ناول جنت کے پتے قسط 31
جنت کے پتے
از
نمرہ احمد
ناول؛ جنت کے پتے
قسط 31
بہارے کو اپنے اندر سے ایک آواز آئی۔ جیسے مرمرا کے پانی میں پتھر پھینکنے کی ہوتی ہے۔ جیسے دل ٹوٹنے کی ہوتی ہے۔
آنسو لڑیوں کی صورت میں اس کے گالوں پر بہنے لگے۔عبدالرحمن کو اس کی ضرورت تھی تب ہی تو اس نے بہارے سے وعدہ لیا تھا کہ اگر وہ مر گیا تو وہ اسے جنازہ دے گی اور اس کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑے گی۔چاہے پورا ترکی اسے چھوڑ دے بہارے گل اسے نہیں چھوڑے گی۔ اس نے اپنے کمر سے لگے پرس کو کھولا اور پاسپورٹ اس میں ڈال دیا۔ پھر وہ کرسی سے اتری اور ڈبے پاوں میز کے نیچے چلی آئی۔چاروں طرف سے گرتے میز پوش نے پھر سے اسے ڈھک لیا ۔
وہ لکڑی کی ٹانگ سے سر ٹکائے بیٹھی ہولے ہولے سسکنے لگی ،،، وہ سب کچھ چھوڑ سکتی تھی مگر عبدالرحمن کو نہیں پھر اب کیوں ۔
آنسو اس کی گردن سے پھسلتے ہوئے فراک کے کالر میں جذب ہو رہے تھے۔اس نے دیکھنا چاہا کہ نیچے سے میز کیسی لگتی ہے مگر وہ اسے دھندلی ہی دکھائی دی۔
بھیگی ، آنسو سے لدی۔
عبدالرحمن نے باہر نکلتے ہوئے جب آخری بار بہارے کو دیکھا تو وہ کرسی پر سب سی بیٹھی، بے آواز روتی دکھائی دی تھی ۔وہ اس سے زیادہ نہیں دیکھ سکتا تھا سو تیزی سے باہر نکل گیا۔
پیچھلے باغیچے میں وہ عائشے کی ورک ٹیبل کی کرسی کھینچ کر بیٹھا اور یوں ہی آسمان کو دیکھنے لگا۔ اس کا اپنا دل بھی بہت دکھی تھا۔ان دونوں بہنوں کو اس کی وجہ سے اتنی تکلیف اٹھانی پڑے گی ، اس نے کبھی یہ نہیں چاہا تھا مگر وہ جانتا تھا وہی اس سب کا ذمہ دار ہے۔ اس کی اور اس کے کاموں کی وجہ سے یہ سب ہوا تھا مگر پھر بھی وہ بے قصور تھا ۔ بہارے سے سختی اور سرد مہری سے بات کر کے اپنے تئیں اس نے ان کی روانگی آسان بنانے کی کوشش کی تھی ۔ شاید یوں کرنے سے بہارے اس سے محبت کرنا چھوڑ دے اور پھر جلدی اسے بھول جائے۔یہ سب آسان نہیں ہو گا مگر عائشے سنبھال کے گی اسے۔
اور اپنے کمرے کی کھڑکی سے اسے باغیچے میں بیٹھے دیکھ کر عائشے نے بے اختیار سوچا تھا بہارے کو تو وہ سنبھال کے گی مگر خود کو کیسے سنبھالے گی۔ چند ماہ قبل اس کی اور عبدالرحمن کی شدید لڑائی کے بعد اسے علم ہو گیا تھا کہ جلد یا بدیر وہ عبدالرحمن سے الگ ہو جائیں گی۔ وہ ان کا کبھی نہیں تھا ۔ وہ ان کے لیے بنا ہی نہیں تھا ۔ وہ ایک غیر فطری زندگی گزار رہے تھے مگر اب وہ فطری طریقے پہ واپس آ جائیں گئے۔ دادی ، چچا، چھوٹی بہن ۔ عائشے کے تین ساتھی، فیملی ممبرز۔اصل زندگی، حقیقی گھر، مکمل فیملی۔
اس نے انگلی کی نوک سے آنکھ کا بھیگا گوشہ صاف کیا اور الماری کی طرف بڑھ گئی۔ آنے صبح سے ہی تیاری میں لگی تھی ۔ وہ بہت خوش تھیں سو اسے بھی تیاری مکمل کر لینی چاہیے۔
رہی محبت ۔۔۔۔ تو وہ اچھی لڑکیوں کو بھی ہو ہی جاتی ہے لیکن جب انہیں یہ پتہ چل جائے کہ وہ محبت انھیں مل ہی نہیں سکتی تو وہ خاموش رہتی ہیں ۔ اچھی لڑکیاں خاموش ہی اچھی لگتی ہیں۔
دکھی دل کے ساتھ اس نے درز سے اپنی قیمتی چیزیں نکالنی شروع کی ۔ وہ یہ سب ایک جیولری باکس میں ڈال رہی تھی۔سب سے اوپر اس نے اپنی انگلی سے انگوٹھی اتار کر رکھی۔ یہ اسے عبدالرحمن نے اس کیبسالگرہ پر تحفہ دی تھی ۔وہ اسے کبھی انگلی سے نہیں اتارتی تھی۔ جواب میں عبدالرحمن کی سالگرہ پر اس نے اس کو کیا دیا تھا۔ اس نے اپنے جیولری باکس کی سب سے آخری ،چھوٹی سی دراز کھولی ۔ وہ خالی تھی۔ کبھی اس میں وہ شہ ہوتی تھی جو اس نے عبدالرحمن کو دے دی تھی ۔ مگر اس بے رحم آدمی نے اس کے تحفے کے ساتھ کیا کیا؟
عائشے نے آزردگی سے سر جھٹکا۔ زندگی میں سب سے زیادہ خوف اسے اسی بات سے آتا تھا کہ کہیں وہ جانتا تو نہیں کہ وہ کیا سوچتی ہے۔
مگر نہیں وہ کبھی نہیں جان سکتا تھا ۔ اس نے خود کو تسلی دی۔
وہ غلط تھی۔
*******
سارا اس سے ملنے آئی تھی ۔ اتنے عرصے میں وہ زارا کو تو جیسے بھول ہی چکی تھی۔اب دونوں مل کر بیٹھیں تو وہ ترکی کی ہی باتیں لیے گئی۔بس یہی وہ موضوع تھا جس پر وہ زارا سے بات کر سکتی تھی۔ بعض اوقت دوست تو وہی ہوتے ہیں مگر وقت انسان کو اتنا آگے لے جاتا ہے کہ وہ اپنے دوست کے مدار سے ہی نکل جاتا ہے۔ پھر کتنا ہی میل ملاقات رکھ لے ، وہ درمیانی فاصلہ ناقابل عبور بن جاتا ہے۔وہ بھی سارا کے مدار سے نکل آئی تھی۔ اس کی دوستیں تو صرف عائشے اور بہارے گل تھی جن سے وہ مل کر بھی نہیں آئی تھی۔ آج فون کیا تو عائشے کا فون آف تھا سو اس نے میل کر دی۔
سارا گئی تو فاطمہ نے اسے بلا لیا۔ صائمہ ٹائی آئی تھی اسے دیکھ کر مسکرائی۔
"شکر ہے بیٹا تم ہو ،،،ورنہ میں کیا کرتی۔ آرم کے سسرال والوں کی شاپنگ کرنی ہے۔ منگنی کے تحائف وغیرہ۔ آرم کو تو کچھ سمجھ نہیں ہے تمہارا ٹیسٹ اچھا ہے۔ میرے ساتھ چلو۔۔۔"تائی امی کی زبان میں جو حلاوت تھی ،،معتصم، ہالے ، عائشے، بہارے ، ڈی جے یہ لوگ اس چکنائی سے کتنے دور تھے نا۔
"شیور تائی امی میں زرا عبایا لے آوں۔۔" وہ ہامی بھر کے اٹھی تو فاطمہ چونکی۔
"تم نے عبایا لیا ہے؟؟"
"جی اماں ایک فرینڈ نے گفٹ کیا تھا سوچا اب باہر جاتے ہوئے لے لیا کروں،،،" وہ بظاہر لاپرائی سے کہتی اٹھ آئی۔پھر تھوڑی دیر بعد وہ اپنے پاوں کو چھوتے حریر کے عبایا میں باہر آئی تو وہ دونوں پل بھر کو حیران رہ گئی۔
"یہ اچھا کیا تم نے ۔۔۔ تم پر اچھا بھی بہت لگ رہا ہے،،،فیشن بھی ہے آج کل عبایا کا۔۔۔" صائمہ تائی مسکرا کر بولی۔۔۔۔"ویسے تمہارے تایا نے دیکھا تو بہت خوش ہوں گئے۔۔۔"
(مجھے تایا سے کوئی سرٹیفیکیٹ نہیں چاہیے تائی۔۔)
"ہاں عبایا تو اچھا ہے۔۔۔مگر بہت سمپل نہیں ہے۔؟" فاطمہ ذرا متذبذب تھی
چونکہ اس کا عبایا سادہ تھا ت۔سوائے آستین کے سبز اسٹونز کے جو اتنے مدھم تھے کہ توجہ نہ گھیرتے،،،کوئی کام نہ تھا سو انھیں قلق تھا۔
"اور میں جب حج پر گئی تھی تو کتنا کہا تھا کہ تمہارے لیے عبایا لے آؤں مگر تم نے انکار کر دیا تھا۔۔۔"فاطمہ تین سال پرانی بات دہرانے لگی ۔ وہ اس لیے اصرار کرتی رہی تھیں کہ ان کی بھابھی جو ان کے ساتھ حج پر گئی تھی ،،، اپنی بیٹیوں کے لیے قیمتی اور کامدار عبایا لے رہی تھی۔ حیا نے صاف انکار کر دیا تھا۔
"بس اب دل کر رہا ہے،،،" وہ نقاب کی پٹی سر کے پیچھے باندھنے لگی۔
"تم نے نقاب بھی شروع کر دیا ۔۔؟"صائمہ تائی وہ اب واقعتا جھٹکا لگا تھا۔
"چلیں تائی۔۔" وہ گاڑی کی چابی بیگ سے نکالتے ہوئے بولی،،،اس کے نظر انداز کرنے کے باوجود تائی کہنے لگی ۔
" چلو اچھا لگ رہا ہے مگر دیکھتے ہیں کہ تم کتنے دن
کرتی ہو۔۔"
"اس نے دو ڈ بعد ہی چھوڑ دینا ہے۔"فاطمہ مسکرا کر بولی۔
"چلیں۔۔دیکھتے ہیں لیڈیز۔۔۔"وہ شانے آچکا کر کہتی باہر نکل آئی ۔
استنبول بلاشبہ ایک بہت ہی خوبصورت اور شاندار شہر تھا۔ وہ مانتی تھی مگر جو بھی ہو پاکسان، پاکسان ہے۔اپنے ملک کا کوئی مقابلہ نہیں ہوتا۔بہت عرصے بعد وہ اسلام آباد کی سڑکیں، درخت اور مارکیٹ دیکھ رہی تھی۔
تائی کو پورا ایف ٹین پھرا کر وہ دونوں شام ڈھلے واپس آئی تو ابا اور تایا فرقان لان میں ہی بیٹھے تھے۔ حیا شاپرز اٹھائے چلتی ہوئی آئی تو تایا تھوڑے سیدھے ہو کر بیٹھے۔ شاید انھیں لگا کوئی مہمان ہے۔
"میں ہوں تایا۔"اس نے سر کے پیچھے بندھی پٹی اتر کر چہرے سے نقاب ہٹایا تو وہ دونوں واقع حیرت زدہ ہو گئے۔
"تم نے کب سے برقع لینا شروع کیا؟"
"ترکی میں لینا شروع کیا تھا اور بس ایسے ہی لینا شروع کر دیا تھا۔" وہ بہت عام سے انداز میں اپنے برقعے کی بات کر رہی تھی تا کہ کوئی مذاق نہ اڑائے۔
مگر صائمہ تائی کسی اور موڈ میں تھی ۔ وہ وہیں کھڑے کھڑے حیا کے برقعے کی تعریفیں کرنے لگیں۔ ابا اب مسکرا رہے تھے انھیں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا تھا ۔ البتہ تایا ابا بہت خوش ہوئے۔
"ہم آج حیا سے کہہ رہے تھے کہ دیکھتے ہیں تم کتنے دن برقع کرتی ہو ؟"
"نہیں انشاءاللہ میری بیٹی قائم رہے گی ۔" تایا ابا کی بات پر وہ پھیکا سا مسکرائی اور اندر چلی ائی۔
برقع ہی تھا اتنا کیوں ڈسکس کرنے لگے تھے سب۔ اسے اچھا نہیں لگا مگر شاید وہ بھی حق بجانب تھے ۔ وہ پہلے اس کے برعکس لباس پہنتی تھی سو ان کی خرابی بجا تھی۔
خیر جو بھی ہو عبایا اتار کر لٹکانے تک وہ ان سب سوچوں سے چھٹکارہ حاصل کر چکی تھی۔اب اسے وہ کام کرنا تھا جس کے لیے وہ سارا دن مارکیٹ میں مضطرب رہی تھی۔کل اسے یاد نہیں رہا تھکاوٹ ہی اتنی تھی اور آج موقع نہیں ملا۔ مگر اب مزید انتظار نہیں۔
اس نے لیب ٹاپ آن کر کے بیڈ پر رکھا اور پرس سے وہ مخملی ڈبی نکالی ۔ وہ جب اسے کھولتی دل عجیب انداز میں دھڑکتا تھا۔
پتہ نہیں کیا ہو گا اس میں؟
اس نے فلیش ڈرائیو کا پلے لیپ ٹاپ میں لگایا۔
روشن اسکرین پر ایک چوکھٹا ابھرا۔ اس پہ ایک مختصر سا پیغام تھا۔جس کا لب لباب یہ تھا کہ اس فائل پر پاسورڈ تھا۔ اور پاسورڈ درج کرنے کے لیے ایک ہی کوشش کی جا سکتی تھی۔ صیح درج کیا تو فائل کھل جائے گی اور غلط درج کیا تو فائل خود کو خود ہی ختم کر دے گی یعنی وہ کبھی نہیں جان سکے گی کہ اس میں کیا تھا۔
پیغام چند لمحوں بعد ہی غائب ہو گیا۔اب اسکرینپر خالی ایک چوکھٹا بنا ہوا تھا جس پرآٹھ جانے بنے تھے کسی آٹح خرفی لفظ کے لیے یا کسی آٹھ ہندسوں والے عدد کے لیے۔
ایک تلخ مسکراہٹ اس کے لبوں پر ابھری۔اسے ایک نئی پہیلی دیکھ کر بالکل غصہ نہیں آیا۔ مینجر احمد نے اسے چیلینج کیا تھا اور اسے اب یہ چیلنج جیت کر دکھانا تھا۔ کہیں نہ کہیں اسے پاسورڈ مل ہی جانا تھا اور وہ اسے کھول لے گی۔
اس نے فائل کو آگے پیچھے ہر طرح سے کھولنے کی کوشش کی مگر اس کا پروگرام خاصہ پیچیدہ تھا۔ ویسے یہ عجیب بات تھی کہ اس دفعہ احمد نے اسے پہیلی نہیں دی تھی ۔ اب وہ پاسورڈ کیسے ڈھونڈے؟ خیر کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا ۔ اسے امید تھی ۔
ترکی سے آنے کے بعد آج اس نے فون آن
کیا تھا۔اپنی پرانی سم وہ نکلوا چکی تھی۔ابھی دو گھنٹے ہی گزرے تھے کہ اس کا فون بجنے لگا ۔ وہ جو لیپ ٹاپ میں اپنی اور ڈی جے کی تصاویر دیکھ رہی تھی ، چونک کر سیدھی ہوئی ، جلتی بڑھتی اسکرین پر چمکتے الفاظ دیکھ کر ایک گہری سانس اس کے لبوںسے خارج ہوئی۔
"خبر مل گئی آپ کو مینجر صاحب؟" فون کان سے لگاتے ہوئے وہ بولی۔
"مل تو گئی مگر کافی خیران رہ گیا آپ واپس کیوں آگئی؟" وہی دھیما، شائستہ انداز۔ وہ جیسے اس کے انداز پر مسکرایا تھا۔
"حیرت ہے آپ کو پہلی دفعہ پوری بات کا علم نہیں ہوا۔۔"
"لگتا ہے آپ بہت غصے میں ہیں کیا ہوا ہے ؟"
"پتہ نہیں۔۔" وہ بے زاری سے بولی ۔ پہلی بار اسے شاید احساس ہوا کہ وہ مینجر احمد سے بات نہی کرنا چاہتی ۔
"آپ کی آواز کافی بوجھل لگ رہی پے ۔۔۔ آپ پریشان بھی ہیں اور اداس بھی۔ اگر آپ وجہ نہیں بتائیں گی تو میں اصرار نہیں کروں گا ۔ بس اتنا بتائیں آپ ٹھیک تو ہیں ؟" وہی فکر مند انداز ۔ وہ کیوں کرتا تھا اس کی اتنی فکر۔۔۔
"جی میں ٹھیک ہوں اور کچھ نہیں ہوا۔۔۔"اگر اسے نہیں معلوم تھا تو وہ خود کیوں ۔۔۔۔۔اپنے شوہر کی کسی کمزوری سے وہ اسے آگاہ نہیں کرے گی ۔
اور بتاتی بھی تو کیا کہ اس نے عبدالرحمن کے ساتھ دیکھا ہے جہان کو ؟ اور ان کی باتیں ؟
ان ساری باتوں کو ازسرنو یاد کرتے ہوئے وہ ٹھہر سی گئی۔ عبدالرحمن نے اسے ٹیکسٹ کر کے بلایا تھا ،، جب وہ پینٹری کی کھڑکی کے قریب پہنچی تو اسے وہاں پاشا کا چہرہ سامنے دکھائی دے رہا تھا ۔ ہو سکتا ہے اس نے آتے ہی اسے دیکھ لیا ہو ۔ہو سکتا پے وہ جان بوجھ کر ایسا کہہ رہا ہو تا کہ وہ بدل ہو جائے اور جہان کو چھوڑ دے ۔ اس نے حیا کو " سیٹ اپ" کیا ہو۔ آخر اس نے جہان کی طرف کی کہانی تو نہیں سنی تھی ۔ ابھی پورا مہینہ حائل تھا اس کی اور جہان کی ملاقات میں تب تک وہ۔۔۔
"حیا۔۔"وہ چونکی پھر سر جھٹکا ۔
"یہ جو آپ کی فلیش ڈرائیو پہ پاسورڈ ہے اسے کھول کر کوئی اور پزل بھی نکلے گا کیا؟"
"نہیں یہ آخری لاک ہے پھر میری امانت آپ دیکھ لیں گی۔۔"
"اور اس کا پاسورڈ کیا ہے؟"
"وہ تو آپ جیسی ذہین خاتون کو ایک منٹ میں مل جائے گا ۔۔۔"
"اچھا آپ طنز کر رہے ہیں ؟"وہ بے اختیار ہنس دی۔
"نہیں! سچ کہہ رہا ہوں بہت ہی آسان ہے ۔ مجھے یقین ہے آپ میرے پزل کا آخری ٹکڑا ابھی جوڑ لیں گی۔۔۔"
"ٹھیک ہے !اگر مجھے آپ کی مزید ضرورت نہیں ہے تو آپ آئندہ مجھے کال نہ کیجیے گا ۔ میں مزید آپ سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتئ۔۔" اس کا لہجہ بہت خشک ہو گیا تھا ۔ چند ثانیے وہ کچھ کہہ نہیں پایا ۔۔۔
"مگر آپ کے شوہر کو تو علم ہےپھر۔۔۔؟"
"میں بغیر کسی ضرورت کے آپ سے بات نہیں کرنا چاہتی اور اب مجھے ضرورت نہیں رہی ۔ آئندہ میں آپ کی کال اٹینڈ نہیں کروں گی ۔۔ خدا خافظ۔۔"
کسی لمبی بحث سے بچنے کے لیے اس نے از خود کال کاٹ دی ۔ احمد نے دوبارہ کال کی مگر اس نے کاٹ دی اب اس نے مزید کال نہیں اٹھانی تھی ۔کل کو کوئی انچ نیچ ہو جاتی تو سب سے پہلے اس کا ہجاب بدنام ہو گا۔وہ جانتی تھی کہ اب سے بہت مختاط رہنے کی ضرورت ہے۔
اس نے موبائل تکیے پہ ڈال دیا ۔ احمد سے قطع تعلق کر کے اسے کوئی افسوس نہیں ہوا تھا۔ وہ اس
کے لیے کبھی بھی، کچھ بھی نہیں رہا تھا۔ وہ مطمئن تھی۔
*******
اس شام وہ کچن میں کھڑی سلاد تیار کر رہی تھی ۔ فاطمہ بھی ساتھ ہی کام میں مصروف تھی۔ نور بانو برتن دھو رہی تھی۔ابا لاونج ٹی وی کے سامنے بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے۔ وہ ذرا بلند آواز میں ان تینوں کی مصروفیات سے بے نیاز ان کو ترکی کی باتیں سنا رہی تھی۔ جب اپنے اندر کی اداسی، جہان کی خاموشی، اور یادوں سے تنگ آ جاتی تو اسی طرح بولنے لگتی اور آج کل تو اس کی ہر بات ترکی سے شروع ہو کر ترکی پہ ختم ہوتی تھی۔سفر نامہ، استنبول یہ وہ موضوع تھا جس سے گھر والے اب بور ہو چکے تھے مگر وہاں پرواہ کسے تھی ۔
اپنے گھر میں یہ سہولت تھی کہ کوئی مرد ملازم نہیں تھا ۔ تایا فرقان کے گھر کا کک ظفر بہت کم ادھر آیا کرتا تھا۔ ان کا خاندان ویسے بھی روایتی تھا ۔تایا کی تربیت تھی کہ روحیل نہیں تھا تو ان کے بیٹوں کو ادھر نہیں آنا اور خود بہت کم، سوائے کسی کام کے ادھر نہیں آتے تھے ۔ سو وہ اپنے گھر میں آزادی سے گھوم پھر سکتی تھی۔
"پتہ ہے نور بانو!وہاں توپ قپی پیلس کے پیچھے وہاں ریسٹورنٹ میں کیا ملتا تھا؟"
اب نور بانو کے فرشتوں کو بھی نہیں پتہ تھا کہ توپ پیلس کس جگہ کا نام ہے۔ وہ بے چار گی سے نفی میں سر ہلائے گئی ۔
"وہاں ایک مشروب ملتا ہے،ایران نام کا بالکل لسی کی طرح ہوتا ہے ۔ اتنا مزے دار کے جس کی کوئی حد نہیں ۔ میں ریسیپی لائی ہوں ۔ کبھی مل کر بنائیں گئے۔۔"
لاؤنج میں رکھا لینڈ لائن فون بجنے لگا تو ابا نے ہاتھ,........
*******
بڑھا کر ریسیور اٹھایا ۔ حیا نے گردن اٹھا کر ان کو دیکھا ۔ لاؤنج اور کچن کی درمیانی دیوار اوپر سے آدھی کھلی تھی سو وہ ان کو باآسانی دیکھ سکتی تھی ۔
ہاں سبین ! کیسی ھو ؟ وہ اب مسکرا کر بات کرنے لگے تھے ۔
اس کا دل زور سےدھڑکا لمحے بھر کو اسے توپ قبی اور ایران بھول گیا وہ بالکل چپ سی ھو گئی زرا سست روی سے ہاتھ چلانے لگی سماعت ادھر ہی لگی تھی ۔
کیا ۔۔۔۔ کب ؟ ابا کے تاثرات بدلے وہ ایکدم سیدھے ھو کر بیٹھے ۔
اس نے چھری گاجر میں لگی چھوڑ دی اور پریشانی سے ابا کو دیکھا ۔ کہیں کچھ غلط تھا ۔
انا للہ وانا الیہ راجعون !،، وہ بہت دکھ سے کہہ رھے تھے فاطمہ بھی جیسے گھبرا کر باہر گئیں تب تک ابا فون رکھ چکے تھے
کیا ھوا ؟ فاطمہ پریشانی سے پوچھ رہی تھیں حیا اسی طرح مجسمہ بنے کھڑی ، سانس روکے ان کو دیکھ رہی تھی ۔
سکندر کا انتقال ھو گیا ھے ،،
ابا کے الفاظ نے پورے لاؤنج کو سکتے میں ڈال دیا ملال بھرے سکتے میں ۔ حیرت ، شاک ، دکھ ، وہ ملی جلی کیفیات میں گھری کھڑی تھی
وہ لوگ ایک دو روز میں باڈی لے کر آ رہے ہیں میں فرقان بھائی کو بتا دوں ابا تاسف سے کہتے فون اٹھا کر نمبر ملانے لگے ۔
ایک لمحہ ، بس ایک لمحہ انسان سے اس کی شناخت چھین کر اسے باڈی بنا دیتا ھے
اس کے اندر کہیں بہت سے آنسو گرے تھے ۔ بےاختیار اسے ڈی جے یاد آئی تھی
سلیمان صاحب کے بنگلے پہ فوتگی والی سوگواریت چھائی تھی ۔ لان میں قنات لگا کر مردوں کے بیٹھنے کا انتظام کیا گیا تھا جبکہ خواتین اندر لاؤنج میں تھیں جہاں فرنیچر ہٹا کر چاندنیاں بچھا دی گئی تھیں درمیان میں کھجور کی گٹھلیوں کا ڈھیر تھا رشتےدار خواتین سادے حلیے میں تھیں مگر عابدہ چچی سحرش اور ثنا بالکل سفید نئے کپڑوں میں تھیں پتا نہیں یہ رواج کہاں سے چل نکلے تھے اس نے البتہ چاکلیٹی رنگ کی لمبی قمیض چوڑی دار کے ساتھ پہن رکھی تھی ہم رنگ دوپٹہ ٹھیک سے سر پہ لیے گٹھلیاں پڑھتے وہ لاشعوری طور پہ وہاں بیٹھی تھی جہاں سے کھڑکی کے باہر لان صاف نظر آتا مگر باہر والوں کو اندر نظر نہیں آتا تھا کہ دوپہرکا وقت تھا لان میں خاندان کے مرد جمع تھے ابا تایا اور کچھ کزنز البتہ نہیں تھے وہ لوگ پھپھو اور میت کو لینے ائیر پورٹ گئے تھے آج تین روز بعد سکندر انکل کی باڈی کلئرنس حاصل کر کے اپنے ملک لائی جا رہی تھی ۔ اور وہ صرف یہ سوچ رہی تھی کہ وہ جہان کا سامنا کیسے کرے گی ؟
خیر ۔۔ خفت اسے ہونی چاہیے نہ کہ حیا کو ۔ وہی قصوروار تھا ۔ وہی پاشا کا ساتھی تھا اور اتنی تو وہ مضبوط تھی ہی کہ اپنے تاثرات چہرے پر نہیں آنے دے گی ۔ جو بھی ھو گا دیکھا جائے گا ۔ اس کے باوجود جب باہر شور سا مچا اور وہ لوگ پہنچ گئے تو اس کا دل اتنی زور اے دھڑکنے لگا کہ وہ خود حیرت زدہ رہ گئی ۔
اتنے برس بعد پھپھو آئی تھیں وہ بھی تابوت کے ساتھ لاؤنج کے دروازے پر خواتین ان سے ملتے ھوئے رو رہی تھیں اونچا بین بلند سسکیاں وہ دور دراز کی رشتہ دار عورتیں جو ہر شادی میں سب کی طرف سے گاتی اور ہر فوتگی میں سب کی طرف سے روتی تھیں سب سے آگے وہ تھیں ۔
پھپھو بہت نڈھال لگ رہی تھیں بھیگی آنکھوں کے ساتھ فاطمہ سے مل رہی تھیں ۔ وہ سب ہی کھڑے ھو چکے تھے لڑکے تابوت اندر لا رھے تھے حیا زرا ایک طرف ھو گئی اور دوپٹے کا پلو زرا ترچھا کر کے چہرے پہ ڈال کے ہاتھ سے پکڑ لیا دوپٹا پیشانی سے کافی آگے تھا ۔ اور یوں ترچھا کر کے ڈالنے سے گال ہونٹ ناک سب چھپ گیا تھا
یہ اس کا غیر محسوس سا نقاب تھا ۔ اب اگر وہ نقاب کرتی ہی تھی تو منافقت کیسی کہ باہر کے مردوں سے کرے اور کزنز سے نہ کرے ؟ ایک فیصلہ کیا ھے تو اسے سہی سے نبھائے بھی ۔
مرد باہر چلے گئے تو وہ آگے بڑھ کر پھپھو کے گلے لگی ۔
حیا ۔۔۔ تم کہاں چلی گئی تھیں ؟ جہان بہت اپ سیٹ تھا ۔ بے آواز آنسو بہاتی پھپھو اس سے الگ ھو کر آہستہ سے بولیں تھیں ۔ وہ سخت شرمندہ ھوئی ۔ کیا تھا اگر پھپھو کو ایک فون ہی کر لیتی ؟ اس نے جواب نہیں دیا ۔ جواب تھا بھی نہیں ۔
پھر جب وہ اپنی جگہ پر جا کے بیٹھی تو نگاہ کھڑکی پہ پھسل گئی ۔ باہر لگے مجمعے میں وہ جہان کو کھوجنے لگی اور پھر ایک دم چونکی ۔
اس نے بہت سی باتیں سوچی تھیں جہان اتنا غیر متوقع تھا کہ اس سے کچھ بعید نہیں تھا کہ وہ اس کے ساتھ کیسا رویہ رکھے گا مگر جو جہان نے کیا وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی
جہان سکندر پاکستان آیا ہی نہیں تھا
جہان نہیں آیا چچی ،، فرخ پتا نہیں کب اندر آیا تھا اور قریب ہی کھڑا فاطمہ کو بتا رہا تھا پھپھو بتا رہی تھیں کہ وہ کاموں میں پھنسا ھوا ھے
فرخ بتا کر آگے بڑھ گیا ۔ فاطمہ تو فاطمہ وہ خود بھی ششدر رہ گئی ایسی بھی کیا مجبوری کہ بندہ باپ کے جنازے پہ بھی نہ آئے وہ اتنی حیران تھی کہ گٹھلیاں بھی نہیں پڑھ پا رہی تھی وہ ایسا کیسے کر سکتا تھا ۔
صرف حیا کا ساتھ دینے وہ ڈی جے کے وقت آ سکتا تھا تو اپنے باپ کے ساتھ کیوں نہیں ؟
جب تک انسان دوسرے کی جگہ کھڑا پہ ھو کر نہیں دیکھتا اسے پوری بات سمجھ نہیں آتی ۔
کہیں دور سے جہان کی آواز ابھری تھی شاید وہ وضاحت اس نے اسی لمحے کے لیے دی تھی ۔۔
سب بہت متاسف اور غمزدہ سے تھے گھر میں خاموشی نے سوگواریت طاری کی ھوئی تھی ۔
اگلے روز قل تھا گھر میں کچھ کرنے کے بجائے تایا اور ابا نے وہی کیا تھا جس کا رواج آجکل اسلام آباد میں چل نکلا تھا تمام عزیز و اقارب کو کسی فائیو اسٹار ھوٹل میں ڈنر کے لیے فیملی واؤچرز دے دیے تھے ۔ کہ بمع خاندان جا کر ڈنر کریں اور مرحوم کے ایصال ثواب کے لیے دعا کریں ۔ اسلام آباد بھی کبھی کبھی اسے لگتا استنبول بنتا جا رہا ھے ۔ اس سے یہ ھوا کہ لوگوں کے سوال اور گڑے مردے اکھاڑنے جانے سے تایا اور ابا محفوظ رھے ۔ مگر حیا نے سوچا ضرور کہ تایا فرقان اسلام کو اب کیا ھوا ؟
فاطمہ فون سننے اٹھیں تو وہ کافی کا کپ لیے پھپھو کے پاس آ گئی وہ اکیلی بیٹھی تھیں خاموش تھکی ھوئی ۔ ایک سفر تھا جو تمام ھوا ایک مشقت تھی جو ختم ھوئی ۔
تھینک یو بیٹا !، اس نے کپ بڑھایا تو وہ چونکیں پھر بھیگی آنکھوں سے مسکرائیں اور کپ تھام لیا۔
تمہارے ساتھ بیٹھ ہی نہیں سکی ۔ ،،
شرمندہ مت کریں پھپھو ۔ میری ہی غلطی ھے میں نے سوچا جہان کو میرا میسج مل گیا ھو گا اور وہ آپ کو بتا دے گا ایک مبہم سی وضاحت دے کر وہ اپنا آپ لے کر ان کے ساتھ آبیٹھی ۔
نہیں وہ کہہ رہا تھا تم بغیر بتائے چلی گئیں بہت پریشان تھا شاید کوئی غلط فہمی ھو گئی ھے ۔
وہ ۔۔۔۔۔ آیا کیوں نہیں ؟ سرسری سے انداز میں اس نے پوچھ ہی لیا ۔
وہ چند لمحے اسے دیکھتی رہیں جیسے فیصلہ نہ کر پا رہی ھوں کہ وہ کتنا جانتی ھے ۔
وہ ترکی سے باہر گیا ھوا تھا فلائٹ کا مسئلہ تھا کچھ ۔ ابھی ایک دو روز میں آ جائے گا ۔
پھر آپ کو تو بہت مشکل ھوئی ھو گی ۔ اکیلے سب کچھ مینج کرنا#
حیا ! میں نے ساری زندگی سب کچھ تنہا ہی مینج کیا ھے ۔ میرے ساتھ تب بھی کوئی نہیں تھا جب میں اور میرا بیٹا جلاوطنی کاٹ رھے تھے ۔ وہ آہستہ آہستہ نرمی سے کہہ رہی تھیں اور اب تو میں اتنی مضبوط ھو چکی ھوں کہ اب یہ مسلے حل کرنے کے لیے مجھے اپنے خاندان کے مردوں کی ضرورت نہیں رہی ،،
وہ بس ان کو دیکھے گئی ان کے چہرے کی لکیروں میں برسوں کی مشقت کی داستان تھی جسے پڑھنے کی آنکھ حیا کے پاس نہیں تھی ۔
تمہیں بھی اتنا ہی مضبوط بننا چاہیے ،،
ان کی آخری بات پر وہ بے اختیار چونکی تھی ۔ یہ ماں باپ بعض اوقات کتنی مبہم باتیں کر جاتے تھے
وہ گہری نیند میں تھی جب کوئی آواز سیٹی کی طرح اس کی سماعت میں گونجی کافی دیر بعد بھاری پپوٹے اس نے بمشکل اٹھائے اور اندھیرے میں جلتے بجھتے روشنی کے منبع کی طرف دیکھا ۔
موبائل ۔
بدقت اس نے بازو بڑھا کر بجتا ھوا موبائل اٹھایا ۔
جہان کالنگ۔۔۔
اس کی ساری نیند اڑ گئی رات کے تین بج رھے تھے وہ ایکدم سے اٹھ بیٹھی اور کال پک کی ۔ ساری ناراضگی رات کی خاموشی میں تحلیل ھو گئی تھی ۔
جہان ۔۔۔ اس کی آواز ابھی بھی نیند سے بوجھل تھی ۔
حیا !،، وہ رکا ۔ کیسی ھو ؟
میں ٹھیک ھوں ۔ اور تم ؟ بیڈ کراؤن کے ساتھ ٹیک لگاتے ھوئے اس نے ریموٹ اٹھا کر اے سی آف کیا کمرہ بہت ٹھنڈا ھو چکا تھا ،
فائن ۔۔ تم سو رہی تھیں ؟
ہاں ۔۔
اس وقت میں فٹبال تو کھیلنے سے رہی اس نے سوچا ۔
ممی سو رہی ہیں ؟
ظاہر ھے !،، اٹھاؤں انھیں ؟
نہیں نہیں !،، ان کو ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتا ۔
ماموں ہیں یا ڈرائیور ؟؟ وہ جیسے سوچ سوچ کر بول رہا تھا
نہیں ۔،، ابا اور اماں شام میں لاھور گئے ہیں ۔ کوئی فوتگی ھو گئی تھی ۔ صبح ہی آ جائیں گے ۔ کیوں ؟
وہ ایکدم چونکی تم کہاں ھو ؟
میں ائیر پورٹ پہ ھوں
مجھے تمہارے گھر کا راستہ نہیں معلوم ۔ کیا تم مجھے لینے آ سکتی ھو ؟
اوہ ہاں !،،، تم رکو ۔۔ میں آ رہی ھوں وہ لحاف پھینک کر تیزی ست بستر سے اتری ۔
منہ دھو کر عبایا پہن کر وہ چابی لیے خاموشی سے باہر نکل آئی ڈرائیور ابا کے ساتھ گیا تھا ۔ ویسے بھی وہ پارٹ ٹائم تھا ۔ایسے میں وہ خود جائے اس کے علاوہ دوسرا کوئی حل نہیں تھا ۔ اسلام آباد کی خوبصورت صاف سڑکیں خالی پڑی تھیں ابھی رات باقی تھی تھی ۔ اسٹریٹ پولز کی زرد روشنی سڑک کو جگمگا رہی تھی ائیر پورٹ پر پہنچ کر اس نے جہان کو کال کر کے آنے کا پیغام دیا اس کا ترکی کا نمبر رومنگ پہ تھا ۔
السلام علیکم !،، چند ہی منٹ بعد وہ دروازہ کھول کر فرنٹ سیٹ پر بیٹھا ایک چمڑے کا بھورا دستی بیگ اپنے قدموں میں رکھا اور سیٹ بیلٹ لینے لگا ۔
وعلیکم السلام ۔ اگنیشن میں چابی گھماتے ھوئے حیا نے زرا کی زرا نگاہ پھیر کر اسے دیکھا ۔ سیاہ پینٹ پہ آدھے آستین والی گرے شرٹ پہنے ھوئے تھا ۔ وہی ماتھے پر گرے زرا بکھرے بکھرے سے بال ائیر پورٹ کی بتیاں اندھیرے میں اس کے چہرے کو نیم روشن کیے ھوئے تھیں وہ اسے پہلے سے زرا کمزور لگا اسے ترکی سے آئے ڈیڑھ ہفتہ بھی نہیں ھوا تھا ۔ مگر پھر بھی فرق واضح تھا...
کار سڑک پر رواں دواں تھی دونوں خاموش تھے آخری ملاقات کا تناؤ اور بوجھل پن ابھی درمیان میں حائل تھا ۔
ممی اٹھیں تو نہیں ؟
نہیں ، وہ ذرا دیر کو رکی ،، تم آئے کیوں نہیں ؟ سب پوچھ رہےتھے،،
مصروف تھا ، وہ گردن ذرا ترچھی کر کے ویران اندھیری سڑک کو دیکھ رہا تھا
وہ خاموش ہو گئی ۔ کہنے کو جیسے کچھ نہیں تھا ۔
کیا تم پہلے مجھے قبرستان لے جا سکتی ہو ؟
حیا نے سر ہلا دیا ۔ قبرستان گھر سے ذیادہ دور نہیں تھا ۔ جلد ہی وہ پہنچ گئے ۔ باہر نیلا سا اندھیرا چھایا تھا سوالیہ نشان کی صورت بنے سات بہن بھائی ، ستارع آسمان پہ چمک رہے تھے ۔
پھپھا کی قبر آپ کے دادا کی قبر کے ساتھ ہی ہے ۔ حیا نے اسے بتایا ۔
احاطے میں جہان کے والد اور دادا کی قبریں داخلی دروازے کے ساتھ ہی ایک طرف تھیں ۔ ایک درخت اس کے دادا کی قبر پہ سایہ کر رہا تھا۔ وہ سینے پر بازو لپیٹے قبرستان کے دروازے پر ہی کھڑی ہو گئی ۔ یہاں سے وہ جہان کو باآسانی دیکھ سکتی تھی ۔ جہان آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا دونوں قبر کے پاس آیا ۔ پھر دھیرے سے سکندر شاہ کی قبر پہ گھٹنوں کے بل بیٹھتا گیا ۔ دونوں ہاتھ دعا کے لئے اٹھائے اب وہ دعا مانگ رہا تھا ۔ حیا اس کے عقب میں تھی سو اس کا چہرہ نہیں دیکھ سکتی تھی ۔ دعا کے بعد وہ کافی دیع سر جھکائے ایک پنجے کے بل قبر پر بیٹھا تھا ۔ انگلی سے وہ مٹی پر لکیریں کھینچ رہا تھا پھر جب وہ اٹھا تو حیا جانے کے لئے پلٹ گئی ۔ گھر آ کر وہ اندر داخل ہوا تو حیا نے آہستگی سے لاؤنج کا دروع بند کیا اور دو انگلیوں سے نقاب نیچے کھنچتے ہوئے اتارا ۔
تم آرام کر لو میں اوپر کمرہ دکھاتی ہوں ۔ وہ اجنبی سے انداز میں کہتی سیڑھیاں چڑھنے لگی ۔ جہان خاموشی سے اس کے پیچھے اوپر آیا۔ دستی بیگ ہاتھ سے پکڑ کر کندھے پہ ڈال رکھا تھا ۔
حیا دروازہ کر ایک طرف کھڑی ہو گئی صاف ستھرا سا گیسٹ روم ۔
کچھ کھاؤ گے ؟ اس نے چوکھٹ پہ کھڑے کسی رسمی میزبان کے لہجے میں پوچھا جہان نے بیگ بیڈ پق رکھا اور ساتھ بیٹھا ۔
بس ایک کپ چائے ۔۔ میرے سر میں درد ہے ۔ وہ جھک کر جوگرز کے تسمے کھول رہا تھا ۔
وہ الٹے قدموں واپس پلٹی ۔ چند منٹوں بعد جلدی جلدی چائے بنا کر لائی ۔
وہ بیڈ پر نیم دراز آنکھوں پہ بازو رکھے ہوئے تھا ۔
چائے ۔۔ اس نے کپ سائیڈ ٹیبل پہ رکھا وہ ہلا تک نہیں ۔
جہان ۔۔،، مگر وہ سو چکا تھا ۔
حیا کی نگاہیں اس کے پاؤں پہ پھسلیں ۔ جوگرز کے تسمے کھول چکا تھا مگر اتارے نہیں پتا نہیں کیوں اسے ترس سا آیا ۔ شاید وہ تھکا ہوا تھا ۔ شاید بیمار تھا ۔ اس نے اے سی آن کیا اور دروازہ بند کر کے باہر آ گئی ۔
صبح وہ دیر سے اٹھی ۔ لاؤنج میں آئی تو پھپھو اور فاطمہ چائے پی رہی تھیں ۔ گیارہ بج چکے تھے ۔
نور بانو میرا ناشتہ ۔۔ نوری باق کو پکار کر وہ ان کے پاس آ بیٹھی ۔ فاطمہ لاہور والوں کا تذکرہ کر رہق تھیں ۔
آپ لوگ کب آئے ؟
کار سڑک پر رواں دواں تھی دونوں خاموش تھے آخری ملاقات کا تناؤ اور بوجھل پن ابھی درمیان میں حائل تھا ۔
ممی اٹھیں تو نہیں ؟
نہیں ، وہ ذرا دیر کو رکی ،، تم آئے کیوں نہیں ؟ سب پوچھ رہےتھے،،
مصروف تھا ، وہ گردن ذرا ترچھی کر کے ویران اندھیری سڑک کو دیکھ رہا تھا
وہ خاموش ہو گئی ۔ کہنے کو جیسے کچھ نہیں تھا ۔
کیا تم پہلے مجھے قبرستان لے جا سکتی ہو ؟
حیا نے سر ہلا دیا ۔ قبرستان گھر سے ذیادہ دور نہیں تھا ۔ جلد ہی وہ پہنچ گئے ۔ باہر نیلا سا اندھیرا چھایا تھا سوالیہ نشان کی صورت بنے سات بہن بھائی ، ستارع آسمان پہ چمک رہے تھے ۔
پھپھا کی قبر آپ کے دادا کی قبر کے ساتھ ہی ہے ۔ حیا نے اسے بتایا ۔
احاطے میں جہان کے والد اور دادا کی قبریں داخلی دروازے کے ساتھ ہی ایک طرف تھیں ۔ ایک درخت اس کے دادا کی قبر پہ سایہ کر رہا تھا۔ وہ سینے پر بازو لپیٹے قبرستان کے دروازے پر ہی کھڑی ہو گئی ۔ یہاں سے وہ جہان کو باآسانی دیکھ سکتی تھی ۔ جہان آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا دونوں قبر کے پاس آیا ۔ پھر دھیرے سے سکندر شاہ کی قبر پہ گھٹنوں کے بل بیٹھتا گیا ۔ دونوں ہاتھ دعا کے لئے اٹھائے اب وہ دعا مانگ رہا تھا ۔ حیا اس کے عقب میں تھی سو اس کا چہرہ نہیں دیکھ سکتی تھی ۔ دعا کے بعد وہ کافی دیع سر جھکائے ایک پنجے کے بل قبر پر بیٹھا تھا ۔ انگلی سے وہ مٹی پر لکیریں کھینچ رہا تھا پھر جب وہ اٹھا تو حیا جانے کے لئے پلٹ گئی ۔ گھر آ کر وہ اندر داخل ہوا تو حیا نے آہستگی سے لاؤنج کا دروع بند کیا اور دو انگلیوں سے نقاب نیچے کھنچتے ہوئے اتارا ۔
تم آرام کر لو میں اوپر کمرہ دکھاتی ہوں ۔ وہ اجنبی سے انداز میں کہتی سیڑھیاں چڑھنے لگی ۔ جہان خاموشی سے اس کے پیچھے اوپر آیا۔ دستی بیگ ہاتھ سے پکڑ کر کندھے پہ ڈال رکھا تھا ۔
حیا دروازہ کر ایک طرف کھڑی ہو گئی صاف ستھرا سا گیسٹ روم ۔
کچھ کھاؤ گے ؟ اس نے چوکھٹ پہ کھڑے کسی رسمی میزبان کے لہجے میں پوچھا جہان نے بیگ بیڈ پق رکھا اور ساتھ بیٹھا ۔
بس ایک کپ چائے ۔۔ میرے سر میں درد ہے ۔ وہ جھک کر جوگرز کے تسمے کھول رہا تھا ۔
وہ الٹے قدموں واپس پلٹی ۔ چند منٹوں بعد جلدی جلدی چائے بنا کر لائی ۔
وہ بیڈ پر نیم دراز آنکھوں پہ بازو رکھے ہوئے تھا ۔
چائے ۔۔ اس نے کپ سائیڈ ٹیبل پہ رکھا وہ ہلا تک نہیں ۔
جہان ۔۔،، مگر وہ سو چکا تھا ۔
حیا کی نگاہیں اس کے پاؤں پہ پھسلیں ۔ جوگرز کے تسمے کھول چکا تھا مگر اتارے نہیں پتا نہیں کیوں اسے ترس سا آیا ۔ شاید وہ تھکا ہوا تھا ۔ شاید بیمار تھا ۔ اس نے اے سی آن کیا اور دروازہ بند کر کے باہر آ گئی ۔
صبح وہ دیر سے اٹھی ۔ لاؤنج میں آئی تو پھپھو اور فاطمہ چائے پی رہی تھیں ۔ گیارہ بج چکے تھے ۔
نور بانو میرا ناشتہ ۔۔ نوری باق کو پکار کر وہ ان کے پاس آ بیٹھی ۔ فاطمہ لاہور والوں کا تذکرہ کر رہق تھیں ۔
آپ لوگ کب آئے ؟
صبح آٹھ بجے پہنچ گئے تھے تم سو رہی تھیں فاطمہ مسکرا کر کہنے لگیں
ہوں۔۔۔ اچھا ۔۔۔ جہان اٹھ گیا ؟ حیا کی نگاہ سیڑھیوں کے اوپر پھسلی تو یونہی لبوں سق نکلا وہ دونوں ایک دم اسے دیکھنے لگیں ۔
جہان ؟؟،،،
اوہ ۔۔۔ وہ ایکدم سیدھی ہوئی ۔۔ وہ صبح پہنچ گیا تھا اوپر کمرے میں ہے آپ کو نہیں پتا چلا ؟؟؟
نہیں ۔۔۔ وہ آ گیا ؟ سبین سکندر کے چہرے پہ ایک دم چمک سی ابھری
خوش گوار سی حیرت ۔ وہ باپ کے جنازے کے تیسرے دن پہنچ رہا ہے مگر ادھر کوئی ناراض نہیں ۔
جی ۔ میں دیکھتی ہوں ،، وہ خود ہی اٹھ آئی ،
اور اس کے کمرے کا دروازہ کھولا تو وہ یخ بستہ ہو چکا تھا اے سی تب کا آن تو ۔۔۔ اس نے جلدی سر اے سی بند کیا اور پنکھا چلا دیا ۔
جہام اسی حالت میں جوتوں سمیت لیٹا تھا ۔ آنکھوں پر بازو رکھے ۔ وہ شاید نیند میں بھی کسی کو اپع آنکھیں نہیں پڑھنے دیتا تھا ۔ تپائی پہ دھری چائے پرانی اور ٹھنڈی ہو چکی تھی ۔ سوچا اٹھا لے ۔ پھر خیال آیا رہنے دے ۔ اس کو پتا تو چلے کہ وہ اس کے لیے چائے لے آئی تھی ۔
وہ دوپی کے کھانے تک بھی نہیں اٹھا ۔ پھپھو اس کو ڈسٹرب نہیں کرنا چاہت تھیں ۔ سو اس کے اٹھنے کا انتظار کر رہی تھیں ۔ سہ پہر میں زارا آ گئی موسم اچھا تھا دونوں نے شاپنگ پلان کر لی ۔ مگر جب وہ عبایا پہن کر باہر آئی تو پھر سے ایکشن ری پلے شروع ہو گیا؟؟
تم نے عبایا کب سے لینا شروع کر دیا ؟؟
وہی حیع ، سوال ، تفتیش ، تشویش ،۔
ایک لمبا اور جامع سا جواب دے کر بھی اسے لگا زارا غیر مطمئن ہے اور غیر آرام وہ بھی ۔ شاپنگ کرتے ، جوتے دیکھتے ، کپڑے نکلواتے اور پھر آخر میں راحت بیکرز کے سامنے پارکنگ لاٹ میں بیٹھے ,,اسکوپ ,, کا سلش پیتے ہوئے زارا بار بار ایک غیر آرام دہ نگاہ اس پہ ڈالتی ۔ جو پورے اعتماد سے عبایا اور نقاب میں بیٹھی سلش پی رہی تھی ۔
یار چہرے سے تو اتار دو ,,
زارا میرا نہ دم گھٹ رہا ہے نہ مرنے لگی ہوں ۔ میں بالکل کمفرٹیبل بیٹھی ہوں اگر تم نہیں ہو تو بتاؤ ۔ وہ ایکدم بہت سنجیدگی سے کہنے لگی ۔
وہ حیا سلیمان تھی وہ عائشے کی طرح ہر بات نرمی سے سہہ جانے والی نہیں تھی جب وہ اپنے زمانے جاہلیت کے لباس پر کسی کو بولنے کا موقع نہیں دیتی تھی تو اب نقاب پر کیوں کسی کو بولنے دے ؟صرف حجابی لڑکی ہی صبر کیوں کرے اس کی رائے میں بہت زیادہ چپ رہنے کو بھی کمزوری سمجھا جاتا تھا
نہیں ۔۔ نہیں ۔۔ میں تو تمہارے لئے کہہ رہی تھی زارا بوکھلا گئی تھی
وہ سر جھٹ کر سلش پینے لگی ۔
باہر پارکنگ لاٹ میں چند ماہ پہلے کے مناظر اب بھی رقم تھے ڈولی اسے سب سے پہلی دفعہ یہاں ہی ملا تھا
میجر احمد یعنی پنکی سے مل کر اسے جو الجھن ہوتی تھی کہ وہ پنکی کیسے بنا ۔ اب وہ ختم ہو گئی تھی ۔ وہ تو اس کی جاب کا حصہ تھا ۔ پتا نہیں وہ یہ بات پہلے کیوں نہی۔ سمجھ سکی ؟
وہ واپس آئی تو دل زرا بوجھل تھا ۔ زارا اور اس کا مدار اب مختلف ہو گیا تھا ۔۔ پتا نہیں ڈی جے اگر ہوتی تو کیسا ردعمل دیتی ؟ اب اجنبی کا ٹیگ جو ماتھے پر لگ گیا تھا ۔
لاؤنج میں سب بڑے بیٹھے تھے ۔ تایا ، تائی ، ابا ، اماں ، پھپھو اور سامنے ایک صوفے پر سنجیدہ سا بیٹھا جہان ۔ وہی صبح والے کپڑے مگر بال گیلے تھے شاید ابع ابو فریش ہو کر نیچے آیا تھا ۔ وہ سلام کر کے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی درق پر پہنچ کر اسے لگا کہ وہ اسے دیکھ رہا ہے ۔ اس نے بے اختیار پلٹ کر دیکھا ۔ جہان تایا فرقان کی طرف متوجہ تھا وہ اسے نہیں دیکھ رہا تھا وہ سر جھٹک کر اندر آ گئی ۔
دوبارہ اس کی جہان سے ملاقات رات کے کھانے پر ہوئی ۔
وع ذرا دیر سے ڈائننگ ٹیبل پہ پہنچا تھا ۔ ابا مرکزی کرس پہ تھے حیا فاطمہ کے ساتھ ایک طرف بیٹھی تھی ۔ جہان نے جو کرسی کھینچی وہ حیا کے مدمقابل تھی مگر وہ اسے نظرانداز کر رہی تھی ۔ وہ بھی یہ ہی کر رہا تھا بلکہ وہ تو شاید ہمیشہ سے یہع کرتا آیا تھا ۔
کتنی چھٹی ہے تمہاری ؟ ابا کھانے کے دوران پوچھنے لگے وہ سر جھکائے ، کا نٹے سے سلاد کا ٹکڑا اٹھاتے ہوئے بولا.........
جاری هے

No comments: