ﻧﺎﻭﻝ رکھیل از ریاض_عاقب_کوہلر قسط نمبر 2
ہفتے دس دن بعد مولوی محبوب الہٰی صحت یاب ہو کر گھر آگیا تھا ۔لیکن اب اس میں اتنی ہمت باقی نہیں رہی تھی کہ وہ دلاور شیخ کا مقابلہ کر سکتا ۔محلے والوں نے اس کام میں اس کی کسی بھی قسم کی مدد کرنے سے معذوری ظاہر کی تھی ۔انھی دنوں تناوش کو ماں کی زبانی معلوم ہوا کہ مولوی محبوب الہٰی وہ محلہ چھوڑ کر کہیں اور جانے کی کوشش میں ہیں ۔ان جیسے مخلص انسان کے محلے سے چلے جانے کے خیال نے تناوش کو اداس کردیا تھا ،مگر وہ کچھ بھی تو نہیں کر سکتی تھی ۔
مولوی صاحب اپنے مکان کے لیے کوئی مناسب خریدار ڈھونڈ رہے تھے اس کے بعد انھوں نے چلے جانا تھا ۔ مولوی صاحب جیسے مخلص اور نیک شخص کو صرف اس وجہ سے محلہ چھوڑنا پڑ رہا تھا کہ وہ ان ماں بیٹی کی مدد نہیں کر پائے تھے ۔اور آنے والے دنوں میں دلاور شیخ کی مزید خباثتوں سے آنکھیں چرانے کے لیے وہ اپنا آبائی گھر چھوڑنے پر تیار ہو گئے تھے ۔محلے کے کافی بزرگوں نے دبے لفظوں میں مولوی صاحب کو اس اقدام سے باز رکھنے کی کوشش کی تھی لیکن ،جو لوگ ایک غنڈے کے خلاف مولوی صاحب کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے نہیں ہوئے تھے وہ اپنی بات منوانے کے مجاز نہیں تھے ۔ماں کے منہ سے مولوی صاحب کے جانے کی خبر سن کر وہ ساری رات سو نہیں پائی تھی
اگلے دن وہ اپنے کالج کے گیٹ کے سامنے سے گزرتی ہوئی آگے بڑھ گئی تھی ۔ اس کے دماغ میں عجیب طرح کی حسرت ہلکورے لے رہی تھی ۔کالج جانے یا پڑھائی کرنے پر اس کا دل بالکل بھی مائل نہیں ہو رہا تھا ۔ اپنی زندگی میں نہ تو اسے سکون کی کوئی رمق نظر آ رہی تھی اور نہ خوشی کی کوئی جھلک۔وہ زندگی کے جس دور سے گزر رہی تھی ،اس عمر میں ایک لڑکی کے دل میں چاہنے اور چاہے جانے کا گہرا احساس پنپ رہا ہوتا ہے ۔ایک جانا انجانا محبوب ہر وقت اس کی سوچوں میں بسا اسے سہانے سپنوں میں کھویا رکھتا ہے ۔اس کی تو شکل و صورت بھی ایسی تھی کہ کئی چاہنے والوں اس کے لیے دل کے دروازے وا رکھتے ۔اتنے کہ اس سے چناﺅ مشکل ہو جاتا۔ مگر کسی کی ایسی جسارت سے پہلے ہی ایک غلیظ ،کمینے اور گھٹیا شخص نے اس پر اپنا ظالمانہ تصرف جما لیا تھا ،وہ آزاد ہوتے ہوئے بھی اس کی قید میں تھی ۔اس سے جان چھڑانے کی ساری کوششیں بے کار گئی تھیں ۔
وہ کراچی کی تیز رفتار سرگرمیوں کو دیکھتی ہوئی کندھے سے کتابوں کا بیگ لٹکائے خاموشی سے آگے بڑھتی رہی ۔اس کے دائیں بائیںزندگی پوری قوت کے ساتھ رواں دواں تھی جبکہ اس کی مثال زندگی کے اس بہتے دریا میں کسی لاش کی سی تھی ۔خوشی اور غم کے احساسات کا تصور وہ کھو چکی تھی ۔ایک نفرت کا جذبہ تھا جس کے زیر اثر وہ زندگی سے چمٹی ہوئی تھی ۔ دلاور شیخ کی عبرت ناک موت ہی اس کی زندگی کی سب سے بڑی تمنا،سب سے بڑی خواہش اور سب سے بڑی خوشی تھی ۔دلاور شیخ کی بیوی بننے سے موت کو گلے لگا لینا کئی گنا زیادہ آسان تھا ،لیکن مرنے سے پہلے وہ اس موذی کو اپنی آنکھوں کے سامنے تڑپتا ہوا مرتا دیکھنا چاہتی تھی ۔اس خوش کن منظر کو دیکھنے کے لیے وہ کوئی بھی قیمت دینے کو تیار تھی ۔مگر ہر وقت اسی سوچ میں کھوئے رہنے کے باوجود اسے کوئی مناسب حل نہیں سوجھ رہا تھا ۔وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ اپنی اس خواہش کو کیسے پورا کر پاتی ۔ایسا کوئی طریقہ اسے نہیں سوجھ رہا تھا جس سے وہ اس ذلیل کا غلیظ سر اپنے ہاتھوں سے اس کے تن سے جدا کرتی ۔
وہ اپنے کالج سے کافی آگے آچکی تھی۔کپڑوں کے ایک بازار میں گھس کر وہ مختلف دکانوں کے آگے لٹکے خوب صورت لباس دیکھنے لگی ۔پلاسٹک کے مجسموں کو ایسے عجیب و غریب لباس پہنائے گئے تھے جو اس نے خود تو کیا کسی اور عورت کے بدن پر بھی نہیں دیکھے تھے ۔کپڑوں کی مارکیٹ سے نکل کر وہ جوتوں اور کی مارکیٹ میں گھس گئی ۔دکانوں کے سامنے سے آہستہ روی سے گزرتے ہوئے وہ حسرت ناک نگاہوں سے ان قیمتی جوتوں کو دیکھتی رہی جو اس کی قوت خرید سے کہیں باہر تھے ۔اپنے پاﺅں کی طرف نظر دوڑانے پراسے وہی پرانے جوتے نظر آئے جو وہ پچھلے دو سال سے پہنتی چلی آرہی تھی ۔کثرت استعمال سے جوتوں کے تلوے گھس گئے تھے ۔ ان کی اوپری چمک دمک بھی بس پالش کی مرہون منت تھی ۔
اس بازار سے نکل کر وہ سبزی بازار میں گھس گئی ۔ریڑھیوں اور سٹالوں پر سجے مختلف اقسام کے عمدہ پھل اس کی اشتہا بڑھانے لگے ۔بہت سارے پھلوں کا تو اسے ذائقہ تک معلوم نہیں تھا کہ کبھی چکھنے کااتفاق جو نہیں ہوا تھا ۔سبزی بازار کا اختتام نسبتاََ چوڑے بازار میں ہوا جہاں ہر قسم کا سامان سجا ہوا نظر آرہا تھا ۔وہ ماحول میں کھوئی خالی ذہنی سے آگے بڑھتی رہی ۔اس بازار کے بعد بڑی سڑک کی شروعات ہو گئی تھی جس کے جوانب میں بڑی عمارتیں ،کمرشل پلازے اور خوب صورت ہوٹل نظر آرہے تھے ۔ہوٹلوں کی پارکنگ میں نظر آنے والے رش سے اس نے اندازہ لگایا کہ دوپہر کے کھانے کا وقت ہو چلا تھا ۔جیب سے اپنا سستا سا موبائل فون نکال کر اس نے وقت دیکھا ،ڈیڑھ بج رہے تھے ۔اسے اچانک بھوک محسوس ہونے لگی ۔اس کے لنچ بکس میں رات کی باسی دال کے بنے ہوئے پراٹھے موجود تھے ،مگر اسے ایسی مناسب جگہ نظر نہ آئی جہاں بیٹھ کر وہ پیٹ پوجا کر سکتی ۔
کسی مناسب جگہ کو ڈھونڈنے کے لیے اس نے قدموں کی رفتار بڑھا دی تھی ۔اس وقت وہ ایک بڑے ہوٹل کے سامنے سے گزر رہی تھی ۔سیاہ رنگ کی خوب صورت کار میں ،سفید رنگ کا سوٹ پہنے ایک ادھیڑ عمر شخص بیٹھ رہا تھا ۔اس کے لیے عقبی نشست کا دروازہ ایک باوردی پولیس والے نے کھولا تھا ۔یقینا وہ کوئی با اختیار شخص تھا جس کے لیے پولیس کا باوردی شخص دروازہ کھول رہا تھا ۔اس کے کار میں بیٹھتے ہی پولیس والا کار کے عقب میں موجود پولیس جیب میں بیٹھ گیا ،جس میں اس کے علاوہ تین اور باوردی پولیس والے بھی ہتھیاروں سے مسلح بیٹھے تھے۔صاف نظر آرہا تھا کہ وہ اس کے محافظ تھے ۔
”کیا یہ اتنا با اختیار ہو گا کہ مجھے دلاور شیخ کے شر سے نجات دلاسکے۔“ایک امکانی سوچ اس کے دماغ میں ابھری ۔وہ اسے روکنے کے خیال سے چوڑی روش کے قریب ہو گئی ۔
”نہ جانے میرے اشارے پر رکے گا بھی کہ نہیں ۔“یہ سو چ ذہن میں رکھتے ہوئے اس نے اپنا ہاتھ اٹھانا چاہا مگر اس سے پہلے ہی اس کے کانوں میں بریکوں کی تیز چرچراہٹ گونجی،اس نے بے ساختہ اس جانب نگاہیں گھمائیں ایک کالے رنگ کی مرسڈیز نے چوڑی روش کے سامنے رک کر آنے والی گاڑی کا رستا روک دیا تھا ۔
مرسڈیز کے پیچھے دو کھلی چھت والی جیپیں بھی موجود تھیں ۔دونوں جیپوں میں چار چار افراد سوار تھے ۔مرسڈیز رکتے ہی جیب سے ایک مسلح شخص پھرتی سے اترا اور مرسڈیز کا عقبی دروازہ کھول دیا ۔
”اب نہ جانے اس میں کون سوار ہے اور کیا یہ سفید لباس والے سے بھی زیادہ با اختیار ہوگا ۔“اس کی محدود سوچیں ان دونوں گاڑیوں میں سوار شخصیتوں کی طاقت کا اندازہ لگانے لگیں ۔مرسڈیز کے کھلے دروازے سے کالی پتلون میں ملبوس ایک ٹانگ نمودار ہوئی ۔جس پاﺅں میں چمکتا ہوا سیاہ ہی رنگ کا عمد ہ بوٹ چمک رہا تھا ۔اور پھر بڑے انداز سے وہ مکمل ہی کار سے باہر آگیا ۔وہ دراز قد اور کسرتی جسم کا مالک تھا ۔چوڑی چھاتی ،اندر کی طرف گھسا ہوا پیٹ اسے کوئی منجھا ہوا ریسلر ظاہر کر رہا تھا ۔کار سے باہر آتے ہی اس نے کوٹ کے سامنے والے دو بٹن بند کیے،آنکھوں پرلگایا چشمہ اتار کر جیب میں ڈالا اور دونو ںہاتھ پتلون کی جیب میں ڈال کر کھڑا ہوگیا۔اس کی موٹی بھوری آنکھوں میں عجیب قسم کی بے رحمی ہویدا تھی ۔چوڑی پیشانی ،گالوں کی ابھری ہوہڈیاں ،اٹھی ہوئی باریک ستواں ناک ،پتلے پتلے ہونٹ ،ان پر موجود نفاست سے ترشی ہوئی مونچھیں اور تین چار دن کی بڑھی ہوئی شیو جیسی داڑھی ۔مردانہ وجاہت کا شاہکار ہونے کے باوجود مجموعی طور پر اس کے چہرے پر کوئی ایسی بات تھی کہ تناوش کی ٹانگیں لرزنے لگی تھیں ۔
اس نے ایک سرسری نگاہ تناوش پر ڈالی اورپھرکار کا دروازہ کھولنے والے کی طرف اسفتہامیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔
اس نے جلدی سے اپنی جیب سے سگریٹ کی ڈبی نکال کراس کے سامنے پکڑلی ۔
ایک سگریٹ نکال کر اس نے اپنے باریک ہونٹوں میں پکڑی ۔سگریٹ پیش کرنے والے نے لائیٹر جلا کر سگریٹ سلگائی اور پیچھے ہو گیا ۔
وہ سگریٹ کا لمبا کش بھرکر بے تاثر چہرہ لیے ہوٹل سے نکلنے والی کار کی طرف بڑھا ۔ اسی لمحے تناوش جھرجھری لیتے ہوئے اس شخص کی طرف متوجہ ہوئی جس سے مدد مانگنے کے لیے وہ اس راستے کے قریب ہوئی تھی ۔وہ بھی کار سے باہر آگیا تھا مگر اس حال میں کہ اس کی ٹانگوں میں ہونے والی لرزش تناوش کو بھی نظر آرہی تھی ۔
”تو جسٹس ظہیر امجد صاحب!....آخر آپ سے ملاقات ہو ہی گئی ۔“مرسڈیز سے برآمد ہونے والی شخصیت کی آواز بھی اس کی جسامت کی طرح بھاری اورپر رعب تھی ۔
جسٹس ظہیر امجد نے خشک ہوتے ہونٹوں پر زبان پھیری اور اس کے حلق سے منمناتی آواز برآمد ہوئی ۔”کک....کبیرا دادا....کیسے ہیں آپ ۔“
”آپ نے حال پوچھ لیا ،اب کافی بہتر محسوس کرنے لگا ہوں ۔“کبیر دادا کی آواز میں چھپا طنز جسٹس ظہیر امجد کو لرزا گیا تھا ۔تناوش وہاں کھڑی خود کو عجیب سا محسوس کرنے لگی تھی ۔ مگر حیرت کی بات یہ تھی کہ کسی نے بھی اس کے یوں کھڑے ہونے کو اہمیت نہیں دی تھی ۔
”کک....کبیر دادا!....مجھ سے کوئی گستاخی ہوئی ہے کیا ؟“جسٹس ظہیر امجد نے ہکلاتے ہوئے پوچھا ۔
”سنا ہے آپ ہمارے ایک خدمت گار کو پھانسی کی سزا سنانے والے ہیں اور اسی وجہ سے اس کے کیس کا فیصلہ مسلسل التوا کا شکار ہو رہا ہے ؟“
”نن....نہیں ....ایسی تو کوئی بات نہیں ۔مم....میں تو بس اس کی بے گناہی کے لیے کسی مناسب ثبوت کا منتظر ہوں اس وجہ سے فیصلے میں تھوڑی تاخیر ہو گئی ہے ۔“
کبیر دادا نے استہزائی انداز میں ہنستے ہوئے اپنا پاﺅں اس کی کار کے بونٹ پر رکھا۔ ”وہ کبیر دادا کا آدمی ہے ۔اس کی بے گناہی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے ۔“
”بب....بالکل ....جناب ....آپ صحیح فرما رہے ہیں ۔“خوف سے جسٹس کا رنگ پیلا پڑ گیا تھا ۔
”ہونہہ!....ویسے اتنے سمجھ دار ہو یا مجھے دیکھ کر عقل آ گئی ہے ۔“
”نن....نہیں ....ایسی تو کوئی بات نہیں ہے کبیردادا۔“وہ خشک ہوتے ہونٹوں کو تر کرنے لگا ۔
کبیر دادا نے ہاتھ میں سلگتی سگریٹ کی راکھ ،اپنے بونٹ پر رکھے بوٹ پر جھاڑی اور پھر افسوس بھرے انداز میں سرہلاتا ہوا جسٹس امجد ظہیر کی طرف متوجہ ہوا ۔”افوہ !....یار دیکھو پھر بوٹ کی پالش خراب کر بیٹھا ہوں ۔آپ کے پاس رومال تو ہو گا ۔“
”جج....جی ،جی ۔“چہرے پر بے بسی کے تاثرات سجائے جسٹس ظہیر امجد نے جیب سے رومال نکالااور قریب ہو کر کبیر دادا کے بوٹ پر پڑی سگریٹ کی راکھ صاف کر دی ۔
کبیردادا کے چہرے پر معنی خیز مسکراہٹ ابھری ....”پرسوں شام کو میں اپنے آدمی کی رہاہی پر اپنی کوٹھی میں پارٹی دے رہاہوں ....ضرور تشریف لائیے گا ۔“
”جی ضرور ۔“جسٹس ظہیر نے اثبات میں سر ہلایااور کبیردادا واپس اپنی کار کی جانب مڑ گیا ۔اس کی سرسری نگاہ دوبارہ تناوش پر پڑی ۔کار کے دروازے کے پاس رکتے ہوئے وہ خفت اور ذلت کے ملے جلے احساس میں مبتلا جسٹس سے پوچھنے لگا ۔
”یہ لڑکی تمھاری بیٹی تو نہیں ہے ۔“اس نے تناوش کی طرف اشارہ کیا اور پھر جسٹس کا جواب سنے بغیر کار میں بیٹھ گیا ۔پہلے والے آدمی ہی نے کار کا دروازہ بند کیا اور بھاگ کر جیپ میں بیٹھ گیا ۔مرسڈیز ایک جھٹکے سے آگے بڑھ گئی ۔تناوش کی نگاہیں مرسڈیز ہی پر گڑی رہ گئیں ۔ اس کی نمبر پلیٹ پر لکھا ہوا نمبر بھی اتنا عجیب تھا کہ اسے فوراََ یاد ہو گیا تھا K-302۔
جب تک وہ قیمتی کار نظر آتی رہی تناوش اسی طرف متوجہ رہی تھی ۔اس کے نظروں سے اوجھل ہوتے ہی وہ جسٹس کی طرف متوجہ ہوئی جو مضمحل انداز میں کار میں بیٹھ رہا تھا ۔اس کے محافظوں نے اس دوران اپنی جیپ سے نیچے اترنے کی کوشش نہیں کی تھی ۔تناوش کی نگاہ کافی دیر بعد وردی میں ملبوس ان سورماﺅں کی طرف اٹھی اور ان کے خوف سے پیلے پڑتے چہرے دیکھ کر تناوش کے دل میں کبیر دادا کا مزید رعب بیٹھ گیا تھا ۔
”کیا دلاور شیخ بھی اس سے اسی طرح خوف زدہ ہو گا ۔“اس کے دماغ میں امید افزا سوچ ابھری ۔
”یقینا ،وہ سڑک چھاپ اسے دیکھ کر اپنی شلوار گیلی ہونے سے نہیں بچا سکے گا ۔“ دلاور شیخ کی نفرت سے بھرے دل میں خوش کن خیال اجاگر ہوا ۔
”مگر اسے کیا ضرورت کہ میرے جیسی عام لڑکی کے لیے اپنا وقت برباد کرتا پھرے۔ ہم جیسے کیڑے مکوڑے اتنی اہمیت کے حامل تو نہیں ہوتے کہ ان کی خاطر بھی کسی کو جسٹس ظہیر امجد کی طرح سر راہ روک کر دو تین منٹ کی پوچھ گچھ ہی کر لی جائے ۔
سر جھٹک کر وہ چوڑی روش کو عبور کر کے آگے بڑھ گئی ۔جسٹس کی کار وہاں سے غائب ہو گئی تھی ۔اب اس کا دماغ دائیں بائیں کے مناظر کے بہ بجائے بس کبیردادا کی پر رعب شخصیت کو سوچ رہا تھا ۔اس کی شکل و صورت ،چشمہ لگانے کا انداز ،دراز قامت ،کسرتی جسم ، قیمتی لباس ، بات کرنے کا پر اعتماد اور جچا تلا انداز ....اسے معلوم نہیں ہو رہا تھا کہ وہ کیوں اسے اتنا اچھا اور اپنا اپنا لگا تھا ۔
اس کی سوچوں میں کار کے تیز ہارن نے خلل ڈالا تھا ۔اس نے چونکتے ہوئے سر اٹھایا،بے خیالی میں وہ فٹ پاتھ سے اتر کر سڑک پر آگئی تھی ۔وہ جلدی سے فٹ پاتھ پر چڑھی ، کبیردادا کی شخصیت ایک بار پھر اس کی سوچوں پر حملہ آور ہوئی مگر زور سے سرجھٹکتے ہوئے اس نے ٹریفک کی روانی پر نظریں گاڑ لیں ۔کبیر دادا کی طلسماتی شخصیت کی حیثیت خوابوں اور سپنوں کے تصوراتی شہزادے کی سی تھی ،ایک ایسا شہزاد ہ جو فاتح فوج کی قیادت کرتا ہوا وطن واپس لوٹے اور پورا شہر اسے دیکھنے اور اس سے ہاتھ ملانے کے لیے ٹوٹا پڑ رہا اور وہ ایک عام راہگیر کی طرح دور کھڑی اسے حسرت بھری نگاہوں سے تکنے کے علاوہ کچھ نہ کر سکتی ہو ۔
اسکولوں اور کالجوں کی چھٹی کا وقت ہو گیا تھا ۔اسے رکشوں ،بسوں اور ویگنوں میں مختلف عمر کے بچے بچیاں بھرے ہوئے گھر کی جانب روانہ دکھائی دے رہے تھے ۔موٹرسائیکلوں اور کاروں کے اندر بھی اسکول کالج کے طلبہ ہی بھرے نظر آرہے تھے ۔اس نے گھر واپسی کا سوچا اسی لمحے اسے دوبارہ زور کی بھوک کا احساس ہوا ۔دائیں بائیں نظریں دوڑانے پر اسے کچھ فاصلے پر ایک پارک نظر آیا ۔سستی سے پاﺅں گھسیٹتی وہ پارک کی جانب بڑھ گئی ۔صبح سے مسلسل چلنے کی وجہ سے اسے سخت قسم کی تھکن محسوس ہورہی تھی ،مگر اس کی جیب میں اتنے پیسے موجود نہیں تھے کہ ٹیکسی یا رکشا کرا گھر کا رخ کر سکتی ۔
پارک کی سنگی بینچ پر بیٹھ کر وہ کندھے سے لٹکا اسکول بیگ گود میں رکھ کر کھولنے لگی ۔وہ پلاسٹک کے ایک ڈبے ہی میں دوپہر کا کھانا ڈال کر لایا کرتی ،وہی اس کا لنچ بکس تھا ۔
ڈبے کا اوپری ڈھکن ہٹا کر اس نے ٹھنڈے ہوئے پراٹھوں سے ایک نوالہ توڑا اور رغبت سے چبانے لگی ۔شدید قسم کی بھوک میں وہ پراٹھے کسی مرغن غذا سے کم ذائقہ نہیں دے رہے تھے ۔تھوڑٰ دیر میں وہ دونوں پراٹھے چٹ کر گئی تھی ۔لنچ بکس وہ واپس بیگ میں ڈال کر پارک کے ایک کونے میں لگے الیکٹرک واٹر کولر کی طرف بڑھ گئی ۔جس پرزنجیر سے بندھا ایک سلور کا گلاس موجود تھا ۔دو گلاس پانی کے معدے میں انڈیل کر وہ دوبارہ بینچ کے پاس آکر سستانے بیٹھ گئی ۔کھانا کھانے کے بعد اسے ایک دم تھکن محسوس ہونے لگی تھی ۔اس کا دل کر رہا تھا کہ وہیں لمبی تان کر سو جائے ۔مگر پھر گھر واپسی کے خیال نے اسے اٹھنے پر مجبور کر دیا ۔پاﺅں گھسیٹتی ہوئی وہ پارک سے باہر آئی اور واپسی کے رستے پر گامزن ہو گئی ۔
اس وقت وہ پرشکوہ اور دیدہ زیب کوٹھیوں کے سامنے سے گزر رہی تھی جب اس کی نظر سفید گلاب کے پودے پر پڑی جو گلابوں سے اٹا پڑا تھا ۔وہ پودا کوٹھی اور سڑک کو ملانے والی سیمنٹ کی پختہ روش کے ساتھ بنی کیاری میں لگا تھا ۔سفید گلاب ہمیشہ سے اس کی کمزوری رہے تھے ۔وہ ایک پھول کے قریب ناک لے جا کر اس کی بھینی بھینی خوشبو اپنے اندر اتارنے لگی ۔ خوشبو سونگھتے ہوئے اچانک اس کی سماعتوں میں بریکوں کی چرچراہٹ گونجی ۔اس نے نظریں اٹھائیں ، ایک گاڑی تیز رفتاری سے سڑک سے سمینٹ کی پختہ روش کی طرف مڑرہی تھی ۔
اور پھر گاڑی کو دیکھتے ہی اس کی آنکھیں حیرت سے پھیلتی چلی گئیں ۔وہ کبیر دادا والی مرسڈیز ہی تھی ۔اس کے عقب میں دو جیپیں موجود تھیں ۔مزید تصدیق کے لیے اس کی آنکھوں نے گیٹ کے سامنے ایک لمحہ کے لیے رکنے والی مرسڈیز کی نمبر پلیٹ پڑھی ۔K302پڑھتے ہی وہ بت بنی کاراور جیپوں کو گیٹ کے اندر داخل ہوتا دیکھتی رہی ۔سفید گلاب کی خوشبو سونگھنا اسے بھول گیا تھا ۔
گاڑیوں کے اندر جاتے ہی گیٹ بند ہو گیا تھا مگر وہ اسی طرح ٹکٹکی باندھے گیٹ کو دیکھتی رہی اور پھر اس کے اندر ایک خاص جذبے نے سر ابھارا اور وہ گیٹ کی طرف چل پڑی ۔
وہ گیٹ سے دس بارہ قدم دور ہی تھی کہ سلیٹی رنگ کی وردی میں ملبوس ایک چوکیدار گیٹ کی ذیلی کھڑکی کھول کر برآمد ہوا ۔
”لڑکی !....گیٹ کے نزدیک آنا منع ہے ۔“اس نے دور ہی سے اسے متنبہ کیا ۔
وہ اعتماد بھرے لہجے میں بولی ۔”ہاں مگر اندر جانا تو منع نہیں ہے نا ۔“
”بھاگ جاﺅ ۔“اس مرتبہ چوکیدار نے اسے غصے بھرے لہجے میںڈانٹا تھا ۔
”میں کبیر دادا کی دوست ہوں ،یقینا مجھے بھگا نا تمھارے لیے سود مند نہیں رہے گا ۔“ اس کا پر اعتماد انداز برقراررہا وہ یہ موقع کھونا نہیں چاہتی تھی ۔
اس کے منہ سے کبیر دادا کا نام سن کر چوکیدار چونک گیا تھا ۔اس کے ساتھ ہی اس کے چہرے پر شکوک بھرئی پرچھائیاں لہرانے لگی تھیں ۔”تم ہوش میں تو ہو نا ۔“ایک لمحہ کی خاموشی کے بعد اس کے ہونٹوں سے سرسراتی ہوئی آوازبرآمد ہوئی ۔
وہ مسکرائی ۔”نشہ تو میں نہیں کرتی ۔“
”لڑکی !....یہ ایڈونچر تمھیں کسی مصیبت میں نہ ڈال دے ۔“چوکیدار آخری دم تک اسے نصیحت کرنے سے باز نہیں آیا تھا ۔
”میں نہ نشے میں ہوں ،نہ مذاق کر رہی ہوں اور نہ مجھے کسی ایڈونچر کا شوق چرایا ہے ، تم کبیر دادا کو اطلاع دو کہ اس کی دوست تناوش رفیق اسے ملنے آئی ہے ۔“
اس کے بااعتماد انداز پر چوکیدار اسے گھورتا رہ گیا تھا ۔اسے خاموش دیکھ کر وہ دوبارہ بولی ۔
”دیکھو اگر میں جھوٹ بول رہی ہوں تو جو کچھ ہو گا مجھے ہی بھگتنا پڑے گا اور اگر میں سچی ہوں تو یقینا میرے واپس جانے کی خبر کبیر دادا کو برداشت نہیں ہو گی ۔اس کی دوست کو گیٹ سے واپس بھیج دینے والے چوکیدار کے ساتھ وہ کیا سلوک کرے گا اس کا اندازہ لگانا شاید تمھارے لیے مشکل نہ ہو ۔“
اس مرتبہ اس کی دھمکی کام کر گئی تھی ۔چوکیدار واپس گیٹ کے اندر گیا اور انٹرکام اٹھا کر کسی سے پوچھنے لگا ۔
”اندر آجائیں ۔“دو منٹ بعد اس نے تناوش کو اندر آنے کا کہا ۔
وہ ذیلی کھڑکی سے اندر داخل ہوئی ۔چوکیدار نے اس کے بیگ کی تلاشی لی ،میٹل ڈیٹیکٹر اس کے جسم کے گرد گھمایاکر اس کے پاس کسی ہتھیار وغیرہ کی غیر موجودی کو یقینی بنایا اور اسی اندر جانے کی اجازت دے دی ۔
وہ محل نما کوٹھی تھی ۔گیٹ سے اندرونی عمارت تک سیمنٹ کا پختہ رستا بنا تھا جو اندرونی عمارت کے قریب جا کر بائیں جانب مڑ کر گیراج تک پہنچتا تھا ۔پختہ رستے کے دونوں جانب خوش نما پھولوں یکی کیاریاں لگی تھیں ۔کیاریوں سے متصل اسٹریلین گھاس کے خوشنما قطعے تھے ۔ کوٹھی کی بیرونی دیوار کے ساتھ سرو ،ایرکیریااور بوتل پام کے درخت لگے تھے ۔گھاس کے وسع قطے کے بیچوں بیچ شیر ببر کا ایک مجسمہ نصب تھا اور اس کے چاروں جانب دائرے میں فوارے نصب تھے جن کا پانی شیر کے اوپر پانی کا ایک جال سا بنا رہا تھا ۔
ایک سرسری نظر سے کوٹھی کا جائزہ لے کر وہ دھڑکتے دل کے ساتھ آگے بڑھ گئی ۔ اندرونی عمارت کے قریب پہنچتے ہی تھری پیس میں ملبوس ایک جوان سال آدمی باہر نکلا ۔اور اس سے کوئی سوال پوچھے بغیر اسے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کرتا ہوا اندر داخل ہو گیا ۔ڈرائینگ روم میں دبیز قالین بچھا تھا ۔دیواروں پر جنگل کے بادشاہ کے شکار کرنے کی مختلف تصاویر لگی تھیں ،کسی جگہ پرشیر نے ہرن کو منہ میں دبایا ہوا تھا ،کہیں بیل کے اوپر سوار تھا ،کہیں بار سنگھے کو جکڑا ہوا تھا اور کہیں ہاتھی اور زرافے جیسے عظیم الجثہ جانور پر جھپٹ رہا تھا ۔صاف نظر آرہا تھا کہ شیر ببر گھر کے مالک کا پسندیدہ درندہ تھا ۔
”جی مس !....آپ نے کس سلسلے میں کبیر دادا سے ملنا ہے ۔“اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے اس نے بہ ظاہر مودّب انداز میں پوچھا ۔مگر تناوش کو اس کے لہجے میں استہزاءکا عنصر نمایاں نظر آرہا تھا ۔
وہ تھوک نگلتے ہوئے بولی ۔”میں کبیر دادا کی دوست ہوں ۔“
”بہتر ہو گا کہ آپ اصل بات سے پردہ اٹھا دیں ....شاید تمھیں جسٹس ظہیر امجد نے بھیجا ہے ۔“
”نن....نہیں ....میں خود آئی ہوں ۔“وہ ہکلا گئی تھی ۔
وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولا۔”دیکھو ،یہ کبیر دادا کے آرام کا وقت ہے اور اس وقت وہ کسی سے ملنا گوارا نہیں کرتا ۔ جھوٹ بول کر آپ اپنے لیے تو سختی بنائیں گی ہی ،مجھے بھی جھاڑ پلوا دیں گی ۔“
”دیکھیں ....آپ کبیر دادا کو بتا دیں کہ اس کی دوست تناوش رفیق اسے ملنے آئی ہے، نہیںتو میں واپس چلی جاتی ہوں ،پھر خود ہی انھیں جواب دیتے رہنا ۔“ اس مرتبہ وہ اپنے لہجے میں اعتماد پیدا کرنے میں کامیاب رہی تھی ۔یوں بھی کبیر دادا کے اتنے قریب آکر اس سے ملے بغیر لوٹ جانابزدلی ہوتی ۔دلاور شیخ کو انجام تک پہنچانے کا یہ آخری موقع تھا ۔گو اسے اچھی طرح اندازہ تھا کہ کیبر دادا جیسا سوٹڈ بوٹڈ غنڈہ کسی لڑکی کے لیے کتنا خطرناک ہو سکتا تھا لیکن دلاور شیخ کی نفرت اور دشمنی نے اس کے دل و دماغ سے ہر خوف اور ڈر نکال دیا تھا ۔
”دیکھو لڑکی !....تم بہت بڑا دعوا کر رہی ہو ،جہاں تک میرے علم میں ہے کبیر دادا لڑکیوں سے ایک رات سے زیادہ کا تعلق رکھنا پسند نہیں کرتا ۔“اسے تناوش کی بات پر یقین کرنا مشکل ہو رہا تھا ۔اور جو کچھ اس نے کہا وہ سن کر تناوش کا چہرہ بھی حیا سے لال ہو گیا تھا مگر وہ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھی ۔
”ٹھیک ہے ،میں جا رہی ہوں ....آپ جانیں اور آپ کا دادا۔“اس نے آخری چال چلی اور باہر کی طرف قدم بڑھا دیئے۔
”ایک منٹ مس !“اسے رکنے کا کہہ کر وہ بادل نخواستہ لکڑی کے منقش دروازے کی طرف بڑھا ۔اور جھجکتے ہوئے دروازے کے اوپر لگا ہوا ایک بٹن دبا دیا ۔تناوش کو اس کے چہرے پر پسینے کے قطرے چمکتے ہوئے نظر آرہے تھے ۔یقینا یہ کبیرا دادا کا رعب ہی تھا کہ اس کے خاص بندے کی بھی ڈر کے مارے یہ حالت ہو رہی تھی ۔
کمحہ بھر بعد ہی دروازہ ایک جھٹکے سے کھلا ،وہ قمیص اتار چکا تھا اور بے بازو کی سفید بنیان ،پتلون اور ہوائی چپلوں میں وہ دروازے پر نمودار ہوا ۔اس کے چہرے پر حیرانی کے اثرات تھے ۔
خدمت گار نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا۔”باس !....آپ کی دوست ملنے پر اصرار کر رہی تھی ۔“
”میری دوست ....؟“اس کے لہجے میں شامل حیرانی تناوش کے لیے غیر متوقع نہیں تھی ۔اس کے ساتھ ہی اس نے صوفے پر بیٹھی تناوش کی طرف دیکھا جو اسے دیکھتے ہی کھڑٰ ہو گئی تھی ۔
”جج....جی ....یہ لڑکی کہہ رہی تھی کہ ........“اس نے ہکلاتے ہوئے بات پوری کرنا چاہی ،مگر اس سے پہلے کبیرا دادا کا ہاتھ گھوما اور کولہوں کے بل نیچے جا گرا تھا ۔ مزید کچھ کہے وہ وہ دروازہ بند کرنے ہی لگا تھا کہ تناوش ہمت کرتے ہوئے با آواز بلند بولی ۔
”کبیر دادا !....مجھ سے بات کیے بغیر آپ نہیں جا سکتے ۔“
اس کی بات پر کبیر دادا کو جھٹکا سا لگا تھا ۔دروازہ بند کرنے کا ارادہ تبدیل کرتے ہوئے وہ اس کی طرف متوجہ ہوا ، اس مرتبہ اس کی آنکھوں میں دلچسپی کے آثار نمایاں تھے۔
”تمھیں شاید اس ٹٹ پونجیے جسٹس نے بھیجا ہے ۔“کمرے سے باہر آکر وہ اس کے سامنے کھڑا ہو گیا تھا ۔وہ نرم و نازک چھوئی موئی لڑکی اس کے سامنے یوں نظر آرہی تھی جیسے شیر کے سامنے خرگوش دکھتا ہے ۔
”میں ذاتی کام سے آئی ہوں ۔“ہمت مجتمع کرتے ہوئے اس نے کبیر دادا کی آنکھوں میں جھانکا ،اس کے لیے اسے اپنا سر کافی اوپر اٹھانا پڑا تھا ۔
”شہر بھر تمھیں میں ہی سوشل ورکر نظر آیا ہوں ۔“طنزیہ لہجے میں کہہ کر وہ پیچھے مڑا۔
”بات سن لینے میں ہرج ہی کیا ہے ،شاید آپ کو بھی کوئی فائدہ نظر آجائے ۔“
گہرا سانس لیتے ہوئے وہ دوبارہ اس کی طرف متوجہ ہوا ۔”تمھارے پاس دو منٹ ہیں ،جس میں سے پانچ سیکنڈ گزر چکے ہیں ۔“اس نے کلائی پر بندھی سنہرے ڈائل کی قیمتی گھڑی آنکھوں کے سامنے پکڑ لی تھی ۔
”مجھے ایک آدمی کو قتل کرنا ہے اور اس کے لیے آپ کی مدد چاہیے بدلے میں آپ کو جو بھی درکار ہو گا میں دوں گی ۔“
نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے منہ سے قہقہہ برآمد ہوا ۔جو بالکل اوپرا اوپرا لگ رہا تھا ۔ یقینا اس کے ہونٹ ہنسنے کے لیے نہیں بنے تھے ۔”لڑکی مجھے بالکل اندازہ نہیں ہورہا کہ تم کیا چاہتی ہو....ایک بات تو یقینی ہے کہ تم کبیرا دادا سے ذرا سی بھی واقفیت نہیں رکھتی ہو ۔“
”آپ مجھے تھوڑا وقت دیں گے تو میں اپنے بارے کچھ بتا پاﺅں گی ....دو منٹ میں میں کیا وضاحت کر سکتی ہوں ۔“
”اچھا بولو۔“صوفے پر نشست سنبھالتے ہوئے اس نے تھپڑ کھائے ہوئے خدمت گار کو دفع ہونے کا اشارہ کیا ۔تناوش کو بیٹھنے کا اس نے نہیں کہا تھا ۔
وہ اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے نشست سنبھالتے ہوئے کہنے لگی ....
”میں ایک بے سہارا یتیم لڑکی ہوں ،ہمارے محلے کاغنڈہ دلاور شیخ مجھے آئے روز تنگ کرتا ہے ۔نہ تو اس ظالم کے خلاف پولیس کوئی کارروائی کرتی ہے اور نہ کوئی محلے دار ہماری مدد کرتا ہے۔اس نے میرے بڑے بھائی کوبھی بے دردی سے قتل کر دیا ۔وہ کہتا ہے کہ جیسے ہی میں بی اے کر لوں گی وہ مجھ سے زبردستی شادی کرے گا اور اگر اس سے پہلے میں نے کسی سے شادی کی کوشش کی تو وہ اسے قتل کر کے اسی وقت مجھ سے شادی کر لے گا ۔“
”تو ....؟“کبیر دادا نے ساری تفصیل سنتے ہی کندھے اچکائے ۔
”کیا میں خوب صورت نہیں ہوں ۔“تناوش نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بے باکی سے پوچھا ۔
”مجھے تمھاری خوب صورتی سے کیا لینا ۔“
”دلاور شیخ کو قتل کرنے میں میری مدد کرو اور مجھے حاصل کر لو ۔“یہ بات کرتے ہوئے اسے خود بھی اندازہ نہیں تھا کہ وہ کیا کہہ رہی ہے ۔
”تم پاگل ہو یا احمق ....دلاور شیخ سے اپنی عزت بچانے کے لیے تم اپنی عزت ہی بیچ کر اسے مارنا چاہ رہی ہو ۔“
”عزت نہیں بیچ رہی ،بلکہ ہم دونوں کا نکاح پڑھایا جائے گا ۔“
”کیا ....یقینا تم جاگتے میں خواب دیکھنے کی عادی ہو ۔“کبیرا دادا نے اٹھنے کے لیے پر تولے ۔
اتنی دیر اس سے باتیں کرنے کے بعد تناوش کے دل میں کوئی جھجک تھی بھی تو ختم ہو چکی تھی ۔وہ فوراََ اسے روکتے ہوئے بولی ۔”صرف نکاح پڑھوالینا ....اس کے بعد بے شک مجھے اپنی رکھیل سمجھ کر پاس رکھنا ،رکھیل ہی سا سلوک کرنا ،اپنے جاننے والوں کو بھی یہی بتانا کہ میں تمھاری رکھیل ہوں ....مجھ سے زیادہ کسی کو اپنا وفادار بھی نہیں پاﺅ گے ،بس میرے دل میں بھڑکتی آگ پر دلاور شیخ کا خون چھڑکنے میں میری مدد کر دو ۔“
”میرے پاس وفاداروں کی پوری فوج ہے ،تم جیسی کمزور کی وفاداری سے مجھے کیا حاصل ۔“کبیر دادا نے بہ ظاہر منہ بنایا ،مگرنے جانے کیوں تناوش کو اس کا بے زاری ظاہر کرنا مصنوعی لگ رہا تھا۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔

No comments: