ناول جنت کے پتے قسط 34
جنت کے پتے
از
نمرہ احمد
ناول؛ جنت کے پتے
قسط 34
جہان بہت سکون سے آخری سیڑھی پہ بیٹھ گیا تھا اور اب گویا تماشا دیکھ رہا تھا۔
-
تمہارے کام کی چیز نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ سائن کر سکتے ہیں یا نہیں؟ تایا ابا کو اس کا سوال کرنا سخت ناگوار گزرا تھا۔ جہان ہلکا سا مسکرایا مگر حیا تایا ابا کی طرف متوجہ تھی۔
وہ نہیں کر سکتے۔ ڈاکٹر نے ان سے زیادہ بات چیت سے منع کیا ہے۔ وہ دانستہ لمحے بھر کو روکی۔ آپ مجھے بتا دیں تایا ابا! شاید میں آپ کی مدد کر سکوں۔ آخر میں ابا کی اٹارنی ان فیکٹ ہوں۔
تایا فرقان کو جیسے جھٹکا لگا۔ وہ حیرت بھری الجھن سے اسے دیکھنے لگے۔
تم؟ سلیمان نے تمہیں کب اٹارنی ان فیکٹ بنایا؟
بہت پہلے ابا نے اپنا ڈیور ایبل (Durable) پاور آف اٹارنی مجھے دیا تھا اور اس کے مطابق میں ابا کی جگہ کام کر سکتی ہوں۔ پر اعتماد وہ ہمیشہ سے تھی اور اب بھی تایا فرقان کی بارعب شخصیت کے سامنے کھڑی بہت اطمینان سے انہیں بتا رہی تھی۔ خلاف توقع وہ ایک دم غصے میں آ گئے۔
دماغ خراب ہے سلیمان کا۔ وہ اس طرح کیسے کر سکتا ہے؟
اب تو وہ کر چکے ہیں۔ آخر! میں ان کی بیٹی ہوں۔ انہیں مجھ پہ بھروسہ ہے۔
کیا مذاق ہے یہ؟ وہ جیسے جھنجھلائے تھے۔ اب سارا کام کیسے چلے گا۔ل؟ کیا میں ذرا ذرا سی بات کے لیے تمہارے پاس ادھر آتا رہوں؟
اوہ! نہیں تایا ابا! میں آپ سب کو اپنی وجہ سے زحمت نہیں دوں گی۔ کسی کو ادھر نہیں آ نا پڑےگا۔میں کل سے خود ہی آفس آجاؤں گی۔
انٹرسٹنگ! آخری زینے پہ مطمئن سے بیٹھے تماشائی نے دلچسپی سے انہیں دیکھا جو آمنے سامنے کھڑے تھے۔ وہ جیسے دونوں کو تقریبا لڑوا کر بہت لطف اندوز ہو رہا تھا۔
تم۔۔۔۔۔۔۔ تم آفس آؤ گی؟ تمہیں کیا پتا بزنس ایڈمنسٹریشن کا؟ دبے دبے غصے سے انہوں نے ہاتھ سے گویا مکھی اڑائی۔
کیا فرق پڑتا ہے تایا ابا؟ داور بھائی جب پولیٹیکل سائنس میں سمپل ایم اے کر کے آج بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل ہو سکتے ہیں تو پھر چند دن کے لیے ابا کی کرسی میں بھی سنبھال سکتی ہوں۔
وہ لب بھینچ کر بمشکل ضبط کر کے رہ گئے۔
ہمارے خاندان کی بچی اب آفس آئے گی، لوگ کیا کہیں گے آخر؟ وہ ذرا سے دھیمے پڑے۔
جب وہ اپنے تایا، چاچا اور تایا زاد بھائی کے ساتھ آفس ائے گی تو لوگ کچھ نہیں کہیں گے۔ وہ پہلی بار ذرا سی مسکرائی۔
عجیب رواج چل نکلے ہیں۔ تایا ابا ماتھے پہ بل لیے پلٹ گئے اور لمبے لمنے ڈگ بھرتے باہر نکل گئے۔ اپنے پیچھے دروازہ انہوں نے زور دار آواز میں بند کیا تھا۔
کیا بات ہے! وہ مسکرا کر ستائشی انداز میں کہتا سیڑھی سے اٹھا۔ بس تالی نہیں بجائی ورنہ انداز ویسا ہی تھا۔
تایا ابا نے مجھ سے کبھی ایسے بات نہیں کی۔ وہ ابھی تک ملال سے دروازے کو دیکھ رہی تھی جہاں سے وہ گئے تھے۔
آہستہ آہستہ وہ اس سے بھی زیادہ تحقیر سے بات کرنے لگیں گے۔ بس! دیکھتی جاؤ۔
مگر وہ ٹھیک کہہ رہے تھے۔ میں کیسے ابا کی سیٹ پہ بیٹھ سکتی ہوں۔؟ مجھے واقع ان کے کاروبار کا کچھ نہیں پتا۔ اب پہلی دفعہ اسے فکر ستانے لگی۔ تایا ابا کے سامنے جو بڑے بڑے دعوے کیے تھے، ان کو ثابت کرنے کے لے وہ کیا کرے گی؟ ایک دم سے بہت سا بوجھ اس کے کندھوں پہ آ گرا تھا۔
حیا! جب تم نے اس رات کو مجھے وہ ساری باتیں بتائئں تھیں تو میں نے تمہارے بارے میں دو آراء قائم کی تھیں۔ پہلی یہ کہ جو لڑکی کسی کی مدد لیے بغیر اتنا کچھ خود ہی تنہا سہتی ہے، وہ بہت مضبوط لڑکی ہوتی ہے۔ شاید چند ماہ قبل تم اتنی مضبوط نہ ہو, مگر اب ہو گئی ہو۔
وہ نرمی سے کہتا اس کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ وہ ابھی تک دروازے کو دیکھ رہی تھی۔
اور دوسری بات یہ کہ تم نے اس سائیکو آفیسر کا پزل حل کر لیا جس سے مجھے لگا کہ تم ایک سمجھدار اور ذہین لڑکی ہو، جو معمولی سی باتوں سے بھی اپنے مسائل کے حل ڈھونڈ لیتی ہے۔ یقین کرو! بزنس سنبھالنے کے لیے کسی ڈگری سے زیادہ کامن سینس، مضبوط اعصاب اور ذہانت کی ضرورت ہوتی ہے اور سب تمہارے پاس ہے، پھر فکر کیسی؟
اس نے دروازے سے نگاہیں ہٹا کر جہان کو دیکھا۔
"کیا تم میری مدد کرو گے؟" بہت پر امید انداز میں اس نے پوچھا تھا۔
"بالکل بھی نہیں۔ جو کرنا ہے، اکیلے کرو اور خود کرو کیونکہ تم کر سکتی ہو۔" ایک لا تعلق سا تبصرہ کر کے وہ دروازے کی طرف بڑھ گیا۔
اس نے تلملا کر اسے جاتے دیکھا۔ آخر اس نے مدد مانگی ہی کیوں اس آدمی سے؟ سوچا بھی کیسے کہ وہ اس کی مدد کرے گا؟ وہ تو جہان تھا، وہ تو ہمیشہ اسے تنہا چھوڑ کر چلے جانے کا عادی تھا۔
اب وہ کیا کرے گی؟ سر ہاتھوں میں تھامے وہ صوفے پر گر سی گئی۔ اس کی انا کا سوال تھا۔ تایا کے سامنے اتنے دعوے کر کے وہ پیچھے نہیں ہٹ سکتی تھی۔ پیچھے ہٹنے کا راستہ اب بند تھا۔ اسے کل سے واقعی آفس جانا پڑے گا، وہ جانتی تھی۔
"چند دنوں کی ہی تو بات ہے۔ اس نے خود کو تسلی دی۔"
***
رات وہ ابا سے ملنے گئی۔ جب فاطمہ قریب نہیں تھیں تو ان کا ہاتھ پکڑ کر نرمی سے انہیں اپنے فیصلے کا بتایا۔ ساری بات سن کر وہ نحیف سے انداز میں ہلکا سا مسکرائے۔
باقر صاحب سے مل لینا، وہ تمہیں کام سمجھا دیں گے۔" بہت دھیمی آواز میں وہ بس اتنا ہی کہہ پاۓ تھے۔ "اور ذیشان میرا دوست ہے۔ کوئی مدد چاہیے ہو تو اسے کہہ دینا۔
پھر انہوں نے آ نکھیں موند لیں۔ بیماری واحد شے نہیں ہوتی جو انسان کو ڈھا سکتی ہے۔ دکھ زیادہ زور آور ہوتے ہیں۔ وہ بھی ٹوٹ چکے تھے۔ اسے روحیل پہ پہلے سے بھی زیادہ غصہ آیا۔
فاطمہ سے سامنا ہوا تو بس سرسری سا بتایا۔
"کل میں ابا کے آ فس جاؤں گی۔" انہوں نے حیرت سے اسے دیکھا۔
"کیوں_؟"
"ابا نے کہا تھا۔ اچھا! آپ یہ کاروباری باتیں ان سے مت کیجیے گا۔ ڈاکٹر نے منع کیا ہے۔"
وہ نگاہ بچا کر اس سے نکل گئی۔ وہ فاطمہ کو جانتی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ اس کے فیصلے پہ بہت خوش نہیں ہوں گی اور خوش تو شاید خود بھی نہیں تھی۔وہ خود بھی ایسا نہیں چاہتی تھی۔ یہ تو جہان تھا۔جس نے اسے پھنسوایا تھا اور پھر خود پیچھے ہٹ گیا تھا۔
•
سلیمان صاحب کا آفس نہایت پر تعیش انداز میں آرستہ کیا گیا تھا۔ گرے اود گہرے نیلے کی تھیم کے ساتھ، سفید چمکتے ماربل ٹائلز، قمیتی پردے، شاہانہ سا فرنیچر اور اس اونچی، سیاہ، گھومنے والی کرسی کی تو شان ہی الگ تھی، جس پر وہ اس وقت بیٹھی تھی۔
اپنے سلک کے سیاہ عبایا میں ملبوس، دونوں کہنیاں کرسی کے ہتھ پہ جمائے، انگلیوں سے دوسرے ہاتھ میں موجود پلاٹینم گھماتے ہوئے، ٹیک لگا کر بیٹھی، وہ سنجیدگی سے سر ہلاتی باقر صاحب کی بریفنگ سن رہی تھی۔ نفاست سے لیے گئے نقاب میں سے جھلکتی آنکھیں متوجہ انداز میں سکڑی ہوئی تھیں۔
وہ ادھیڑ عمر اور شریف النفس سے انسان لگتے تھے اور اب پوری جانفشانی سے اسے ابا کی کنسٹرکشن کمپنی کے بارے میں آگاہی دے رہے تھے۔ بورڈ آف ڈائریکٹرز، شیئر ہولڈرز، کمپنی کے زیر تعمیر پروجیکٹس، ٹینڈرز، وہ سن سب رہی تھی، مگر بعض اصطلاحات بہت مشکل تھیں۔ اسے سب سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ رہ رہ کر اسے کاروباری معلومات میں اپنی کم علمی کا افسوس ہو رہا تھا۔ وہ خود کو سمجھا رہی تھی کہ یہ افسوس بھی کم علمی کا ہے، نہ کہ تایا کو یوں چیلنج کرنے کا، لیکن شاید آخر الذکر پہ اسے زیادہ افسوس تھا۔
کمپنی میں چالیس فیصد شیئرز آ پ کے والد کے ہیں میم! بیس فیصد فرقان صاحب کے، بیس فیصد زاہد صاحب کے اور دس فیصد سیٹھی صاحب کے ہیں۔
اور آخری دس فیصد؟ پہلی دفعہ اس نے زبان کھولی اور ساتھ ہی آ فس کا دروازہ کھلا۔ حیا نے چونک کر دیکھا اور پھر ناگواری کی ایک لہر نے اسے سر سے پاؤں تک گھیر لیا۔ اگر اسے تھوڑا سا بھی خیال آ تا کہ آخری دس فیصد شیئرز ہولڈر ولید لغاری ہو سکتا ہے تو وہ کبھی آفس نہ آتی۔
اوہ! آپ۔۔۔۔۔۔۔ آفس آئی ہیں؟ وہ آپ پہ زور دیتا، طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ بہت اعتماد سے چلتا اندر آیا۔ باقر صاحب کے چہرے پہ ناگواری ابھری، مگر وہ خاموش رہے۔
تو سلیمان انکل کی سیٹ آپ سنبھال لیں گی؟ اس کے سامنے کرسی کھینچ کر وہ ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کر بیٹھ گیا۔ کیا بزنس ایڈمنسٹریشن میں ڈگری آپ نے ترکی سے لی ہے؟ مگر ابا کو تو آپ نے بتایا تھا کہ آپ ایل ایل بی کر رہی ہیں؟
تمسخرانہ انداز میں کہتا وہ واضح پہ اس رات کا حوالہ دے رہا تھا۔ یہ طے تھا کہ پہلی دفعہ نقاب میں دیکھ کر اگر وہ فور اسے پہچان گیا تھا تو وجہ یہی تھی کہ اس نے باہر اسٹاف سے اس کی آمد کے بارے میں سنا تھا۔، تب ہی وہ اتنے اعتماد سے بے دھڑک اس آفس میں داخل ہوا تھا، جس سے وہ غالبا ہمیشہ ہوتا تھا۔
تو میڈم ایم ڈی! کیا ارادے ہیں آپ کے؟ کیا اب اس آفس میں طالبانائزیشن رائج ہو جائے گی؟
وہ جو خاموشی سے لب بھینچے اس کی بات سن رہی تھی، اس نے دائیں ابرو سوالیہ اٹھائی۔ سیاہ نقاب سے جھلکتی آنکھوں کی سختی واضح تھی۔
میں نے آپ کو پہچانا نہیں۔ آپ کی تعریف؟ باقر صاحب یہ صاحب کون ہیں؟
میم یہ لغاری صاحب کے۔۔۔۔۔۔۔۔
پہچان تو خیر آپ گئی ہیں۔ مجھے نہیں لگتا، آپ کبھی بھول پائیں گی۔ ولید لغاری کہتے ہیں مجھے اور۔۔۔۔۔۔۔۔
ولید صاحب! میری ایک بات کا جواب دیں۔ متوازن لہجے میں بات کاٹتے ہوئے وہ آگے کو ہوئی اور ایک دوسرے میں پھنسے ہاتھ میز پر رکھے۔ وہ جو استہزائیہ انداز میں بولے جا رہا تھا، رک گیا۔
ولید صاحب! کیا میں نے آپ کو اپنے آفس میں بلایا تھا؟ ولید نے ہنس کر سر جھٹکا۔
میڈم حیا! بلکہ مسز حیا! اب جب آپ کو ادھر کام۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ولید صاحب! کیا میں نے آپ کو بلایا تھا؟ وہ پہلے سے بلند اور درشت آواز میں بولی۔ ولید کی بھنویں سکڑیں۔
سلیمان انکل کے آفس میں آنے کے لیے مجھے اجازت۔۔۔۔۔۔
ولید صاحب! کیا میں نے آپ کو بلایا تھا؟
وہ بے حد اونچی آواز میں کہتی کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ باقر صاحب بھی احتراما ساتھ ہی اٹھے۔تابعداری کا ثبوت۔ وفاداری کا احساس۔ ولید کی پیشانی کے بل گہرے ہو گئے۔ وہ تیزی سے اٹھا۔ سلیمان انکل میرے ساتھ یہ سلوک کبھی برداشت نہ کرتے۔
میں آپ کے ساتھ اس سے بھی بدتر سلوک کر سکتی ہوں۔ باقر صاحب! ان صاحب کو باہر جانا ہے۔ پلیز! دروازہ کھول دیں۔
باقر صاحب نے زرا تذبذب سے اسے دیکھا، پھر پلٹنے ہی لگے تھے کہ ولید نے ہاتھ اٹھا کر انہیں روکا۔
میں دیکھتا ہوں، آپ کتنے دن اس آفس میں رہتی ہیں۔ اک خشمگیں نگاہ باقر صاحب پہ ڈالتا وہ تیزی سے پلٹا۔
حیا نے کرسی پہ واپس بیٹھتے ہوئے انٹر کام کا ریسیور اٹھایا۔
درخشاں! اگر یہ آدمی مجھے دوبارہ بلا اجازت اپنے آفس میں داخل ہوتا نظر آیا تو آپ کی چھٹی۔ سن لیا آپ نے؟ اور سنایا تو اس نے ولید کو تھا، جو اس کی بات ختم کرنے کے بعد ہی باہر نکلا تھا۔
جی۔۔۔۔۔۔۔۔ جی میم! ابا کی سیکریٹری بو کھلا گئی تھی۔
بیٹھئے! رسیور واپس رکھتے ہوئے اس نے باقر صاحب کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
باقی دس فیصد شیئرز ان کے پاس ہیں میم! باقر صاحب نے سلسلہ کلام وہیں سے جوڑا۔ تب تک وہ چند گہرے سانس لے کر خود کو کمپوز کر چکی تھی۔ پہلے عمیر لغاری آفس آیا کرتے تھے، مگر گزشتہ ایک ماہ سے وہ علاج کے سلسلے میں بیرون ملک ہیں۔ چند مزید تفصیلات کے بعد وہ اسے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی آج متوقع میٹنگ کے بارے میں بتانے لگے۔
میم! ایک ٹریڈ سینٹر کا پروجیکٹ ہیں۔ ہمیں وہ حاصل کرنا ہے اور۔۔۔۔۔۔۔۔"
"یعنی کہ ٹینڈر کی نیلامی ہے اور ہمیں نیلامی جیتنی ہے؟ اس نے دبے دبے جوش سے اس کی بات کاٹی۔ گزرتے گزرتے کبھی کوئی سوپ سیریل دیکھتی تھی تو اس میں عموما ٹینڈرز کی نیلامی ہو رہی ہوتی اور مخالف کمپنیاں بولی لگا رہی ہوتیں۔ سو کم از کم کچھ تو پتا تھا اسے کنسٹرکشن کمپنی کے معتلق۔ باقر صاحب لمحے بھر کو خاموش ہوئے، پھر نفی میں سر ہلایا۔
نہیں میم! ٹینڈر کی نیلامی کا معاملہ نہیں ہے۔
اچھا! اس نے خفت چھپاتے ہوئے سر ہلا دیا۔ اب وہ درمیان میں نہیں بولے گی۔ خاموش رہ کر بس سنے گی۔
اصل میں ایک گروپ ٹریڈ سینٹر بنانا چاہ رہا ہے۔ وہ اس کے لیے مختلف کمپنیوں کے آئیڈیاز دیکھنا چاہتے ہیں کہ کون ان کی زمین کو بہترین طور پہ استعمال کر کے ٹریڈ سینٹر بنا سکتا ہے۔ اگر ہمارا آئیڈیا اپروو ہو گیا تو پروجیکٹ ہمیں مل جائے گا۔ میں ہیڈ آرکیٹیکٹ کو بھیجتا ہوں۔ وہ آپ کو مزیر بریف کر دیں گے۔ باقر صاحب مؤدب انداز میں اٹھتے ہوئے بولے۔
******
وہ آپ کو مزیر بریف کر دیں گے۔ باقر صاحب مؤدب انداز میں اٹھتے ہوئے بولے۔
ہیڈ آرکیٹیکٹ رضوان بیگ صاحب درمیانی عمر کے تجربے کار انسان تھے، مگر ان کا انداز یوں تھا، گویا ان کے سامنے کوئی ان پڑھ لڑکی بیٹھی ہو، جس کو بریف کرنا وہ اپنی شان میں توہین سمجتے ہوں۔ جان بوجھ کر مشکل اصطلاحات استعمال کرتے ہوئے وہ بہت لاپروائی سے اس کو اپنا کام دکھا رہے تھے۔
یہ ٹریڈ سنٹر ہے، یہ پارکینگ لاٹ ہے، یہاں ہم یوں کریں گے، یہاں یوں۔۔۔۔۔۔۔۔" حیا اسی انداز سے کمر سیٹ سے ٹکائے ہتھیلیاں ملائے بیٹھی بہت تحمل سے ان کی بات سن رہی تھی۔
اب آپ کو تو اتنا پتا نہیں ہو گا میم! بہر حال یہ اتنا شان دار پروجیکٹ پلان ہے کہ عمارت دیکھتے ہی گاہک فورا کار ادھر پارک کرے گا اور شاپنگ شروع کر دے گا۔
خیر! میں تو اس موت کے کنویں میں کبھی کار پارک نہ کروں۔ کار کو کچھ ہو گیا تو روحیل کبھی نہیں چھوڑے گا کہ وہ اس کی کار تھی، مگر اب تو روحیل نے بہت کچھ چھوڑ دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کار تو جہان کے پاس تھی۔ پتا نہیں، وہ اس وقت کیا کر رہا ہو گا۔ اف حیا کام پہ توجہ دو۔
وہ سر جھٹک کر ان کی طرف متوجہ ہو گئی۔ ڈیزائن کی اسے واقعی کچھ سمجھ نہیں تھی، لیکن اگر وہ اتنے قابل آرکیٹیکٹ اس کی اتنی تعریف کر رہے تھے تو یقینا وہ بہت اچھا ہو گا، وہ قائل ہو گئی۔
بورڈ آف ڈائریکٹرز کی میٹنگ اس کی توقع سے زیادہ بری رہی۔
***
ﺟﺐ ﻭﮦ ﮐﺎﻧﻔﺮﻧﺲ ﺭﻭﻡ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﮐﺎﻧﻔﺮﻧﺲ ﭨﯿﺒﻞ ﮐﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺍﻃﺮﺍﻑ ﮐﺮﺳﯿﻮﮞ ﮐﯽ قطاروں ﭘﮧ ﺳﻮﭨﮉ ﺑﻮﭨﮉ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﻣﻨﺘﻈﺮ ﺳﮯ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺳﺮﺑﺮﺍﮨﯽ ﮐﺮﺳﯽ ﺧﺎﻟﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻭﮦ ﻓﺎﺋﻞ ﺳﻨﺒﮭﺎﻟﮯ، ﺗﯿﺰ ﺗﯿﺰ قدموں سے چلتی ﮐﺮﺳﯽ ﮐﯽ تک ﺁﺋﯽ۔ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﮭﮍﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺍ۔ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﯿﺰ ﭘﺮ ﭘﺮﺱ ﺭﮐﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﺮﺳﯽ ﺳﻨﺒﮭﺎﻟﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻓﺎﺋﻞ ﮐﮭﻮﻟﯽ۔ ﭘﮭﺮ ﮔﺮﺩﻥ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﺳﺐ ﻣﺮﺩ ﺣﻀﺮﺍﺕ ﺍﺳﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﺘﻮﺟﮧ ﺗﮭﮯ۔ ﺗﺎﯾﺎ ﻓﺮﻗﺎﻥ، ﭼﭽﺎ زﺍﮨﺪ چچا، ﺩﺍﻭﺭ ﺑﮭﺎﺋﯽ، ﻭﻟﯿﺪ ﺍﻭﺭ ﭼﻨﺪ ﻏﯿﺮ ﺷﻨﺎﺳﺎ ﭼﮩﺮﮮ۔ ﻟﻤﺤﮯ ﺑﮭﺮ ﮐﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﻋﺘﻤﺎﺩ ﮈﺍﻧﻮﺍ ﮈﻭﻝ ﮨﻮﺍ۔
ﺟﻮ ﻟﮍﮐﯽ ﺍﺗﻨﺎ ﮐﭽﮫ ﺗﻨﮩﺎ ﺳﮩﺘﯽ ﮨﮯ۔ ﻭﮦ ﺑﮩﺖ ﻣﻀﺒﻮﻁ ﻟﮍﮐﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻓﻮﺭﺍ ﺳﮯ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺳﻨﺒﮭﺎﻝ ﻟﯿﺎ۔
ﺗﻤﮩﯿﺪ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺍزﻟﯽ ﺍﻋﺘﻤﺎﺩ ﺍﻭﺭ ﺩﻭ ﭨﻮﮎ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﯽ۔
ﺳﻠﯿﻤﺎﻥ ﺍﺻﻐﺮ ﮐﯽ ﺍﭨﺎﺭﻧﯽ ﺍﻥ ﻓﯿﮑﭧ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﻧﺎﺗﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺻﺤﺖ ﯾﺎﺑﯽ ﺗﮏ میں ﺍﻥ ﮐﯽ ﺳﯿﭧ ﺳﻨﺒﮭﺎﻟﻮﮞ ﮔﯽ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻣﯿﺪ ﮨﮯ کہ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺍﻋﺘﺮﺍﺽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﮔﺎ۔
ﺍﻋﺘﺮﺍﺽ ﺗﻮ ﺧﯿﺮ ﮨﮯ، ﻣﮕﺮ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ؟ ﺗﺎﯾﺎ ﻓﺮﻗﺎﻥ ﻧﮯ ﻧﺎﮔﻮﺍﺭﯼ ﭼﮭﭙﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﯿﮯ ﺑﻐﯿﺮ ہاتھ جھلا کر ﮐﮩﺎ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮔﺮﺩﻥ ﻣﻮﮌ ﮐﺮ بہت سنجیدگی سے ﺍنہیں ﺩﯾﮑﮭﺎ۔
ﺟﯽ ﺳﺮ! ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﯽ ﮨﻮﮞ کہ ﺑﮩﺖ سے ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﻋﺘﺮﺍﺽ ﮨﻮ ﮔﺎ، ﻣﮕﺮ ﭼﻮﻧﮑﮧ ﺁﭖ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯿﮟ، ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻣﺠﮭﮯ ان کی ﭘﺮﻭﺍﮦ ﻧﮩﯿﮟ ہے۔ ﺍﺏ ﮐﺎﻡ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﻮ ﮐﭽﮫ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺳﮯ ﮔﮭﯿﺮﺍ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻧﮧ ﮨﺎﮞ ﮐﺮ ﺳﮑﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﻧﺎﮞ۔ ﻭﮦ ﻣﯿﭩﯿﻨﮓ ﮐﮯ ﻣﻘﺎﺻﺪ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ آ ﮔﺌﯽ۔
ﺍﺱ ﮐﯽ ﻏﻠﻂ ﻓﮩﻤﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﻭﻟﯿﺪ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ۔ ﻭﻟﯿﺪ ﺳﻤﯿﺖ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎ ﺳﺐ ﮨﯽ، ﺣﺘﯽ ﮐﮧ ﺩﺍﻭﺭ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﻋﺮﺻﮯ ﻣﯿﮟ اس سے ﺑﺎﺕ بہ ﺑﺎﺕ ﺳﻮﺍﻝ کرتے ﺭﮨﮯ۔ ﺟﺎﻥ ﺑﻮﺟﮫ ﮐﺮ ﮐﻨﻔﯿﻮﺯ ﮐﺮنے ﻭﺍﻟﮯ ﺳﻮﺍﻝ اور اس کی توجیہہ پہ استہزائیہ انداز میں سر جھٹک دیا جاتا۔ ﻏﺼﮧ اسے ﺁﯾﺎ، ﻣﮕﺮ ﺍﺳﮯ ﻋﺎﺋﺸﮯ ﮔﻞ ﮐﯽ ﺍﭼﮭﯽ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺗﺤﻤﻞ ﺳﮯ ﮐﺎﻡ ﻟﯿﻨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺻﺒﺮ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﮮ ﮔﯿﺎ، ﺟﺐ ﺩﺍﻭﺭ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﻧﮯ ﺑﮩﺖ ﭼﮭﺒﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎ۔
ﻣﯿﮉﻡ! ﺁﭖ ﮐﺎ ﺗﻮ ﺍﯾﻞ ﺍﯾﻞ ﺑﯽ ﺑﮭﯽ مکمل ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺍ، ﺗﻮ ﺁﭖ ﮐﻨﺴﭩﺮﮐﺸﻦ فرم ﮐﯽ ﭘﯿﭽﯿﺪﮔﯿﺎﮞ ﮐﯿﺴﮯ ﺳﻤﺠﮫ ﭘﺎﺋﯿﮟ ﮔﯽ؟
ﺟﺐ ﺁﭖ ﭼﺎﺭ ﺳﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺩﻭ ﺩﻓﻌﮧ ﺍﻧﮕﻠﺶ لینگویج ﻣﯿﮟ سپلی ﻟﮯ ﮐﺮ ﺑﯽ ﺍﮮ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺳﻤﭙﻞ ﺍﯾﻢ ﺍﮮ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺁﺝ ﺍﺩﮬﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﺮ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺳﻮﺍﻝ و ﺟﻮﺍﺏ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﯾﻘﯿﻦ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺟﻠﺪ ﮨﯽ ﮐﻤﭙﻨﯽ ﮐﯽ ﺳﺎﺭﯼ ﭘﯿﭽﯿﺪﮔﯿﺎﮞ ﺳﻤﺠﮫ ﺟﺎؤﮞ ﮔﯽ۔
ﺑﮩﺖ ﺳﮑﻮﻥ ﺳﮯ ﮐﮩﺘﯽ ﻭﮦ ﺍﭨﮫ ﮐﮭﮍﯼ ﮨﻮﺋﯽ۔ کانفرنس روم میں سناٹا چھا گیا۔ ﺩﺍﻭﺭ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮐﺎ ﭼﮩﺮﮦ ﺳﺮﺥ ﭘﮍ ﮔﯿﺎ۔ ﻭﮨﺎﮞ ﭘﺮﻭﺍﮦ ﮐﺴﮯ ﺗﮭﯽ۔
ﻭﮦ "ﺍلسلام ﻭ ﻋﻠﯿﮑﻢ" کہہ کر ﺍﭘﻨﯽ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ اسی اعتماد اور قار کے ساتھ دروازے کی سمت بڑھ گئی، جس کے ساتھ وہ اندر آئی تھی۔
ﺳﻠﯿﻤﺎﻥ ﺍﺻﻐﺮ ﮐﯽ ﻣﻐﺮﻭﺭ ﺑﯿﭩﯽ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﭘﯿﭽﮭﮯ سے ﺍﺱ ﻧﮯ کسی ﮐﻮ ﮐﮩﺘﮯ ﺳﻨﺎ ﺗﮭﺎ، ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻞ ﺁﺋﯽ۔ ﭘﺮﺳﻮﮞ ﭘﺮﯾﺰﯾﻨﭩﯿﺸﻦ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﺍﭼﮭﯽ سی ﭘﺮﯾﺰﯾﻨﭩﯿﺸﻦ ﺩﮮ ﮐﺮ ﭘﺮﻭﺟﯿﮑﭧ ﺍﭘﺮﻭﻭ ﮐﺮﻭﺍ ﻟﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺍﻥ ﺷﺎؤﻧﺴﭧ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﭘﮧ ﺛﺎﺑﺖ ﮐﺮ ﺩﮮ ﮔﯽ ﮐﮧ ﺳﻠﯿﻤﺎﻥ ﺍﺻﻐﺮ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﺤﺎﺏ درست ﺗﮭﺎ۔
***
ﺑﯿﮉ ﭘﺮ ﻟﯿﺐ ﭨﺎﭖ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺑﯿﭩﮭﯽ ﮐﯽ ﭘﯿﮉ ﭘﺮ ﺍﻧﮕﻠﯿﺎﮞ ﺗﯿﺰ ﺗﯿﺰ ﭼﻼﺗﯽ، ﻭﮦ ﭘﻮﺭﮮ ﺍﻧﮩﻤﺎﮎ کے ﺳﺎﺗﮫ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﺎﻡ کی طرف ﻣﺘﻮﺟﮧ ﺗﮭﯽ۔ ﭘﺮﯾﺰﯾﻨﭩﯿﺸﻦ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻭﮦ مکمل ﺗﯿﺎﺭﯼ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺟﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﺗﺎ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﻧﮧ ﺍﭨﮭﺎ ﺳﮑﮯ۔ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﮐﺎﻡ ﮐﮯ ﺑﺎﻋﺚ ﺍﺱ کے ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﺩ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺳﺮ ﮐﮯ ﭘﭽﮭﻠﮯ ﺣﺼﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮨﻠﮑﯽ ﭨﯿﺴﯿﮟ ﺍﭨﮫ ﺭﮨﯽ تھیں۔ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﺭﺍﺩﮦ ﮐﺎﻡ ﺧﺘﻢ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺩﻭﺍ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺳﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﺗﮭﺎ۔
"ﺣﯿﺎ۔" فاطمہ ﺍﺳﮯ ﭘﮑﺎﺭﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﺗﮏ ﺁﺋﯿﮟ۔ ﺻﺒﺢ ﺍﺑﺎ ﮐﻮ ﮔﮭﺮ ﺷﻔﭧ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔، ﺟﺲ ﮐﮯ ﺑﺎﻋﺚ ﺍﺏ ﻭﮦ ﺑﺎﻵﺧﺮ ﺳﺐ ﺍﯾﮏ ﭼﮭﺖ تلے ﺗﮭﮯ۔
ﮐﯿﺎ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﮨﻮ؟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮔﺮﺩ ﮐﺎﻏﺬﻭﮞ، ﻓﺎﺋﻠﺰ ﺍﻭﺭ ﻟﯿﭗ ﭨﺎﭖ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﻓﺎﻃﻤﮧ ﻧﮯ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﺳﮯ ﺳﺮ ﮨﻼﯾﺎ۔ ﮐﯿﺎ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﺗﮭﯽ ﯾﮧ ﺳﺐ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ؟ ﺻﺎﺋﻤﮧ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﺑﮭﯽ خفا ﮨﻮ ﺭﮨﯽ تھیں کہ ﺟﺐ ﺗﺎﯾﺎ ﮐﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﺧﻮﺩ ﮐﺮﻭ ﮔﯽ ﺗﻮ ﺳﺐ ﮐﮩﯿﮟ ﮔﮯ ﮐﮧ ﺍﻥ ﭘﺮ ﺑﮯ ﺍﻋﺘﺒﺎﺭی ﻇﺎﮨﺮ ﮐﯽ ﺟﺎ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ۔
ﻣﺠﮭﮯ ﯾﮩﯽ ﺑﮩﺘﺮ ﻟﮕﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻣﺎﮞ! ﺍﺑﺎ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺍﭨﺎﺭﻧﯽ ﺍﻥ ﻓﯿﮑﭧ ﺑﻨﺎﯾﺎ تھا ﺗﻮ ﮐﭽﮫ ﺳﻮﭺ ﮐﺮ ﮨﯽ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﮨﻮ ﮔﺎ۔ وہ ﺍﺳﮑﺮﯾﻦ ﺳﮯ ﻧﻈﺮﯾﮟ ﮨﭩﺎﺋﮯ بنا بولی۔
ﺍﭼﮭﺎ! ﮐﻞ ﺍﺭﺳﻞ ﮐﺎ ﻭﻟﯿﻤﮧ ﮨﮯ۔ ﮐﯿﺎ ﭘﮩﻨﻮ ﮔﯽ؟
اﻑ! ﯾﮧ ﺷﺎﺩﯾﺎﮞ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ﺟﺐ سے ﺍﺑﺎ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ، ﺍﻥ ﭼﯿﺰﻭﮞ ﮐﺎ ﺩﻝ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺭﺳﻞ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺳﯿﮑﻨﮉ ﮐﺰﻥ ﺗﮭﺎ، ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﻭﮦ ﺍﻭﺭ ﻓﺎﻃﻤﮧ ﻣﮩﻨﺪﯼ ﺍﻭﺭ ﺷﺎﺩﯼ ﭘﺮ ﻧﮩﯿﮟ گئی ﺗﮭﯿﮟ۔ ﺍﺏ ﻭﻟﯿﻤﮯ ﭘﺮ ﺟﺎﻧﺎ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﺗﮭﺎ۔
ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﭘﮩﻦ ﻟﻮﮞ ﮔﯽ۔ ﻣﮑﺴﮉ ﮔﯿﺪﺭﻧﮓ ﮨﻮ ﮔﯽ۔ اس کی انگلیوں سے درد اب کلائیوں تک سرایت کر رہا تھا۔
ﮨﺎﮞ! ﻣﮑﺴﮉ ﮨﯽ ﮨﮯ، ﻣﮕﺮ ﭘﻠﯿﺰ! ﺍﺱ ﺩﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺩﻭﭘﭩﮧ ﻣﺖ ﻟﭙﯿﭩﻨﺎ۔ ﻓﺎﻃﻤﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﺑﯿﮉ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮭﺘﯽ ﻧﺮﻭﭨﮭﮯ ﭘﻦ ﺳﮯ ﺑﻮلیں۔
ﭘﺮ ﺍﻣﺎﮞ ﻣﮑﺴﮉ ﮔﯿﺪﺭﻧﮓ ﺟﻮ ﮨﮯ۔ ﻧﻘﺎﺏ ﺗﻮ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ۔ ﻭﮦ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﮏ ﺍﺳﮑﺮﯾﻦ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﻣﺘﻮﺟﮧ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﺳﮯ پتا ﻧﮩﯿﮟ چلا کہ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﺲ شے ﮐﻮ ﺩﻋﻮﺕ ﺩﮮ ﮈﺍﻟﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﻧﻘﺎﺏ ﮐﺲ ﻟﯿﮯ؟ ﮐﯿﺎ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ؟ ﻭﮨﺎﮞ ﮐﺲ ﺳﮯ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﮯ ﻧﻘﺎﺏ؟ ﮐﺰﻥ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﮨﮯ۔ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﺐ ﺍﭘﻨﮯ ہی ﮨﻮﮞ ﮔﮯ۔ ﻭﮦ ﺣﯿﺮﺕ ﺍﻭﺭ ﻏﺼﮯ ﺳﮯ ﺑﻮﻟﯿﮟ۔ ﺣﯿﺎ ﻧﮯ ﺭﮎ ﮐﺮ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ۔
ﺍﭘﻨﺎ ﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﺍﻣﺎﮞ! ﻭﮦ ﮐﺰﻧﺰ ﮨﯿﮟ۔ ﺳﮕﮯ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﺍﺏ ﺟﺐ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﻮﮞ ﻧﻘﺎﺏ ﺗﻮ ﭨﮭﯿﮏ ﺳﮯ ﮐﺮﻭﮞ ﻧﺎ۔ ﺍﺳﮯ ﺳﺮ ﮐﮯ ﭘﭽﮭﻠﮯ ﺣﺼﮯ ﺳﮯ ﺩﺭﺩ اپنے ﺑﺎﺯﻭ ﺗﮏ ﺑﮍﮬﺘﺎ ﮨﻮﺍ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ، ﯾﻮﮞ ﺟﯿﺴﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﻥ ﺩﯾﮑﮭﯽ ﺍﻧﮕﻠﯿﺎﮞ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺮ ﮐﻮ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﮑﻨﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ۔
ﺗﻢ ﭘﺎﮔﻞ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﮨﻮ، ﺗﻢ ﻓﻨﮑﺸﻦ ﻣﯿﮟ ﺑﺮﻗﻊ ﺍﻭﮌﮬﻮ ﮔﯽ؟
ﺑﺮﻗﻊ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻭﮌﮪ ﺭﮨﯽ۔ ﺑﮍﮮ ﺩﻭﭘﭩﮯ ﺳﮯ ﮨﯽ ﮐﺎﻡ ﭼﻼ ﻟﻮﮞ ﮔﯽ۔ ﻣﮑﺴﮉ ﮔﯿﺪﺭﻧﮓ ﺟﻮ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺣﺘﯽ ﺍﻟﻮﺳﻊ ﻟﮩﺠﮯ ﮐﻮ ﻧﺮﻡ ﺍﻭﺭ ﺩﮬﯿﻤﺎ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﯽ۔
ﻣﮕﺮ ﻣﮑﺴﮉ ﮔﯿﺪﺭﻧﮓ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﮐﯽ ﭨﯿﺒﻠﺰ ﺍﻟﮓ ﺍﻟﮓ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺣﯿﺎ! ﻣﺮﺩ ﺩﻭﺭ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺩﻭﺭ ﮐﮩﺎﮞ! ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮨﯽ ﺗﻮ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺳﺐ۔ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺳﮑﺮﯾﻦ ﺗﻮ ﺣﺎﺋﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺟﻮ ﻭﯾﭩﺮﺯ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﭘﮭﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺭﺳﻞ ﮐﮯ ﺑﮭﺎﺋﯽ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ﻭﮦ ﺗﻮ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮨﯽ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﻭﮦ ﺗﻮ ﺑﭽﮯ ﮨﯿﮟ ﺣﯿﺎ۔
ﺑﯿﺲ ﺑﯿﺲ ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﺑﭽﮯ ﮨﯿﮟ؟
ﺗﻢ ﺑﺤﺚ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﮨﻮ؟
ﺩﺭﺩ ﮐﯽ ﻟﻤﺒﯽ ﺍﻧﮕﻠﯿﺎﮞ ﺍﺏ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮐﻨﭙﭩﯽ ﺳﮯ ﮨﻮتی، ﭘﯿﺸﺎﻧﯽ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﮑﻨﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﺭﮨﯽ تھیں۔ ﺗﮑﻠﯿﻒ ﮨﺮ ﭘﻞ ﺑﮍﮬﺘﯽ ﺟﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻣﺎﮞ! ﺑﺤﺚ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﺻﺮﻑ ﻭﺿﺎﺣﺖ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﮨﻮﮞ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﻘﺎﺏ ﮐﯽ۔
ﺍﭼﮭﺎ! ﭘﮩﻠﮯ ﺗﻮ ﺗﻢ ﻧﻘﺎﺏ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﯿﺘﯽ تھیں۔ ﭘﮩﻠﮯ ﺗﻮ ﺗﻢ ﺑﮩﺖ ﻣﺎﮈﺭﻥ ﺗﮭﯿﮟ۔
ﻭﮦ ﭼﭗ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ۔ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﺟﺎﮨﻠﯿﺖ ﮐﺎ ﻃﻌﻨﮧ ﮐﯿﺴﮯ ﭼﺎﺑﮏ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﮐﺎﺵ! ﯾﮧ ﻃﻌﻨﮧ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮ ﺳﮑﮯ۔
ﺟﯽ! ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﯿﺘﯽ ﺗﮭﯽ، ﻣﮕﺮ ﺍﺏ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ مجھے ﭘﺮﺍﭘﺮ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﺳﮯ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ۔
ﺗﻢ ﺷﺎﺩﯼ ﭘﺮ ﻧﻘﺎﺏ ﻟﻮ ﮔﯽ ﻟﻮﮒ ﮐﯿﺎ ﮐﮩﯿﮟ ﮔﮯ؟ ﻭﮦ ﺟﮭﻨﺠﮭﻼﺋﯿﮟ۔
ﻧﮩﯿﮟ ﻟﻮﮞ گی ﺗﻮ ﺍﻟﻠﮧ تعالی ﮐﯿﺎ ﮐﮩﮯ ﮔﺎ؟
ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﺣﯿﺎ! ﺍﯾﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﮐﺘﻨﮯ ﮔﻨﺎﮦ ﮐﺮ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﻏﯿﺒﺖ، ﮔﻠﮯ، ﯾﮧ ﺳﺐ ﮔﻨﺎﮦ ﻧﮩﯿﮟ ہوتا؟ ﮐﯿﺎ ﺻﺮﻑ ﻧﻘﺎﺏ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﺎ ﮔﻨﺎﮦ ﮨﮯ؟
ﺩﺭﺩ ﮐﯽ ﻓﻮﻻﺩﯼ ﮔﺮﻓﺖ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺮ ﮐﻮ ﺟﮑﮍ ﻟﯿﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺏ ﮔﺮﺩﻥ ﺗﮏ ﭘﮭﯿﻠﺘﯽ ﺟﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﺳﮯ ﮐﻨﺪھوں ﭘﮧ ﺷﺪﯾﺪ ﺩﺑﺎؤ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﺎ۔
ﺍﻣﺎﮞ! ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﺐ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﻧﯿﮏ ﮨﻮﮞ ﯾﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﮔﻨﺎﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﯽ، ﻟﯿﮑﻦ ﺍﮔﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﯿﮏ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺖ ﺭﻭﮐﯿﮟ۔ ﺍﺳﮯ ﻟﮕﺎ، ﻭﮦ ﺍﻟﺘﺠﺎ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ، ﻣﻨﺖ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ۔ ﻭﮦ ﺑﻨﻮ ﻗﺮﯾﻈﮧ ﺳﮯ ﻣﻨﺖ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ۔
ﺍﭼﮭﺎ! ﭘﮩﻠﮯ تو ﺗﻢ ﻧﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﮔﻨﺎﮦ ﺛﻮﺍﺏ ﮐﺎ۔ ﺟﺐ ﺍﺑﺎ ﺍﻭﺭ ﺗﺎﯾﺎ ﮐﮩﺘﮯ ﺗﮭﮯ، ﺗﺐ ﺗﻮ ﺗﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﻧﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ پھر ﻭﮨﯽ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﺎ ﻃﻌﻨﮧ۔
جاری ھے

No comments: