ﻧﺎﻭﻝ سنائپر از ریاض_عاقب_کوہلر قسط نمبر 12
ﻧﺎﻭﻝ سنائپر
از
ریاض_عاقب_کوہلر
سنائپر
قسط نمبر 12
ریاض عاقب کوہلر
”اچھا یہ گلاس مجھے دو۔“میں نے اس کے ہاتھ سے ادھ بھر ا گلاس لینا چاہا ۔
”بکواس کرنے کی ضرورت نہیں دفع ہو جاو ¿ یہاں سے ۔“وہ غصے سے دھاڑی ۔”نفرت ہے مجھے تم سے ،تمھاری صورت اور تمھاری عادات سے۔میں کہہ رہی ہوں دفع ہو جاو ¿۔“
”ادھر میری طرف دیکھو جی!“میں نے اس کا نام مزید مختصر کرتے ہوئے اسے کندھوں سے تھام کر اس کا رخ اپنی جانب کیا ۔
”چھوڑو مجھے ۔“اس نے ایک جھٹکے سے اپنے کندھے میری گرفت سے آزاد کرائے ۔
میں نے زبردستی اس کے ہاتھ سے گلاس لے کر کمرے کے کونے کی طرف اچھال دیا ۔
”تمھاری یہ جرا ¿ت ۔“اس نے میرا گریبان تھامنے میں دیر نہیں لگائی تھی ۔مگر میں نے اس کی گرفت سے اپنا گریبان چھڑانے کی کوشش نہیں کی تھی ۔وہ چند لمحے گہرے گہرے سانس لیتی رہی اور پھر ایک دم میرا گریبان چھوڑ کر مجھ سے لپٹ گئی اس کے ساتھ ہی اس کی سسکیوں سے کمرے کی فضا گونج اٹھی تھی ۔میں نے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے اسے تسلی دینے لگا ۔
تھوڑی دیر بعد مجھ سے علاحدہ ہو کر وہ اپنی آنکھیں صاف کرنے لگی ۔
”ملنے کیوں نہیں آئیں ؟“میں اس کا ہاتھ تھام کر مسکرایا۔
”ہونہہ!....ایک دھوکے باز ،آوارہ اور فراڈی لڑکی سے یہ پوچھنا ہی فضول ہے۔“
”میں بے شک تمھیں دھوکے باز کہتا رہا ہوں مگر دل سے کبھی ایسا نہیں سمجھا ۔اور معاف کرنا جس کو دھوکے باز سمجھا جاتا ہے اس کی کسی بات پر یقین نہیں کیا جاتا۔کیا میں نے کبھی تمھاری کسی بات سے انحراف کیا ہے ،سوائے ایک بات کے ۔اور وہ بھی بہ قول تمھارے تم نے دل سے کبھی نہیں کہا ۔“
”جھوٹ بول رہے ہو ۔“وہ سسکی ۔
”جھوٹ کیوں ،اگر ایسا ہوتا تو میں تمھیں ملنے ہی کیوں آتا۔“
”کل اور پرسوں کیوں نہیں آئے ؟“وہ شکوہ کناں ہوئی ۔
”میں شرمندہ تھا ،کیونکہ رستے میں تمھاری کافی بے عزتی کر چکا تھا ۔“میں نے اس کا دل رکھنے کے لیے صریحاََ جھوٹ بولا۔
”ذی !....پلیز تم نہ جاو ¿۔“میرے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے وہ گڑگڑائی ۔
میں ہنسا ۔”ویسے اتنی شراب نوشی اچھی نہیں ہوتی،بندہ الٹی سیدھی باتیں کرنے لگتا ہے ۔“
”میں نشے میں نہیں ہوں،میں سچ کہہ رہی ہوں ذی !....تم نہ جاو ¿ میں تمھیں گرین کارڈ لے دوں گی۔کرنل سکاٹ تمھیں بہت اچھے معاوضے پر اپنے پاس رکھ لیں گے،میں وعدہ کرتی ہوں میرے جسم و جان کے بس تم ہی مالک ہو گے اور میں تمھیں یہ بھی یقین دلاسکتی ہوں کہ آج تک میں کسی مرد کے ساتھ ڈیٹ پر نہیں گئی ۔“
”جی !....اگر یہ ممکن ہوتا تو میں ایک لمحے کے لیے بھی نہ ہچکچاتا،مگر سچ تو یہ ہے کہ میں مجبور ہوں ،میرے پاو ¿ں میں نہ صرف پاک آرمی کی زنجیریں ہیں بلکہ میں ایک بیوی کا شوہر اور ایک باپ کا اکلوتا سہارا بھی ہوں ۔“
”تم انھیں یہاں سے کافی ساری رقم بھجوا سکتے ہواور پاک آرمی کے ہاتھ اتنے لمبے نہیں ہیں کہ تمھیں یہاں سے گرفتار کر کے لے جائیں ۔“
”صحیح کہا ....مگر یہاں میری حیثیت کیا ہو گی ؟....ایک اجرتی قاتل کی ،کرنل سکاٹ مجھ سے سوائے اپنے دشمنوں کو قتل کرانے کے اور کیا کام لے گا ۔“
”تم کچھ بھی نہ کرنا ۔میں ہوں نا،کمانے کے لیے۔تم بس مجھے سنبھال سمیٹ کر رکھنا اور مجھے ڈھیر سارا پیار دینا ۔“
”ہاں جی !....تم ہو بھی اس قابل کہ تمھیں ڈھیر سارا پیار دیا جائے ،مگر افسوس کہ تم میری مجبوریوں کو سمجھ نہیں پا رہی ہو۔تم شاید یہ سمجھ رہی ہو کہ میں پاکستان آرمی کے خوف سے یہاں نہیں رک رہا تو یقین مانو ایسی کوئی بات نہیں۔مجھے پاکستان آرمی کا کوئی خوف نہیں ہے۔مجھے تو میرا ضمیر ملامت کرے گاکہ جس ملک نے مجھے اس مقام تک آنے میں مدد دی میں کسی قابل ہوتے ہی اس سے غداری کر بیٹھا ۔ پھر میرے والد کو فقط پیسوں کی نہیں میری دیکھ بھال اور محبت کی ضرورت ہے۔ معافی چاہتا ہوں جی !.... مگر میں تمھاری یہ آفر کو قبول نہیں کر سکتا ۔“
”ہاں ،میری آفر قبول کرو گے بھی کیسے،تم مجھ سے محبت تھوڑی کرتے ہو ۔“
”بیوقوفوں کی سی باتیں نہ کرو جینی !“میں نے اسے محبت سے جھڑکا ۔
”ذی !....میں مر جاو ¿ں گی ۔“
”کچھ نہیں ہوگا تمھیں اور اب پلیز کوئی اور بات کرو۔“
”تم تو ہو ہی سنگ دل ۔“وہ میرے قریب سے اٹھ کر الیکٹرک کیتلی کی جانب بڑھ گئی ۔ ”کافی یا چاے؟“
”جو مل جائے ۔“میں نے مسکرا کر کہا۔
”پھر کافی ٹھیک رہے گی ۔“کہہ کر اس نے کیتلی کا پلگ سوئچ میں لگا دیا ۔
کافی پینے کے بعد بھی وہ محبت کے اظہار کے ساتھ مجھے وہاں روکنے کی کوشش میں مصروف رہی ۔میں رات گئے تک اس کے ساتھ بیٹھا رہا ۔وہ بہت زیادہ خوب صورت اور پرکشش تھی ،لیکن وہ اس سے دگنی بھی حسین ہوتی تو بھی میں وہاں نہیں رک سکتا تھا ۔پاکستان آرمی سے غداری کرنا اور پھر اپنی بیوی اور باپ کو لا وارث چھوڑنے کا میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔
جس وقت میں اپنے کمرے میں پہنچا تو سردار اور لی زونا کو مصروفِ گفتگو پایا۔
”میرا خیال ہے گھنٹا ڈیڑھ آرام کر لیا جائے ۔“میں نے مشورے کے انداز میں کہا ۔
”صحیح کہا بھائی !“لی زونا خوش دلی سے بولی ۔اور پھر ہم دونوں سے مصافحہ کر کے وہ باہر نکل گئی ۔
جینیفر صبح ناشتے کی میز پر ہی مجھے الوداع کہہ کر چلی گئی تھی ۔بہ قول اس کے کہ وہ مجھے جاتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی تھی ۔
لی زونا اور اس کے ساتھی کی فلائیٹ ہم سے بعد تھی ۔وہ ہمارے پاس بیٹھی گپ شپ کرتی رہی۔ہم اپنا سامان پیک کر کے باہر لان میں بیٹھے دھوپ سے لطف اندوز ہو رہے تھے ۔باتوں باتوں میں جینیفر کا ذکر ہو ا ۔اور وہ مسکرا کر پوچھنے لگی ۔
”بھائی ایک بات کہوں خفا تو نہیں ہو گے ۔“
”بالکل بھی نہیں ۔“میں نے نفی میں سر ہلایا۔
”کل جینیفر تمھیں کس بات پر راضی کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔“
”تمھیں کیسے پتا ؟“میں نے حیرانی سے پوچھا ۔
”کل رات کو جب میں اپنے کمرے میں لوٹی تو وہ کسی کو فون پر کہہ رہی تھی کہ ،وہ نہیں مان رہا میں نے اپنی پوری کوشش کی ہے۔میں جان گئی کہ موضوع ِ گفتگو تمھاری ذات ہے۔“
ایک تلخی سی میرے اندر گھل گئی تھی ۔وہ گزشتا رات بھی میرے ساتھ محبت کا ڈراما کرتی رہی تھی۔ یقینا اس کے پس پردہ کرنل سکاٹ کی ہدایت ہو گی ۔اسے کرائے کا ایک ایسا قاتل چاہیے تھا کہ جس کا نشانہ بے خطا ہو اور جس کے پکڑے جانے کی صورت میں اسے کسی الزام کا سامنا بھی نہ کرنا پڑے۔
میں آہستہ سے بولا۔”وہ مجھے روکنے کی کوشش میں تھی ۔“
”ہونہہ!....تو میرا شک درست تھا ۔“اس نے پر خیال انداز میں سر ہلایا۔
”تم نے مجھے تو یہ بات نہیں بتائی ۔“خاموش بیٹھا سردار مجھے مخاطب ہوا ۔میںنے اس کی بات پر کان دھرے بغیر لی زونا کو کہا۔”کون سا شک ؟“
”یہی کہ اس دن نیویارک میں جو اہم شخص دوکلومیٹر دور سے نشانہ بنایا گیا اس کے پسِ پردہ تمھارا ہاتھ ہے ۔“
”ہاں یہ سچ ہے۔“میں نے اعتراف کرنے میںحرج نہیں سمجھا تھا۔
”ویسے تم سے اس بے وقوفی کی توقع نہیں تھی ۔“وہ سنجیدہ ہو گئی تھی ۔
”ایسا تم اس لیے کہہ رہی ہو کہ اصل بات سے ناواقف ہو۔“
”ایسی بھی کیا مجبوری آن پڑی تھی ؟“
جواباََ میں نے مختصر الفاظ میں ساری کہانی سنا دی ۔
”اور تم لوگوں نے مجھے اس بات سے بے خبر رکھا ۔اس کی شاکی نظروں کا محور سردار کی ذات تھی ۔سردار اس سے نظریں چرا کر نیچے دیکھنے لگا ۔
”اسے میں نے منع کیا تھا ۔“
”کیا مجھ پر اعتبار نہیں تھا ۔“وہ افسردہ ہو گئی تھی ۔
”نہیں ....بلکہ تم پر کوئی آنچ آتی نہیں دیکھ سکتے تھے ۔“
ایک گہرا سانس لیتے ہوئے اس نے خفگی کو دور جھٹکا۔”بہ ہرحال میں اس سلسلے میں تمھاری اچھی رہنمائی کر سکتی تھی ۔“
میں نے کہا۔”ہاں مگر انھوں نے کوئی دوسری صورت چھوڑی ہی نہیں تھی ۔“
”اے !....تم نے کیوں منہ لٹکا لیا ہے ۔“وہ سردار کی پیٹھ میں مکا مار کر ہنسی ۔”میں بھلا تم سے خفا ہو سکتی ہوں اور وہ بھی الوداع ہوتے وقت۔“
”میں معذرت خواہ ہوں ۔“سردار پھیکی مسکراہٹ سے بولا۔اسی وقت مان ین لی بھی لی زونا کو ڈھونڈتا ہوا وہاں آن پہنچا ۔
”ہیلو دوستو!“کہہ کر وہ بھی وہیں بیٹھ گیا ۔ہمیں مجبوراََ موضوع گفتگو بدلنا پڑا ۔اور پھر ہمارے جانے کا وقت آن پہنچا ۔لی زونا ہماری موجودی کی پروا کیے بغیر سردار سے لپٹ کر روپڑی تھی ۔خود سردار بھی آبدیدہ ہو گیا تھا ۔
”بھول تو نہیں جاو ¿ گے ؟“اس نے سسکتے ہوئے پوچھا ۔
”پتا نہیں ۔“کہہ کر سردار نے اپنا بیگ اٹھایااور ہمیں لے جانے والی کار کی جانب بڑھ گیا ۔ اب چنارے بیگم کی محبت میں دھڑکتے دل میں کسی اور کا نام بھی شامل ہو گیا تھا۔
میں نے لی زونااور مان ین لی سے مصافحہ کیا اور سردار کے پیچھے چل پڑا ۔کار میں بیٹھ کر اس نے سیٹ ساتھ ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر لی تھیں ۔میں اس کی کیفیت سمجھ سکتا تھا ۔موت سے نظریں ملانے والا سچا اور کھرا پٹھان اس وقت لی زونا کو دیکھنے کا حوصلہ اپنے اندر مفقود پاتا تھا۔
کار چل پڑی ۔لی زونا ہاتھ لہراتی رہی میں نے بھی کار سے ہاتھ نکال کر انھیں خدا حافظ کہا ،مگر سردار آنکھیں بند کیے بیٹھا رہا ۔
٭٭٭
ہم پاکستان میں سہ پہر ڈھلے اترے تھے ۔
”اب کیا کریں ؟“سردار نے پوچھا۔”یونٹ رپورٹ کریں یاگھر کا چکر لگا لیں۔“
میں نے جواباََ کہا۔”میرا تو خیال ہے ہمارے کے گھر اتنی دور نہیں ہیں ؟تم نے مردان جانا ہے اور میں نے تلہ گنگ ۔تو کیوں ناآج کی رات گھر گزار لیں،صبح گیارہ بارہ بجے تک راولپنڈی پہنچ جانا یونٹ چلے جائیں گے ۔اور یوں بھی ہمارے اگلے چند دن انٹرویو وغیرہ ہی میں گزریں گے ۔ شاید ہفتہ ایک مزیدچھٹی ملنے میں بھی لگ جائے ۔“
”ٹھیک ہے ۔“سردار بہ خوشی تیار ہو گیا ۔ہم نے اگلے دن بارہ بجے پیر ودھائی بس اڈے میں ملنے کا پروگرام طے کر کے اپنی اپنی راہ چل پڑے ۔
میرے پاس کافی بڑی رقم موجود تھی ۔میں ایر پورٹ سے ٹیکسی کرا کے صدر بازار پہنچا اور ماہین اور ابو جان کے لیے تحائف خریدنے لگا ۔شام کی آذان مجھے وہیں ہو گئی تھی ۔دوبارہ ٹیکسی کرا کے میں پیرودھائی موڑ پہنچا اورتلہ گنگ جانے والی ویگن میں بیٹھ گیا ۔رات کے نو بج رہے تھے جب میں تلہ گنگ اڈے پر اترا ۔سردیوں کا موسم تھا اس لیے ویرانی کا عالم نظر آیا۔وہا ںسے میرے گاو ¿ں کا فاصلہ پانچ چھے کلومیٹر سے زیادہ نہیں تھا ۔میں عموماََ پیدل ہی گھر چلا جاتا تھا ۔اس دن میں نے ایک ٹیکسی والے سے بات کی کرائے سے چار پانچ گنا زیاد ہ پیسے لے کر وہ میرے ساتھ جانے پر آمادہ ہو گیا ۔مجھے گھر کے سامنے اتار کر اس نے کرایہ وصول کیا اور واپس مڑ گیا ۔اس کے جاتے ہی میں نے دستک دینے کے لیے ہاتھ اٹھایا مگر پھر ابوجان کو بے آرام کرنا مجھے مناسب نہ لگا کہ دروازہ کھولنے انھی نے آنا تھا ۔بیگ کندھے سے اتار کر میں نے نیچے زمین پر رکھا اور اچھل کر دیوار پر چڑھ گیا ۔دوسری جانب آہستگی سے اتر کر میں نے دروازہ کھول کر اپنے دونوں بیگ اٹھائے اور دروزاہ کنڈی کر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔صحن میں اندھیرا تھا البتہ برآمدے کے اندر جلنے والے انرجی سیور کی روشنی نے صحن میں بھی اچھا خاصا اجالا کر رکھا تھا ۔اپنے کمرے سامنے پہنچ کر میں رکا ۔دروازے کی درز سے جھلکنے والی روشنی نے مجھے حیران کر دیا تھا ۔ کیونکہ ماہین لائیٹ بجھا کر سونے کی عادی تھی ۔میں دروازے پر دستک دینے ہی لگا تھا کہ اچانک میرے کانوں میں ماہین کی ہنسی گونجی ۔اور پھر جواباََ ایک مردانہ آواز نے میرے کانوں میں زہر انڈیلامیں بالکل سن ہو گیا ۔اس وقت ماہین کے کمرے میں کسی غیر مرد کی موجودی ۔میرا دل ناخوشگوار انداز میں دھڑکنے لگا تھا ۔
قریب ہو کر میں نے دروازے سے کان لگائے ۔مرد کہہ رہا تھا۔
”اتنی جلدی تو میں جانے والا نہیں ۔“
”جانو !....تم تو سیر ہی نہیں ہوتے ۔“ماہین کی جذبات میں ڈوبی آواز سن کر تو مجھے اپنی ٹانگوں پر کھڑا رہنا دشوار ہو گیا تھا ۔
”میری پیاری ماہی کی صورت ہی ایسی ہے کہ ساری زندگی دیکھنے سے بھی دل نہ بھرے۔“
”تو پھر کوئی کام دھندا کرو نا،تاکہ میں اس مصیبت سے طلاق لے کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تمھاری ہو جاو ¿ں ۔“
”کام دھندہ بھی کر لوں گا تھوڑا صبر تو کرو ۔“اس نے بات ختم کرتے ہوئے جانے کیا حرکت کی تھی کہ ماہین کی تیز سسکی ابھری ۔
اور پھر کسی کو تھپڑ مارنے جیسی آواز ابھری اس کے ساتھ ماہین کی آواز آئی ۔
”کتنی بار منع کیاہے کہ شرارت نہ کیا کرو ۔“
وہ کمینگی سے ہنسا ۔”تم بھی مجھے کام دھندے کا نہ کہا کرو۔“اس کی آواز مجھے جانی پہچانی لگ رہی تھی ۔
”تو کیا مجھے پانے کے لیے تم اتنا نہیں کر سکتے؟“ماہین نے ناراضی بھری آوازمیں پوچھا۔
”واہ جی واہ .... تمھیں پانے کے لیے اب مزدوری شروع کر دوں۔“‘اس نے قہقہہ لگایا اورمیں نے پہچان لیا ۔وہ اس کا چچا زاد طاہر تھا ۔جانے کتنے عرصے سے یہ کھیل کھیلا جارہا تھا ۔اور جہاں تک میرا اندازہ تھا وہ ابوجان کو نیند کی گولیاں کھلا دیتے تھے ۔
”تو کوئی نوکری شروع کر دو۔“ماہین نے مشورہ دیا ۔
”نوکری وغیرہ تو مجھ نہیں ہونے والی البتہ کوئی کاروبار شروع کرنے کا ارادہ ہے ۔تم کچھ رقم کا بندوبست کر ونا ۔“
”میں کہاں سے رقم کا بندوبست کروں ،مجھے ذیشان اتنے پیسے تھوڑی دیتا ہے کہ اس سے کوئی کاروبار ہو سکے ۔“
”اتنے زیورات جو پڑے ہیں تمھارے پاس،ان کا کیا کرو گی ؟“
”ذیشان پوچھے گا نہیں کہ زیورات کہاں گئے ۔“
”کر لینا کوئی بہانہ ۔“طاہر نے کہا اور اس کے ساتھ محبت کے اظہار کی حیوانی آوازیں میرے کانوں میں پڑیں ۔
”اچھا اب جاو ¿ نا ،میں اس بارے کچھ سوچتی ہوں ۔“وہ نیم رضامندی سے بولی ۔
”بس تھوڑی دیر اور ....“طاہر کی جذبات سے بوجھل آواز کوئی اور تقاضا کر رہی تھی ۔
”جانو !....تم بھی نا ۔“ماہین کی آواز میںبھی سپردگی کا عندیہ تھا ۔
اس سے زیادہ بکواس سننے کی مجھ میں تاب نہیں تھی ۔میں نے دروازے کو دھکا دیا۔ دروازہ کھلا ہوا تھا ۔یوں بھی انھیں کسی کا ڈر خوف نہیں تھا کہ وہ دروازہ کنڈی کرتے ۔گھر میں موجود اکیلا بوڑھا کسی نامعلوم نشے کے زیر اثر تھا ۔میں دندناتا ہوا اندر داخل ہوا ۔ مجھے دیکھ کر دونوں کا رنگ فق ہو گیا تھا ۔ماہین تو گویا کاٹو تو بدن میں لہو نہیں کی زندہ مثال لگ رہی تھی۔
طاہر ایک جھٹکے سے اٹھا اور جلدی جلدی کپڑے پہننے لگا ۔اسے دیکھ کر ماہیں کو بھی اپنی بے لباسی کا خیال آگیا تھا ۔وہ بھی اٹھ کر کپڑے ڈالنے لگی ۔
میں طنزیہ لہجے میں بولا ۔”تمھیں کیا ضرورت ہے کپڑے ڈالنے کی،ایک تمھارا شوہر ہے اور دوسرا ....اس سے ویسے کچھ چھپا نہیں ہے ۔“
”ہم بات چیت سے یہ مسئلہ حل کر سکتے ہیں۔“کپڑے پہنتے ہی طاہر نے گفتگو کی ابتدا کی ۔
”کون سا مسئلہ۔“میں نے حیرانی ظاہر کی ۔
”یہی مسئلہ ،آپ بس درگزر کریں۔“
میںنے ان دونوں کو مخاطب کر کے پوچھا ۔”ویسے اس حالت میں اگر ایک شوہر اپنی بیوی کو پکڑ لے تو کیاوہ بیوی اور اس کے آشناکو قتل کرنے کا حق نہیں رکھتا۔“
”خخ....خدا کے لیے معاف کر دو ۔“ماہین تھر تھر کانپنے لگی تھی ۔
”ہم آیندہ ایسا کچھ نہیں کریں گے ۔“طاہر کی ٹانگیں بھی لرزنے لگی تھیں ۔
” تمھیں مار کر ہاتھ ہی گندے ہوں گے ۔“میں نے منہ بنا کر کہا۔”اور ماروں بھی کس کے لیے ،جب میری عزت ہی کو اپنی عزت کا پاس رکھنا نہیں آیا ۔“
ماہین نے شرمندگی سے سر کو جھکا لیا تھا ۔
”ویسے تمھیں کس چیز کی کمی دی تھی میں نے ۔اور اگر تمھیں میں پسند نہیں تھا تو تم مجھے بتا دیتیں زبردستی تھوڑی کر نا تھی میں نے۔“
”میں بہک گئی تھی ۔“اس نے سسکی بھر کر کہا ۔
”یہ بھی خوب کہا ۔میں امریکہ میں خود کو تمھاری امانت سمجھ کر غیر عورتوں سے دور رکھتا رہا اور تم یہاں بہک گئیں ۔ خیر اپنے اپنے ظرف کی بات ہے ۔“
”پلیز ذیشان!.... مجھے ایک موقع دے دو۔“اس نے بھاگ کر میرے قدموں سے لپٹنے کی کوشش کی تھی۔
میں نے دھکا دے کر اسے پیچھے گراتے ہوئے کہا ۔”میرا عورت ذات سے اعتماد اٹھ گیا ہے اور پاگل تم اپنا رونا رو رہی ہو ۔بہ ہر حال جاو تم آزاد ہو ۔میں تمھیں طلاق دیتا ہوں اور اگلے پانچ منٹ میں تم دونوں یہاں سے غائب نہ ہوئے تو شاید تمھیں قتل نہ کرنے کے فیصلے میں مجھے ترمیم کرنا پڑے۔“
”چلو ماہین!....“طاہر نے گھبراتے ہوئے کہا ۔وہ لرزتی کانپتی کھڑی ہو گئی ۔طاہر نے بستر سے اس کی گرم چادر اٹھا کر اسے پکڑائی اور وہ دونوں گھر سے باہر نکل گئے ۔گلی کا دروازہ بند کر کے میں اپنے کمرے میں آیا ۔ماہین کی چارپائی سے مجھے گھن آ رہی تھی ۔بڑی جستی پیٹی سے میںنے اپنا کمبل نکالا اور بستر پر لیٹ گیا ۔آن کی آن میں میری دنیا تباہ و برباد ہو گئی تھی ۔میں جینیفر کی چال بازیوں اور مکاریوں پر شاکی آ رہا تھا ماہین تو اس سے بھی سو قدم آگے نکلی تھی ۔آج تک وہ مجھ سے جھوٹی محبت جتاتی رہی تھی ۔ اس کے گزشتہ رویے کو یاد کر کے میری آنکھیں نم ہو نے لگیں ۔اس کے ناز نخرے ،اس کی ادائیں ،اس کا لاڈ بھرا انداز ،میری آمد پراس کی آنکھوں میں جھلملاتے قوس قزح کے رنگ ،وہ روٹھنا ،وہ منانا....کیا وہ سب جھوٹ تھا ؟....سب دھوکا فریب تھا ؟....میرے دل میں عورت ذات کی نفرت بھرنے لگی ۔مجھے اپنا سکول کا استا د حمید اللہ یاد آگیا ۔وہ ہمیشہ عورت ذات کی برائیوں پر مائل رہتا تھا ۔”یہ مکار ،چال باز اور فریبی ہوتی ہیں ....خبردار کبھی عورت پر اعتبار کرنے کی کوشش نہ کرنا؟“عور ت کے بارے بات چیت کرتے ہوئے اس کی گفتگو کا اختتامی فقرہ یہی ہوا کرتا تھا ۔حالانکہ اس وقت ہم میں اتنی سمجھ نہیں تھی کہ استاد کی باتوں کو پرکھ سکتے ۔اور پھر سکول کے بعد کبھی کسی نے ایسا کچھ کہا ہی نہیں تھا ۔ماہین سے شادی کے بعد تو استاد حمید اللہ کی باتیں یوں بھی بھول گئی تھیں ۔آج بہت عرصے بعد جب ٹھوکر لگی تو اپنا استاد بھی یاد آگیا۔وہ چند سال پہلے فوت ہو گیا تھا ورنہ میں اپنی درد بھری داستان سنا کراس کے تجربات کو ضرور خراج تحسین پیش کرتا ۔
اچانک مجھے لگا کہ میں نے ان دونوں کو زندہ چھوڑ کر بے غیرتی کا ثبوت دیا تھا ۔مگر پھر میں خود کو سمجھانے لگا کہ انھیں قتل کر کے بھی مجھے کیا حاصل ہو جاتا؟....اور دیکھا جاتا تو وہ ایک طرح سے میرے لیے قتل ہی ہو چکی تھی ۔
صبح کی آذان تک میں یونھی اذیت ناک سوچوں میں گھرارہا۔اور پھر آذان کی آواز سنتے ہی غسل خانے میں گھس گیا ۔وضو کر کے میں ابوجان کے کمرے کی طرف بڑھا۔لائیٹ جلانے پر وہ مجھے بے سودھ لیٹے نظر آئے ۔حالانکہ وہ ہلکی سی آواز سن کر جاگ جایا کرتے تھے ۔
میںنے ان کے پاو ¿ں کوہاتھ لگایا اور پھر ان کی ٹانگیں دبانے لگا ۔تھوڑی دیر کے بعد ان کی آنکھوں میں جنبش ہوئی اور انھوں نے آنکھیں کھول دیں ۔
”ارے ذیشان بیٹا !“وہ سر جھٹک کر غنودگی بھگاتے ہوئے اٹھ بیٹھے ۔”تم کب پہنچے ؟“
”بس تھوڑی دیر ہی ہوئی ہے ابوجان !....آپ اٹھیں جماعت نکل جائے گی ؟“
”ہاں بس اب تو اٹھ گیا ۔آج کم بخت نیند نے کچھ زیادہ ہی اثر دکھایا ہے ۔“
انھیں جگا کر میں مسجد کی طرف بڑھ گیا ۔واپسی پر ہم اکٹھے ہی آئے ۔گھر میں داخل ہوتے ہی انھوں نے ماہین کو آواز دی ۔
”ماہین بیٹا!....چاے تو لے آو ¿؟“
”آپ بیٹھیں ابو جان !میں بنا لاتا ہوں ؟“
”ماہین بیٹی کو بنانے دو یار!....تم ذرا امریکہ کا حال احوال سناو ¿؟
”وہ چلی گئی ہے ابو جان !....“میں آہستہ سے بولا۔
”چلی گئی ہے ؟“ابو جان ششدر رہ گئے تھے ۔”مگر کہاں ؟....کیوں ؟“
”میں چاے بنا کر لاتا ہوں پھر بات کرتے ہیں ؟“
”چھوڑو چاے کو ۔“ابوجان پریشانی سے بولے ۔”ماہین کیوں چلی گئی ہے ؟“
”وہ یہاں رہنا نہیں چاہتی تھی ابوجان !“
”یہ بھلا کیا بات ہوئی ؟“میری مہمل بات بھلا کب انھیں مطمئن کر سکتی تھی ۔
”’ابوجان !....آپ اتنی گہری نیند سونے کے عادی تو نہیں تھے پھر آج آپ کو کیا ہوا تھا؟“
”اس میں میری نیند کہاں سے آآآ....“ابوجان نے فقرہ مکمل کرنے کے بجائے میری طرف دیکھا ۔اور پھر سوچتے ہوئے بولے ۔”ایسا ہفتے میں ایک ادھ بار ہو جاتا ہے ؟....مگر وہ ایسی تو نہیں تھی ۔“ابوجان بغیر میرے بتائے بات کی تہہ تک پہنچ گئے تھے ۔
”میں بھی کسی کے کہنے پر انھیں ایسا نہ سمجھتا مگر آنکھوں دیکھا جھٹلانا ممکن نہیں ۔“
یہ کہہ کر میں باورچی خانے کی طرف بڑھ گیا ۔جب چاے بنا کر لوٹا تو ابوجان کسی گہری سوچ میں تھے ۔شاید انھیں یقین کرنے میں دشواری ہو رہی تھی ۔
”چاے لیں ابوجان !“میں نے پیالی ان کی جانب بڑھائی جو انھوں نے خاموشی سے تھام لی ۔ہم نے خاموشی سے چاے پی گویا ہمارے پاس کہنے کو کچھ بھی باقی نہیں بچا تھا ۔اس وقت میں برتن باورچی خانے میں رکھنے جا رہا تھا جب دروازے پر زور دار دستک ہوئی ۔میں نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا ۔
”چچا حشمت علی اپنے دنوں بیٹوں اصغر اور اشغرکے ہم راہ دروازے پر کھڑاکینہ توز نظروں سے مجھے گھور رہا تھا۔وہ ابوجان کے ماموں کاسالا تھا۔میرا سابقہ سسر اور ماہین کا باپ ۔میں اسے ہمیشہ چچا جان کہہ کر بلاتا تھا ۔
”آئیں چچا جان !“میں دروازے سے ایک طرف ہوا ۔
”تم نے اچھا نہیں کیا ذیشان !“وہ اندر داخل ہوتا ہو اغصیلے لہجے میں بولا۔”یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں تھی کہ تم نے آدھی رات کو میری بیٹی کو طلاق دے کر گھر سے نکال باہر کیا ؟“
اس کی بلند آواز سن کر ابوجان بھی کمرے سے باہر نکل آئے تھے ۔انھیں دیکھ کر حشمت ان کی طرف قدم بڑھاتا ہوا بولا۔”اور بھائی حیدر علی !....مجھے آپ سے یہ امید نہیں تھی ؟“
جوباََابوجان خاموش رہے تھے ۔
”اب بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ بیوی طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے شوہر کو کھانا گرم کر کے نہ دے اور شوہر آدھی رات کو اسے طلاق دے کر گھر سے باہر نکال دے ؟“
”غصہ انسان سے بہت کچھ کروا دیتا ہے بھائی صاحب!....بہ ہرحال کمان سے نکلا تیر اور بیوی کو دیے طلاق کے تین الفاظ واپس نہیں آ سکتے ؟“مجھے کچھ نہ کہتا دیکھ کر ابوجان نے بھی اصل بات سے پردہ اٹھانا مناسب نہیں سمجھا تھا ۔
”ویسے شرم و حیا اور غیرت بھی کوئی چیز ہوتی ہے ذیشان میاں !....“چچا حشمت علی کا غصہ آسمان کو چھو رہا تھا ۔”میرا دل تو کر رہا ہے کہ تمھیں ،تمھاری مردانگی کا مزا چکھاو ¿ں مگر بے غیرت آدمی کی پٹائی سے بھی کچھ حاصل ہونے کی توقع نہیں ہے ؟“
میں خاموشی سے اس کی باتیں سنتا رہا۔میں چاہتا تو اصل بات بتا کر اسے شرمندہ کر سکتا تھا مگر ایک باپ کے لیے بیٹی کی طلاق کا صدمہ ہی کافی تھا ۔اگر وہ اس کی بے راہروی کا سنتا تو شاید کسی سے نظریں ملانے کے قابل نہ رہتا ۔
”حشمت بھائی !....غصہ تھوکیں اور آئیں بیٹھیں ؟“ابوجان نرم طبیعت کے مالک تھے ۔ جھگڑے فساد سے ان کی جان جاتی تھی ۔
”بیٹھنا اور اس گھر میں ؟“حشمت علی طنزیہ لہجے میں بولا ۔”میں یہاں تھوکنا گوارا نہ کروں ؟ اور اس وقت میں تم لوگوں سے بات چیت کرنے نہیں آیا ؟اپنی بیٹی کا سامان سمیٹنے آیا ہوں ۔“یہ کہہ کر وہ خاموش کھڑے بیٹوں کو مخاطب ہوا ۔
”چلو بھئی !....سامان سمیٹو بہن کا ۔“وہ دونوں نتھنے پھلائے میرے کمرے کی طرف بڑھ گئے ۔خود حشمت چچا بھی ان کے پیچھے چل پڑا ۔انھو ں نے ہم سے پوچھنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی تھی کہ آیا کوئی ہمارا سامان بھی کمرے میں موجود ہے یا نہیں ؟
اصغر اور اشغر سامان کمرے سے نکال کر صحن میں رکھنے لگے ۔اچانک حشمت علی کمرے سے باہر نکلا اس نے ہاتھ میں بٹوہ پکڑا ہوا تھا ۔میں نے اس کے چہرے کی طرف نگاہ دوڑائی وہاں غصے اور غضب ناکی کی جگہ ندامت اور شرمندگی بھرے اثرات تھے ۔
قریب آ کر اس نے میرے کندھوں پر ہاتھ رکھے اور پھر سسکیاں بھرتے ہوئے مجھ سے لپٹ گیا ۔
”مجھے معاف کر دینا بیٹا !....میں غلطی پر تھا ۔“میں اس کی بات سن کر ششدر رہ گیا تھا ۔ جانے اس کے ہاتھ کیا لگا تھا کہ ایک دم اس کی حالت تبدیل ہو گئی تھی ۔
”چچا جان !خیر تو ہے ؟“میں نے آہستہ سے پوچھا ۔”کیاہوا؟“
”تمھیں دونوں کو مار دینا چاہیے تھا بیٹا !“تھوڑی دیر پہلے والا حشمت کہیں غائب ہو گیا تھا۔
”تو کیا ہوتا چچا !....اب بھی وہ میرے لیے تو مر ہی گئی ہے نا ؟“
”اس طاہر کی گردن تو میں اتاروں گا ؟“چچا نے بٹوہ کھول کر میرے سامنے کیا ۔وہ طاہر کا بٹوہ تھا۔ جو وہ غلطی سے ماہین کے بستر پر چھوڑ گیا تھا ۔اس میں اس نے ماہین کی تصویر بھی رکھی ہوئی تھی۔اس کے علاوہ اس کی اپنی تصویر اور شناختی کارڈ وغیرہ بھی تھا ۔
”کوئی ضرورت نہیں چچا !....دوبول پڑھوا کر اس کے ساتھ رخصت کر دو ؟اگروہ ایک دوسرے کے ساتھ مخلص ہیں تو انھیں اکٹھے زندگی گزارنے کا حق ہے ؟گو ان کا طریقہ غلط تھا مگر مطالبہ تو غلط نہیں ہے نا ؟“
”اگر مجھے اس بے غیرت کا بٹوہ نہ ملتا تو کیا تم یونھی ہمیشہ میرے اور میرے بیٹوں کے ہاتھوں مطعون ہوتے رہتے ؟“
”ہم نے کون سا ایک گھر میں رہنا ہے چچا !“میں نے پھیکی مسکراہٹ سے کہا ۔”یوں بھی اگر وہ اپنے گناہ پر پردہ ڈالنا چاہتی تھی تو مجھے اس کی پردہ دری کرنے سے کیا حاصل ہوتا۔“
”میں آپ سے بھی شرمندہ ہوں حیدر بھائی!“حشمت چچا ابوجان کو مخاطب ہوا ۔
”اچھا چھوڑو جو ہونا تھا وہ ہو چکا ؟“ابو نے اسے تسلی دی ۔
”بیٹا یہ سامان واپس رکھ دو ؟“حشمت اپنے بیٹوں کو مخاطب ہوا ۔
”نہیں نہیں چچاایسا کیسے ہو سکتا ہے ؟“میں نے جلدی سے کہا ۔”اور معاف کرنا یہ سامان آپ کا نہیں آپ کی بیٹی کی ملکیت ہے ۔“
پہلے تو اس نے سخت سے انکار کر دیا مگر پھر ابوجا ن اور میرے سمجھانے پر وہ سامان لے جانے پر راضی ہو گیا ۔انھوں نے اپنی ٹریکٹر ٹرالی ساتھ لائی تھی ۔اصغر اور اشغر کو بھی اصل بات کی بھنک پڑ گئی تھی۔ وہ دونوں مجھ سے نظر نہیں ملا پا رہے تھے ۔میں نے ماہین کا سارا زیورجو وہ اپنے گھر سے لائی تھی یا اسے ہم نے دیا تھا،ان کے حوالے کر دیا تھا۔جب وہ جانے لگے تو میں نے ایک دن پہلے خریدے ہوئے تحائف بھی یہ کہہ کر ان کے حوالے کر دیے کہ” میرے یہ کس کام کے ؟چلو جس کے لیے خریدے ہیں وہی استعمال کر لے ؟“
غضب ناک اورتیش کی حالت میں آنے والے میرا سسر اور سالے ندامت اور خفت بھرے آنسو بہاتے ہوئے رخصت ہوئے تھے ۔
ان کے جانے کے تھوڑی دیر بعد میں بھی ابوجان سے اجازت لے کر راولپنڈی روانہ ہو گیا ۔
٭٭٭
سردار مجھ سے پہلے پہنچ گیا تھا ۔اس نے مجھ سے گھر کی خیر خیریت پوچھی ۔جواباََ میں نے ۔ ”الحمداللہ ۔“کہہ کر اصل بات بتانے سے گریز کیا ۔یوں بھی ایک مسلم کے لیے اللہ پاک شکر تو ہر وقت بنتا ہے ۔مگرایک انسان کی فطرت عجیب قسم کی ہے ۔لاکھوں کروڑوں نعمتیں وصول کر کے ایک تکلیف پر رب کریم کی ناشکری پر آمادہ ہو جاتا ہے ۔
یونٹ میں ہمیں پر جوش طریقے سے خوش آمدید کہا گیا تھا ۔خاص کر میری بہت پذیرائی ہوئی تھی ۔دوتین دن کے بعد ہمیں دس دس دن کی چھٹی مل گئی ۔میرا گھر جانے کو دل ہی نہیں کر رہا تھا ۔میں گھر جانے کے بجائے صوابی چلا گیا ۔استاد عمر دراز مجھے بہت محبت سے ملا تھا ۔میں ان کے ساتھ صحن میں بچھی چارپائی پر بیٹھ کر امریکہ میں گزرے شب و روز دہرانے لگا ۔ساری تفصیل سننے کے بعد اس نے میری تعریف کرنے کے بجائے پوچھا ۔
”ذیشان بیٹا !....تم پریشان اور افسردہ کیوں ہو ؟“
”ایسی تو کوئی بات نہیں سر !“میں نے نفی میں سرہلایا۔
وہ ہنسا ۔”تمھارا مطلب ہے میری آنکھیں دھوکا کھارہی ہیں ؟“
” چھوڑیں سر ؟“دکھ کے بادل برسنے کے لیے تیار ہو گئے تھے ۔
وہ میری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہنے لگا ۔”ضروری نہیں کہ آنسو روکنے والا غم چھپانے میں بھی کامیاب ہو جائے ؟“
”سر !....مجھے گزرے غموں کو یاد کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا ؟“
”غم بانٹنے سے ہلکا ہوجاتا ہے بیٹے !“
میں نے صاف گوئی سے کہا ۔”کچھ غموں کے تذکرے پر غیرت آمادہ نہیں ہوتی؟“
”عورت کا غم ہمیشہ مرد کو توڑ کر رکھ دیتا ہے ؟“وہ جہاں دیدہ شخص بغیر میرے بتائے حقیقت کے قریب پہنچ گیا تھا ۔”لیکن یاد رکھنا بیٹے کمزوری نہیں دکھانا ۔تم سے زیادہ نقصان اس کا ہوا ہے ؟.... اس نے ایک مخلص ساتھی گنوا دیا جبکہ تمھاری جان ایک دغاباز اور مطلبی سے چھوٹ گئی ہے ؟“
استاد عمر دراز کی بات سن کر میرے دل پر چھائے غم کے بادل ایک دم ہٹ گئے تھے ۔
”صحیح فرمایا سر !“میرے ہونٹوں پر تبسم ظاہر ہوا ۔”اس طرح تو میں نے سوچا ہی نہیں تھا ؟“
”اچھا اب اصل بات بتاو ¿؟....کون تھی ؟“
”میری بیوی نے طلاق لے لی ہے سر ؟“
”اچھا کیا اس نے خود طلاق لے لی ورنہ ایسی عورتوں کو طلاق دینا پڑ جاتی ہے ؟“
”یہی تو غم ہے ؟“میں ایک بار پھر اداس ہو گیا تھا ۔
”اوہ ....چلو یہ بھی بہتر ہوا کہ جوانی ہی میں تمھیں اس کی اصلیت معلوم ہو گئی ۔ورنہ اولاد ہوجانے کی صورت میں تمھیں فیصلہ کرنے میں مشکل پیش آ تی؟“
”اچھا چھوڑیں سر!.... اس موضوع کو آپ نے میری کارکردگی پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ؟“
”وہ تو میں نے پہلے دن سے بتا دیا تھا کہ تم میرا ریکارڈ توڑ دو گے اور وہی ہوا ؟میں بس چھے سات سو میٹر تک ہدف کو نشانہ بناتا رہا اور تم انیس سو میٹر تک پہنچ گئے ؟“
”یہ تو خیر آپ زیادتی کر رہے ہیں ۔انیس سو میٹر سے میںنے اس ہتھیار سے ہدف کو نشانہ بنایا ہے جس کی کارگر رینج دوہزار میٹر ہے جبکہ آپ نے سات سو میٹر پر جی تھری سے ہدف کو نشانہ بناتے تھے ۔جس کی کارگر رینج ٹیلی سکوپ سائیٹ لگا کر بھی چھے سو میٹر بنتی ہے ۔“
”یہ بھی تو دیکھو نا کہ میری شہرت پاکستان تک محدود رہی اور تم جانے کتنے ممالک کے سنائپرز کو پچھا ڑ آئے ہو ؟“استاد عمر دراز سنائپنگ کے فن کی طرح باتوں میں بھی ماہر تھا ۔
میں ہنستے ہوئے بولا۔”آپ کردار کی طرح گفتار کے بھی غازی ہیں ۔“
انھوں نے شفقت سے کہا ۔”بس ،ہر فرمان بردار شاگرد کی طرح تم اپنے استاد ہارتے نہیں دیکھ سکتے ۔“
”شام کی آذان ہو رہی ہے ،میرا خیال ہے وضو مسجد میں کرنا بہتر رہے گا ؟“میں نے اس بحث سے جان چھڑاتے ہوئے مشورہ دیا ۔
”یہ مناسب ہے ۔“وہ سر ہلاتے ہوئے کھڑ ے ہو گئے ۔
٭٭٭
اگلا دن ہم نے استاد عمر دراز کے گھر گپ شپ میں گزارا ۔ان کے چند دوست بھی آ گئے تھے خوب محفل جمی رہی ۔اب اتنی پشتو تو مجھے بھی آ گئی تھی کہ ان کی بات چیت سمجھ لیتا ،البتہ میں خود مکمل طور پر بول نہیں پاتا تھا ۔اس دن سہ پہر کو میں نے استاد عمر راز سے اجازت چاہی
”بیٹا !....آتے جاتے رہا کرو ۔“وہ مجھے گلے ملتے ہوئے شفقت سے بولے ۔
”جی سر !....یہ کوئی بتانے کی بات تو نہیں ہے نا ۔“میں نے اثبات میں سر ہلایا۔
انھوں نے شرارتی لہجے میں کہا ،”اور اگر شادی کا ارادہ ہو تو ضرور بتانا،ایسی دلھن ڈھونڈ کر دوں گا کہ تمھاری سوچ سے بھی ماورا ہو گی ۔“
”سر !....اگر حقیقت کہوں تو مجھے عورت ذات سے نفرت ہو گئی ہے ،اتنی نفرت جس کی بابت آپ سوچ بھی نہیں سکتے ۔وہاں امریکہ میں بھی ایک اپنی جھوٹی محبت کے دعوے لے کر میرے پیچھے پڑ گئی تھی بعدمیں پتا چلا کہ اس کے یہ دعوے فقط مجھے امریکہ کا غلام بنانے کی نیت سے تھے ۔اب تو عورت کے بارے میرے تجربات ومشاہدات کا نچوڑ یہی ہے جو کہ ہمارے اسکول کے استادمرحوم حمید اللہ جان صاحب کا تھا کہ بے شک سانپ ،بچھو پر اعتبار کر لینا عورت پر نہیں ۔“
”اسے شدت پسندی اور تشدد کہتے ہیں بیٹا ۔“استاد عمر دراز نے مجھے سمجھانے کی کوشش کی ۔
”آپ صحیح فرما رہے ہیں سر !مگر کبھی کبھی یقین کی سب سے اونچی سیڑھی سے اتنے زور کاد ھکا لگتا ہے کہ انسان کے سارے نظریات تبدیل ہو جاتے ہیں اور وہ چاہ کر بھی کسی پر بھروسا نہیں کر سکتا ۔“
”تم جز کو کل پر منطبق کر رہے ہو ؟“ان کی کوشش جاری رہی ۔
”میرا کُل تو وہی تھی سر !“میں ادااس ہو گیا ۔
”میں امید کرتا ہوں کوئی تو ایسی ہو گی جو تمھارے دل سے عورت ذات کے بارے یہ بدگمانی دور کردے گی ۔“
”سر !....اپنا خیال رکھیے گا ،آپ کی دعاﺅں کی ہمیشہ ضرورت رہے گی ۔“ان کی بات کا جواب نہ دے کر میں نے اپنا مطمح نظر ان تک پہنچا دیا تھا ۔
”ٹھیک ہے بیٹا !....اللہ پاک تمھیں سکھی رکھے ۔وہی ذات بابرکات ہی تمھارے ذہن سے یہ غلط سوچ نکال سکتی ہے ۔“
”اللہ حافظ سر !“میں نے الوداعی مصافحہ کرتے ہوئے ان کے دونوں ہاتھوں کو بوسا دیا اور وہاں سے نکل آیا ۔شام کی آذان ہو رہی تھی جب میں گھر میں داخل ہوا ۔وہاں پھوپھو جان کو دیکھ کر مجھے خوش گوار حیرت ہوئی تھی ۔وہ بیوہ تھیں ،ان کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں ۔تمام شادی شدہ تھے ۔پہلے وہ باری باری تینوں بیٹوں کے ہاں قیام کرتی تھیں مگر اب شاید ابو جان انھیں مستقل اپنے پاس لے آیا تھا ۔ بعد میں ابوجان سے گفتگو ہونے پر پتا چلا کہ میرا اندازہ درست تھا ۔کلثوم بوا مستقل ہی وہاں منتقل ہو گئی تھیں ۔ابو جان مجھے دیکھ کر خوش ہو گئے تھے ۔پھوپھو نے بھی مجھے گلے سے لگا کر پیار کیا ۔یقیناانھیں ماہین کے ساتھ میری علاحدگی کی خبر مل چکی تھی لیکن انھوں نے اس متعلق کوئی سوال کرنے سے گریز کیا تھا۔چھٹی کے بقیہ دن میں نے گھر میں گزارے ۔زیادہ تر میں گھر ہی میں رہتا تھا ۔بس دو تین باراپنے دوست اویس ہی سے ملاقات کرنے گیا یا وہ خود میرے گھر آ گیا تھا ۔ماہین کے مسئلے پر اس نے مجھے کریدنے کی کوشش کی مگر اسے بھی میں نے اصل بات کی ہوا نہیں لگنے دی تھی ۔البتہ دبے لفظوں میں اس نے مجھے یہ باور ضرور کرا دیا تھا کہ لوگوں کو اصل بات کا پتا چل چکا تھا ،ایسی باتیں چھپا نہیں کرتیں ۔
ابوجان اور پھوپھو نے دوسری شادی کے بارے میرا عندیہ جاننے کی کوشش کی مگر میں نے سختی سے منع کر دیا تھا ۔دنیاوی دلچسپیوں سے جی ہی اچاٹ ہو گیا تھا ۔ماہین کے اس طرز عمل کے باوجود بستر پر لیٹتے ہوئے عموماََاس کی یاد دماغ میں در آتی ۔وہ مجھے بہت زیادہ پیاری تھی ۔میں نے اسے کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہونے دی تھی ،کبھی اس کی کسی خواہش کو نظر انداز نہیں کیا تھا ۔خود اس کے رویے سے بھی مجھے کبھی یہ اندازہ نہ ہو پایا کہ وہ مجھ سے بے وفائی کررہی ہے اور میری امانت میں خیانت کی مرتکب ہو رہی ہے ۔یا اسے میں نا پسندہوں اورکوئی اور پسند ہے ۔میرے چھٹی آنے پر اس کا خوش ہو جانا ،میری ہر ضرورت کا خیال رکھنا ،روٹھنا منانا، گلے شکوے کرنا ،ابو جان کی خدمت بیٹیوں کی طرح کرنا اور بھی اس کی کئی ایسی عادات تھیں جو مجھے بہت پسند تھیں ۔اگر میں نے خود اسے رنگے ہاتھوں نہ پکڑ اہوتا تو شاید ابو جان کے بتانے پر بھی یقینا نہ کرتا ۔ امریکہ میں کیپٹن جینیفر کی وجہ سے عورت ذات کے بارے میرے دل میں جو بد گمانی پیدا ہوئی تھی ماہین کی حرکت نے اس پر تصدیقی مہر ثبت کر دی تھی ۔اب میں چاہ کر بھی عورت ذات پر اعتماد نہیں کر سکتا تھا ۔ جینیفر نے ہمیشہ مجھے اپنے رویے سے یہی باور کرایا تھا کہ وہ مجھے پسند کرتی ہے ۔یہاں تک کہ آخری ملاقات میں اس نے جو اداکاری کی تھی ،جس طرح مجھے جذباتی طور پر بلیک میل کرنا چاہا تھا ایسی مکاری اور عیاری کسی عورت ہی کا خاصا ہو سکتی ہے ۔گو مرد ذات بھی دھوکا دہی میں کچھ کم نہیں مگر میرے نزدیک اس میدان میں مرد،عورت کے عشر عشیر بھی نہیں ہے۔
وہ چھٹی جو کبھی یوں گزرتی تھی کہ جاتے وقت تشنگی کا احساس شدت سے دل میں رہتا تھا ،اب بڑی مشکل سے گزری ۔وہی گھر جس میں کوئی لمحہ ماہین کے بغیر نہیں گزرتا تھااب اس کا وجود ناپید تھا ۔ چھٹی ختم ہونے پر میں بڑی مشکل سے رخصت ہوا کرتا تھا مگر اس دن میں صبح ناشتے کے بعد ہی جانے کے لیے تیار تھا ۔بوا اور ابوجان سے دعائیں لے کر میں گھر سے نکل آیا ۔
جاری ہے

No comments: