ بیگ کے اندر بھی گھس سکتا ہوں “اس نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا اور میں منہ بناتے ہوئے خاموش ہو گیا ۔موسم نہایت خوش گوار تھا ۔اس لیے اسے رضائی چادر وغیرہ کی ضرورت نہیں پڑی تھی ۔مجھے البتہ سلپنگ بیگ کی ضرورت تھی کہ بخار کی وجہ سے مجھے سردی محسوس ہورہی تھی ۔غار سے باہر تیز ہوا چل رہی تھی ،لیکن غار کے اندر ہوا کا گزر ناممکن تھا ۔
تھوڑی دیر بعد ہی اس کے بھاری ہوتے سانسوں کی آواز میری سماعتوں میں پڑنے لگی ۔وہ اتنی بے فکری سے سو گئی تھی گویا گھر میں موجود ہو ۔ایک لڑکی کا غیر مرد کے ساتھ اتنی بے پرواہی سے سو جانا اس کی بہادری ،دلیری اور اپنی ذات پر اعتماد کو ظاہر کر رہا تھا ۔ہم فوجی تو خیر اس بات کے عادی ہوتے ہیں کہ جہاں رات آئی یا چند لمحے آرام کے ملے وہاں آرام کر لیا ۔لیکن وہ لڑکی ہوتے ہوئے تربیت یافتہ کمانڈو کی طرح کی عادات کی مالک تھی ۔میں گردن موڑ کر اس کے چہرے کو دیکھنے لگا ۔آگ کے بلند ہوتے شعلوں میں اس کے چہرے پر چھائی معصومیت مجھے متاثر کرنے لگی ۔میں نے جلدی سے آنکھیں بند کر لیں ۔جتنے زخم کھا چکا تھا اتنے کافی تھے عورت ذات پر اعتبار کرنا اپنے پاﺅں پر کلھاڑی مارنے کے مترادف تھا ۔وہ صرف اس لیے مجھ میں دلچسپی ظاہر کر رہی تھی کہ قبیل خان سے بدلہ لینے کے لیے اسے میری مدد کی ضرورت تھی اور بس ۔بدلہ لیتے ہی شایداس نے مجھے پہچاننے ہی سے انکار کر دینا تھا ۔

No comments: