ناول جنت کے پتے قسط 33
جنت کے پتے
از
نمرہ احمد
ناول؛ جنت کے پتے
قسط 33
اسے سب پاشا بے کہتے ہیں، مسٹر پاشا۔ شوق ہے خود کو مسٹر کہلوانے کا۔
کافی کے مگ خالی ہو کر زمین پہ پڑے تھے۔
دیوار پہ سائے ویسے ہی چپکے بیٹھے، ساری داستان سنتے رہے۔ پودے بھی متوجہ تھے۔ جب وہ خاموش ہوئی تو وہ جیسے سوچتے ہوئے بولا۔
یعنی کہ اس نے تمہارے بارے میں معلومات حاصل کیں، مجھے بلیک میل کرنے کے لیے، مگر میں صرف ایک بات نہیں سمجھ سکا۔ اتنا سب کچھ ہوا اور تم نے کبھی اپنے پیرنٹس کو نہیں بتایا۔۔۔۔۔۔ کیوں؟ تم نے کسی سے مدد کیوں نہیں لی؟
میں کبھی بھی ان کو یہ سب نہیں بتا سکتی جہان! اب تو معاملہ ختم ہو گیا ہے، مگر جب شروع ہوا تھ تو مجھے ترکی جانا تھا۔ اگر میں بتاتی تو وہ مجھ سے فون لے لیتے اور گھر سے نکلنے پہ پابندی لگا دیتے۔ ترکی تو جانے کا سوال ہی نہیں تھا۔ ویسے بھی میں جانتی تھی کہ جو میرے گھر کے اندر پھول رکھ سکتا ہے، میرے فون میں ٹریسر لگوا سکتا ہے، اس کے خلاف ابا بھی کچھ نہیں کر سکتے اور اب کو بتانے کا مطلب تھا کہ تایا فرقان کو بھی بتا دینا، یعنی پورے خاندان میں تماشا۔ ابا، تایا ابا کو بتائیں، یہ نہیں ہو سکتا اور اتنی بہادر تو میں تھی ہی کہ خود اپنے مسائل حل کر سکتی۔
سو تو ہے! اس نے سر ہلا کر اعتراف کیا۔ کیا تم واقعی جاننا چاہتی ہو کہ میں اشا بے کو کیسے جانتا ہوں؟
دیکھ لو! تم نہ بھی بتاؤ، میں نے جان تب بھی لینا ہے۔ تمہارے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔
اللہ، اللہ! یہ اعتماد۔ وہ پہلی دفعہ ہنسا تھا۔ وہ ہولے سے مسکرا دی۔
اصل میں، میں نے کچھ عرصہ ہوٹل گرینڈ پہ کام کیا ہے۔ اس لیے میں ان سوکالڈ بھائیوں کو جانتا ہوں۔
یہ سگے بھائی نہیں ہیں۔ یہ مافیا بھائی ہیں، ایک ہی مافیا فیملی کا حصہ، مگر یہ بات ادالار میں اگر کوئی میرے علاوہ جانتا ہے کہ وہ سگے بھائی نہیں ہیں تو وہ امت اللہ حبیب پاشا ہیں۔ خیر! میرا پاشا بے سے کچھ مسئلہ ہو گیا اور میں استقلال اسٹریٹ آ گیا۔ وہ ریسٹورنٹ اس کا ہی ہے اور وہ عورت جس کو میں اپنی لینڈ لیڈی بتاتا ہوں، ا کو وہی بھیجتا ہے۔ وہ اس کی ساتھی شیئر ہولڈر ہے۔ وہ مجھے ریسٹورنٹ کی قسطوں کے لیے تنگ نہیں کرتا۔ یہ میںنے جھوٹ بولا تھا۔ سوری! مگر اس نے میرے ذمے ایک کام لگایا تھا، جو میں کر نہیں سکا، جس کی وجہ سے ا روز تلخ کلامی ہوئی تھی۔
کون سا کام؟ وہ چونکی۔
وہ اپنی فیملی کو بیرون ملک شفٹ کروانا چاہتا تھا۔ اس کے لیے اسے اس ملک کی جعلی دستاویزات اور نئی شناختیں چاہیے تھیں۔ میں اپنے ایک دوست سے اس کے لیے وہی بنوا رہا تھا۔ اینڈ تھینکس ٹو یو! میں نے اب وہ بنوا دیے ہیں اور اس کی فیملی ترکی سے جا چکی ہے۔
کیا؟ اسے جھٹکا لگا۔ عائشے اور بہارے چلی گئیں؟ (تو وہ عائشے، بہارے، سب کو جانتا تھا!)
ہاں! مزید میں کچھ نہیں جانتا، اس لیے اس موضوع کو ختم کر دو۔
اور۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ اس کا بھائی؟ وہ کہاں چلا گیا؟
میں نہیں جانتا، وہ اب کہاں ہے۔ اس نے شانے اچکا دیے۔ وہ جیسے اس موضوع سے بچنا چاہتا تھا۔ پھر حیا نے دیکھا، اس کا سایہ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ پودوں کے اوپر سے ہوتا، پوری دیوار پر پھیل گیا۔ اس نے سائے میں اس کا چہرہ تلاشنے کی کوشش کی، مگر ناکام رہی۔ کتنا سچ تھا، کتنا جھوٹ، سائے میں سب گڈمڈ ہو چکا تھا۔
تم کیا کرتے پھرتے ہو جہان! مجھے یقین ہے کہ تم کریمنل نہیں ہو، مگر تم ایسے لوگوں سے تعلق بھی نہ رکھا کرو پلیز۔
جو آپ کا حکم! سایہ مسکرایا تھا۔
وہ بس تاسف سے سر ہلا کر رہ گئی۔ اس کی ساری کتھا سن کر بھی وہ اپنی دفعہ بہت کچھ چھپا گیا تھا۔
اور عائشے بہارے، وہ کہاں چلی گئی تھیں؟
وہ دونوں آگے پیچھے زینے اترتے نیچے آ رہے تھے، جب اس نے ابا کو لاؤنج میں کھڑے اپنی جانب متوجہ پایا۔
جہان! وہ صرف جہان کی طرف متوجہ تھے۔
جی ماموں! وہ پرسکون انداز میں قدم اٹھاتا سیڑھیوں سے نیچے ان کے سامنے جا کھڑا ہوا۔
مجھے کچھ پوچھنا ہے تم سے۔ وہ بہت سنجیدہ لگ رہے تھے۔ وہ پہلی سیڑھی پہ ریلنگ پہ ہاتھ رکھے کھڑی ان کو دیکھنے لگی۔
میں سن رہا ہوں۔
تم روحیل سے ان ٹچ ہو، یہ میں جانتا ہوں، مگر کیا کوئی ایسی بات ہے جو تم مجھے بتانا چاہو، جو کہ میں نہیں جانتا؟ جہان نے لمحے بھر کی خاموشی کے بعد نفی میں سر ہلایا۔
نہیں! میں اس معاملے میں نہیں پڑنا چاہتا۔
یعنی کہ کوئی بات ہے؟
ماموں! میں دوسروں کے معاملے میں کبھی مداخلت نہیں کرتا، اس لیے خاموش رہوں گا۔ البتہ آپ اپنے طور پر کسی سے بھی پتا کروا سکتے ہیں۔
پتا کروا لیا تھا۔ تم سے تصدیق چاہ رہا تھا، بہرحال مجھے اپنا جواب مل گیا ہے۔ تم آرام کرو۔
اس کا شانہ تھپتھپا کر وہ آگے بڑھ گئے۔ ان کے چہرے کی سنجیدگی اور اضطراب پہلے سے بڑھ چکا تھا۔ جہان واپس سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آیا کہ اس کا کمرا اوپر تھا۔ وہ ابھی تک وہیں کھڑی تھی۔
کیا ہوا؟
جوابا جہان نے ذرا سے شاے اچکائے۔
تمہیں پتا چل جائے گا۔ اب ذہن پر زور مت دو، سو جاؤ۔ وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ سایہ غائب ہو گیا، روشنی عیاں تھی۔
وہ الجھی ہوئی واپس کمرے میں آئی تھی۔ جہان سکندر کے ساتھ رہنے کا مطلب تھا، انسان بہت سے رازوں کے ساتھ رہے اور پھر صبر سے ان کے کھلنے کا انتظار کرے۔
وہ تمام سوچوں کو جھٹک کر عائشے کو ای میل کرنے لگی۔
***
جہان نے ٹھیک کہا تھا۔ اسے پتا چل جائے گا۔ مگر حیا کو اندازہ نہیں تھا کہ اسے اتنی جلدی پتا چل جائے گا۔ اسی رات وہ ابھی کچی نیند میں ہی تھی کہ بین پھپھو نے پریشانی کے عالم میں جھنجھوڑ کر اسے اٹھایا۔
حیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جلدی اٹھو۔
وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔ سمجھ ہی میں نہیں آیا کہ کیا ہو رہا ہے۔
تمہارے ابا کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔ چلو! اسپتال چلنا ہے۔
وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے پھپھو کو دیکھے گئی۔ زندگی ایک دفعہ پھر اسقلال اسٹریٹ میں پہنچ گئی تھی۔ اس کے سامنے ڈی جے گری تھی اور کسی کا جوتا اس کی عینک پر آیا تھا۔ ایک آواز کے ساتھ عینک ٹوٹی تھی۔ وہ آواز جو کانچ ٹوٹنے کی ہوتی ہے۔ وہ آواز جو زندگی کی ڈور ٹوٹنے کی ہوتی ہے۔
***
سلمان صاحب کو شدید قسم کا دل کا دورہ پڑا تھا۔ وہ سی سی یو (کارڈیک کیئر یونٹ) میں تھے اور ان کی حالت ٹھیک نہیں تھی۔ باقی سب کہاں تھے، اسے کچھ نہیں پتا تھا۔ وہ تو بس دونوں ہاتھوں میں سر تھامے بینچ پہ بیٹھی، روئے جا رہی تھی۔ کاریڈور میں کون آ جا رہا تھا، اسے ہوش نہ تھا۔ وہ پھر سے ٹاقسم فرسٹ ایڈ ہسپتال کے سرد، موت کے سناٹے جیسے کاریڈور میں پہنچ گئی تھی۔
وہ اب بہتر ہیں۔ یقین کرو! وہ ٹھیک ہو جائیں گے۔ جہان اس کے ساتھ بنچ پہ بیٹھتے ہوئے بولا۔ رات سے وہی تھا جو ساری بھاگ دوڑ کر رہا تھا۔ تایا وغیرہ تو صبح آئے تھے اور اب تک پورے خاندان کو وہ وجہ بھی پتا چل چکی تھی جو ابا کی بیماری کا باعث بنی تھی۔
روحیل نے شادی کر لی تھی۔
ٹھیک ہے! بہت سے لڑکے امریکہ میں شادی کر لیتے ہیں۔ سب کے والدین کو ہارٹ اٹیک نہیں ہوتا، مگر روحیل نے دو سال سے شادی کر رکھی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور سب سے بڑھ کر اس نے ایک نیپالی بدھسٹ سے شادی کی تھی۔ اب قدرے روشن خیال تھے، مگر اپنی اقدار اور مذہبی حدود کا پاس انہیں بہت تھا۔ روحیل کے حوالے سے انہوں نے بہت سے خواب دیکھے تھے۔ بہت مان تھا ان کو اس پر۔ وہ ایک دفعہ کہتا تو سہی، مگر اس نے خود ہی سارے فیصلے کر لیے۔ شاید وہ جانتا تھا کہ کہنےکا کوئی فائدہ نہیں، کیونکہ وہ لڑکی بدھ مت کی پیروکار تھی۔ مسلمان تو چھوڑ، وہ تو اہل کتاب بھی نہ تھی کہ ایسی شادی جائز ہوتی۔ وہ مسلمان ہونے کو تیار نہ تھی اور روحیل اس کو چھوڑنے پہ راضی نہ تھا۔ اپنی حدود کا مذواق بنانے پہ ابا کا دکھ الگ۔ جہان سے تصدیق کر لینے کے بعد انہوں نے روحیل کو فون کر کے جب بازپرس کی توپھر تلخ کلامی سے ہوتی ہوئی بات باپ بیٹ کے ایک سنگین جھگڑے تک پہنچ گئی۔ ابا نے غصے میں اسے سخت برا بھلا کہا اور پھر ہر تعلق توڑ دیا، مگر فون کال کی ڈور ٹوٹنے سے قبل ہی وہ ڈھے گئے تھے۔ پھپھو اور فاطمہ اس سارے معاملے کی گواہ تھیں۔ معلوم نہیں وہ کیوں سوتی رہ گئی۔
جب میں روحیل کے پاس رات رہا تھا ، تب اس لڑکی نے مجھے ٹریٹمنٹ دی تھی۔ انہوں نے کچھ نہیں بتایا، مگر میں جان گیا تھا کہ ان کے درمیان کیا ہے۔ اس کے کوئی ڈیڑھ سا ل بعد انہوں نے شادی کی تھی۔ یہ مجھے بعد میں امریکا میں مقیم ایک دوست نے بتایا۔ کتنی دیر ایسی باتیں چھپتی ہیں۔ ماموں کو بھی کسی عزیز سے خبر مل ہی گئی۔
وہ نم آنکھوں سے سر ہاتھوں میں دیے سنتی رہی۔ اسے روحیل یا اس کی بیوی میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ اسے صرف ابا کی فکر تھی۔ ڈھائی ماہ قبل کا واقعہ پھر دہرایا جانے لگا تھا کیا؟ وہ پھر علامتی خوشبو میں ایک محبت کو کھونے لگی تھی کیا؟
جب بمشکل انہیں ابا سے ملنے کی اجازت ملی، تب وہ غنودگی میں تھے اور وہ ان کے قریب بیٹھی اندر ہی اندر رو رہی تھی۔ آنکھیں خشک ہو چکی تھیں، مگر ہر آنسو آنکھ سے تو نہیں گرتا نا۔ شاید اگر ابا کے دوست ذیشان انکل ملنے نہ آئے ہوتے تو وہ آنکھوں سے بھی رونے لگ جاتی، مگر ان سب کے سامنے خود کو مضبوط ظاہر کرنا تھا۔ فاطمہ نڈھال تھیں، مگر سبین پھپھو بہت ہمت سے کام لے رہی تھیں۔
سلیمان بہت مضبوط ہے بیٹا! فکر نہ کرو، وہ ٹھیک ہو جائے گا۔
******
سلیمان بہت مضبوط ہے بیٹا! فکر نہ کرو، وہ ٹھیک ہو جائے گا۔
ذیشان انکل کو چھوڑنے وہ فاطمہ کے ساتھ باہر تک آئی تو وہ تسلی دینے لگے۔
وہ ابا کے سب سے اچھے دوست تھے۔ وہ ان کو زیادہ نہیں جانت تھی، مگر فاطمہ واقف تھیں۔ ان کے ساتھ ان کی بیٹی بھی تھی، پندرہ سولہ سالہ رجا جو جو قد اور ذہنی طور پر اپنی عمر سے پیچھے تھی۔ قدرے ابنارمل بچی جو گھنگھریالے بالوں والا سر جھکائے مسلسل اخبار پہ قلم سے کچھ لکھتی رہی تھی۔
رجا بہت ذہین ہے۔اس کی نگاہوں کو اپنی بیٹی پہ پا کر ذیشان انکل مسکرا کر بتانے لگے۔ اسے ورڈ پزل اور کراس ورڈ کھیلنے کا بہت شوق ہے۔ پورا چارٹ حل کرنے میں کئی دن لگاتی ہے، مگر کر لیتی ہے۔
وہ پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ سنتی رہی۔ وہ اپنی بیٹی کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے تھے، چاہے گھر ہو یا آفس محبت تھی یا فکر یا پھر دونوں۔
ان کے جانے کے بعد وہ کچھ دیر کے لیے گھر آئی تھی۔ گھر پہ وحشت اور ویرانی چھائی تھی۔ جیسے سب کچھ تھم گیا ہو۔ وہ ابھی عبایا اتار ہی رہی تھی کہ فون بجنے لگا۔ پرائیویٹ نمبر کالنگ۔
اس روز کے نعد میجر احمد نے آج کال کی تھی، مگر اس نے کال کاٹ دی۔ وہ بار بار فون کرنے لگا، مگر حیا نے فون بند کر دیا۔ وہ اس آدمی سے کوئی رابطہ نہیں رکھنا چاہتی تھی۔ ضرورت ہی نہیں تھی۔
ابا ابھی ہسپتال میں تھے۔ آج سبین پھپھو اور فاطمہ ان کے پاس تھیں، سو وہ اور جہان گھر پہ تھے۔ وہ شام کا وقت تھا، مگر روشنی باقی تھی۔ حیا چھت پر منڈیر کے ساتھ لگے جھولے پہ بیٹھی ابا کے گملوں کو دیکھ رہی تھی۔ آج ان پہ سائے نہیں گر رہے تھے۔ مگر وہ پھر بھی مرجھائے ہوئے لگ رہے تھے۔ ان کا اس گھر میں خیال رکھنے والا جو تھا، وہ اب خیال رکھنے کی پوزیشن میں نہیں رہا تھا۔ اس نے بہت سے آنسو اپنے اندر اتارے۔ ابا کے پودے اکیلے ہو گئے تھے۔
کیسی ہو؟ جہان ہولے سے اس کے ساتھ آ کر بیٹھا۔
تمہارے سامنے ہوں۔ تم نے کھانا کھا لیا؟
ہاں! نور بانو میرا کھانا لے آئی تھی۔ اور تم نے؟
موڈ نہیں ہے۔ وہ ابھی تک گملوں کو دیکھ رہی تھی۔
وہ اسے سرزنش کرنے ہی لگا، مگر رک گیا۔ منڈیر کے سوراخ سے اسے جیسے کچھ نظر آیا تھا۔
سنو! یہ آدمی کون ہے؟
کوں؟ حیا نے ذرا چونک کر گردن پھیری۔ منڈیر کے سوراخ سے تایا کے لان کا منظر واضح تھا۔ وہ اپنے ڈرائیووے پہ کھڑے ایک صاحب کے ساتھ باتیں کر رہے تھے، جو سیاہ سوٹ میں ملبوس، بریف کیس ہاتھ میں لیے ہوئے تھے۔ وہ انہیں نہیں پہچانتی تھی۔
پتا نہیں۔ اس نے لاتعلقی سے شانے اچکائے۔
میرا خیال ہے، وہ وکیل ہے۔
تمہیں کیسے پتا؟ اس کے سوٹ کا رنگ تو سمپل بلیک ہے، لائرز والا تو نہیں ہے۔
مگر ٹائی دیکھو، جیٹ بلیک ہے۔ وکیل کی مخصوص ٹائی۔ وہ آنکھوں کی پتلیاں سکیڑے ان کو دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ اور میرا خیال ہے وہ ابھی ادھر آنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ حیا نے ذرا حیرت سے اسے دیکھا۔
وہ اپنے ڈرائیووے پہ کھڑے ہیں، تمہیں کیسے پتا کہ ان کا ارادہ کیا ہے؟
غور سے دیکھو! فرقان ماموں کے جوتوں کا رخ کس طرف ہے؟
حیا نے گردن ذرا اونچی کر کے دیکھا۔ تایا ابو کے جوتوں کا رخ نامحسوس سے انداز میں ان کے گھر کے درمیانی دروازے کی طرف تھا۔
انسان جدھر جانے کا ارادہ رکھتا ہے، اس کے پاؤں خودبخود ادھر ہی مڑ جاتے ہیں، چاہے وہ ساکن کھڑا یا بیٹھا ہی کیوں نہ ہو۔ اگر دوران گفتگو تمہارے مخاطب کے جوتے تمہاری مخالف سمت ہوں تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ بور ہو رہا ہے تم سے۔
حیا نے بےاختیار جہان کے جوتوں کو دیکھا اس کے سیاہ تسمے والے بوٹ سیڑھیوں کے دروازے کی سمت تھے۔
اس فائل میں کیا ہو سکتا ہے؟ اب وہ ذرا الجھے ہوئے کہہ رہا تھا۔ حیا نے گردن پھر سے منڈیر کی جانب موڑی۔ نیچے وکیل صاحب اپنے بریف کیس سے ایک فائل نکال کر تایا ابا کو دکھا رہا تھا۔
سلیمان ماموں کمپنی کے ایم ڈی ہیں نا؟
ہاں۔۔۔۔۔۔۔! اور باقی شیئر ہولڈر ہیں۔
ہوں! اس کا مطلب ہے کہ ماموں کی بیماری کے باعث کچھ کام رک گئے ہوں گے، سو باقی شیئر ہولڈرز ان سے کچھ دستخط کروانا چاہ رہے ہوں گے۔ ماموں کا پاور آف اٹارنی کس کے پاس ہے۔
میرے پاس! وہ بےاختیار بولی۔ جہان ذرا سا چونکا۔
اصل میں بہت پہلے ابا نے مجھے اپنا Attorney-in-fact بنایا تھا اور وہ صرف اس صورت میں، جب وہ خدونخواستہ کام کرنے کے اہل نہ رہیں۔
یعنی کہ میں اس وقت اصغر اینڈ سنز کی ایم ڈی سے مخاطب ہوں۔ وہ مسکرایا۔
ارے نہیں! میں تو بس اٹارنی ان فیکٹ ہوں۔ ابا ٹھیک ہو جائیں گے تو خود سنبھال لیں گے۔ سب کچھ۔
اور جب تک وہ ٹھیک نہیں ہوتے؟
تب تک تایا فرقان سنبھال لیں گے۔ اس نے کہنے کے ساتھ نیچے دیکھا۔ تایا فرقان اب سمجھتے ہوئے اثبات میں سر ہلاتے فائل کے صفحے پلٹ رہے تھے۔
اس کے لیے انہیں سلیمان ماموں کا پاور آف اٹارنی چاہیے ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور شاید وہ ان سے اسی پہ دستخط کروانا چاہتے ہوں گے۔
جہان! ہو سکتا ہے، یہ ان کا کوئی دوست ہو اور تمہارت سارے اندازے غلط ہوں۔
اور اگر میرے اندازے درست ہوئے تب؟ تم انہیں پاور آف اٹارنی لینے دو گی؟
ہاں! کیوں نہیں؟ تایا فرقان، ابا کے بھائی ہیں آخر!
جہان نے جیسے افسوس سے اسے دیکھا۔
مادام! ایک بات کہوں؟ جب باپ کسی قابل نہیں رہتا تو اولاد کے لیے زندگی بدل جاتی ہے۔ یہ جو آج تمہارے ساتھ ہیں نا، ایک دفعہ کاروبار ہاتھ سے گیا تو تمہیں کنارے لگا دیں گے۔
ہر کسی پہ شک مت کیا کرو جہان! وہ بےزار ہوئی۔
یہ فرقان ماموں وہیں ہیں نا، جن کی ہم بات کر رہ ہیں؟ آنکھیں کھولو اپنی، تم انہیں اپنے باپ کی کرسی نہیں دتے سکتیں حیا! اور دیکھو! وہ ادھر ہی آ رہے ہیں۔
وہ بے اختیار چونکی۔ وہ دونوں حضرات واقعی تیزقدموں سے درمیانی دیوار کے منقش لکڑی کے دروازے کی جانب بڑھ رہے تھے۔ وہ ذرا سیدھی ہوئی۔ جہان کے لبوں پہ ہلکی فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔
مگر جہان۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابا کی غیر موجودگی میں ان کے علاوہ کون سنبھال سکتا ہے کاروبار؟ مجھے تو بزنس ایڈمنسٹریشن کان کچھ نہیں پتا۔ وہ مضطرب سی کھڑی ہو گئی۔
تایا ابا نے گھنٹی بجائی۔ نور بانو کچن سے نکل کر دروازہ کھولنے بھاگی۔
پتا ہو یا نا پتا ہو، تم انہیں اپنی کرسی نہیں لینے دو گی۔ اپنی جگہ کبھی نہیں چھوڑتے۔ ہوٹل گرینڈ کی مثال یاد رکھنا۔ ایک پاشا نے جگہ چھوڑی تو دوسرے پاشا نے قبضہ کر لیا۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ جھولا دھیرے دھیر ہلنے لگا۔
اب چلو! وہ اندر آ ہے ہیں۔
وہ الجھی الجھی سی جہان کے ساتھ سیڑھیاں اترتی نیچے آئی۔ تایا ابا وکیل صاحب کو باہر چھوڑ کر خود لاؤنج میں آ کھڑے ہوئے تھے۔ ان کے ہاتھ میں فائل تھی، مگر حیا کو تب بھی لگ رہا تھا کہ جہان کے اندازے غلط ہیں۔
حیا۔۔۔۔۔۔۔۔! تایا نے عجلت بھرے انداز میں اسے پکارا۔ تمہارے ابا اس کنڈیشن میں سائن کر سکتے ہیں؟
وہ آ خری سیڑھیپہ ٹھہر سی گئی۔ حالات اتنے حساس ہو چکے تھے کہ معمولی سی بات بھی بہت زور سے لگتی تھی۔ اب بھی لگی۔ انہوں نے ابا کا حال پوچھنے کی بجائے صرف دستخط کا پوچھا۔
آپ کو کیا سائن کروانا ہے؟ وہ سپاٹ سے انداز میں پوچھتی، وہ ان کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔ جہان بہت سکون سے آخری سیڑھی پہ بیٹھ گیا تھا اور اب گویا تماشا دیکھ رہا تھا-
جاری ھے

No comments: