پیار_ادھورا_مت_کرنا از_بنت_نذیر قسط_نمبر_04
پیار_ادھورا_مت_کرنا
از
بنت_نذیر
#پیار_ادھورا_مت_کرنا
#از_بنت_نذیر
#ناول_ہی_ناول
#قسط_نمبر_04
#آخری_قسط
اس نے مجھے برباد کر نے کا سوچا اور خود برباد ہو گیا ۔۔۔خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔۔۔
سارا نے کہا
(فہیمہ بیگم نے اسے ساری حقیقت بتائی )
بے شک بیٹا۔۔ عزت اور ذلت دینے والی اسی کی ذات ہے۔۔۔
فہیمہ بیگم نے لمبی سانس لی
بیٹا میں چاہتی ہوں تم اسے معاف کر دو اسے اسکے کیے کی سزا مل چکی ہے۔۔۔
فہیمہ بیگم نے کہا
امی ! میں کون ہوتی ہوں معاف کر نے والی ۔۔
اللہ اسے معاف کرے اور صحت یابی عطا کرے۔۔ اس نے دل سے دعا کی ۔۔۔۔
آمین۔۔ فہیمہ بیگم کو آج اپنی بیٹی پہ رشک ہوا
_________________
فہیمہ بیگم نے سر راحم سے بھی معافی مانگی
سر نے انہیں معاف کر دیا تھا
دادو فہیمہ بیگم سے مل کر بہت خوش ہوئی
________________
چھٹیاں ختم ہوتے ہی
وہی مصروف روٹین شروع ہو گئی
وہ لائبریری میں نوٹس بنا رہی تھی جو مکمل ہو نے والے تھے
جب زینب بوکھلائی ہوئی آئی ۔۔
کیا ہوا۔۔بھوت دیکھ لیا ہے کیا۔۔۔
سارا نے پوچھا
سمیر نے مجھے پرپوز کیا ہے ۔۔۔زینب نے سانس بحال کرتے ہوئے کہا
تو تم نے کیا کہا۔۔۔
میں نے کہا جو لوو کرتے ہیں وہ ماں باپ سے بات کرتے ہیں نہ کہ سر بازار وہ لڑکی کو آئی لو یو کہہ دیں ۔۔اور پھر اس نے کہا میں ممی کو بھیجوں گا انکار مت کرنا ۔۔زینب نے سارا کو سب بتایا ۔
"میں نے تو سوچا تھا تم نے تھپڑ مارا ہو گا
اور وہ ہیرو کی طرح تمہیں منائے گا مگر تم نے تو ۔
او بس بس جب تمہیں کوئی پرپوز کرے گا نا تب تم ایسا ہی کرنا
زینب نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا
ویسے تمہیں کوئی پرپوز کر نے والا نہیں ۔ تم اسے آنکھیں نکال کہ ڈرا ہی دیتی ہو ۔۔۔۔
زینب نے اس کی بڑی آنکھوں پہ چوٹ کی ۔۔۔
تیری تو ۔۔۔۔۔سارا اس کے پیچھے بھاگی
جب تک زینب لائبریری سے باہر نکل گئی
وہ اسکی شرارت پہ مسکرا دی_
____________________
وہ کالج سے گھر آئی تو دادو کو اپنے گھر دیکھ کر اسے خوش گوار حیرت آئی
وہ دادو سے مل کر روم میں آئی
فریش ہو کے دادو کیساتھ کھانا کھایا
کس کے ساتھ آئی ہیں دادو ۔۔۔
محلے کا ایک بچہ چھوڑ گیا ہے یہاں ۔۔اب تم مجھے گھر چھوڑ کر آؤ۔۔۔ دادو نے کہا
(وہ اب سر کی طرح انہیں دادو ہی کہتی تھی)
____________________
دادو کو چھوڑنے ان کے گھر آئی
وہ گھر کا جائزہ لے رہی تھی جب اسکی نظر ڈائیری پر پڑی
دادو یہ کسکی ہے؟ اس نے ڈائیری کی طرف اشارہ کر کہ کہا
۔۔
راحم کی ہی ہو گی ۔۔۔میں تو ان پڑھ ڈائیری سے میرا کیا کام۔۔۔۔
دادو اپنے روم میں نماز پڑھنے چلی گئی
بغیر اجازت کے کسی کی ڈائیری پڑھنا بہت بری بات تھی مگر پھر تجسس ۔۔(سر کیا لکھتے ہوں گے )
میں پڑھ لیتی ہوں واپس رکھ دوں گی سر کو پتہ نہیں چلے گا
اس نے ڈائیری کھولی
پہلے صفحے پر
سر کا نام انتہائی خوبصورتی سے لکھا تھا
وہ صفحے پلٹتی رہی
جب ایک صفحے پر اس کی نظر ٹھہر گئی
چلو تم ساتھ مت دینا
مجھے بے شک بھلا دینا
نئے سپنے سجا لینا
نئے رشتے بنا لینا
جو دل چاھے وہ تم کرنا
مگر اک گزارش ہے
پیار ادھورا مت کرنا
(جان راحم ara$)
اس نے جلدی سے ڈائیری میز پر رکھ دی
دل بہت گھبرا رہا تھا
کیا سر مجھ سے ۔نہیں نہیں وہ کوئی اور ہو گی
ارے کیا ہوا لڑکی تم اتنی زرد کیوں ہو رہی ہو
دادو نماز پڑھ کر آئی تو سارا کو دیکھ کے گھبرا گئی
کچھ نہیں ۔۔میں ٹھیک ہوں
وہ اٹھنے لگی تھی
(جب رشیدہ چائے اور ساتھ پکوڑے ،نمکو وغیرہ لے کے آئی)
_________________
سر گھر آئے
انہیں ایک عجیب سی مہک کا احساس ہوا
دادو روم میں تھی
رشیدہ کچن میں برتن دو رہی تھی
کوئی آیا تھا کیا ۔۔سر راحم نے پوچھا
سارا بی بی آئی تھی ۔۔۔
ھمممم ۔۔
دادو سے مل کر وہ اپنے روم آئے
فریش ہو کے کھانا کھا رہے تھے جب نظر ڈائیری پر پڑی
او مائی گاڈ !! اگر سارا نے
۔۔۔۔
نہیں نہیں وہ بغیر اجازت کے نہیں پڑھ سکتی
وہ خود ہی سوچتے اور پھر خود ہی اپنے خیالوں کی نفی کرتے ۔۔۔۔
__________________
وہ گھر آ کر بھی پریشان رہی
ایسا کیسے ہو سکتا ہے
اس نے آئی ڈی آن کی
سر کے دو تین میسج تھے جو اس نے بغیر پڑھے ہی ڈیلیٹ کر دیے
_________________
سر کو شک تھا کہ سارا نے ڈائیری پڑھی ہے
مگر ان کا شک یقین میں بدل گیا جب سارا نے ان کے مسیجز اگنور کیے اور دوسرے دن وہ کالج بھی نہیں آئی
(کیا کروں اب ۔۔۔کیوں رکھی تھی وہاں ڈائیری. کیسے مناؤں اب اسے )
وہ آج ٹھیک طرح سے پڑھا بھی نہیں پائے ۔۔۔
زینب سے ہلپ لوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں کچھ کرنا پڑے گا
_________________
سارا کو آج تیسرا دن تھا وہ کالج نہیں
جا رہی تھی
ایک تو سر کیوجہ سے اور دوسری بات زینب کی منگنی ہو رہی تھی
اور شاپنگ وغیرہ کر نے میں بزی تھی
(سمیر نے اپنا پرپوزل بھیجا تھا جو زینب کے والدین نے کافی چھان بین کے بعد قبول کر لیا)
سارا بیٹا بزی تو نہیں ہو ۔۔۔ فہیمہ بیگم نے اس کے روم میں داخل ہوتے ہوئے کہا ۔۔
نہیں امی ۔۔۔
مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے؟ فہیمہ بیگم نے کہا
جی میں سن رہی ہوں
تمہارے دو رشتے آئے ہیں۔۔
ایک تمہارے ابو کے دوست کا بیٹا ہے
اور دوسرا راحم ۔۔
اگر تمہیں کوئی پسند ہے تو بتاؤ
دونوں ہی اچھے رشتے ہیں
کیا خیال ہے تمہارا؟
فہیمہ بیگم نے پوچھا
امی میں مجھے وقت دیں
اوکے بیٹا ۔۔
فہیمہ بیگم کے باہر جاتے ہی
اس نے فیس بک میسنجر کے ذریعے سر کو ملنے کا کہا۔۔۔
____________________
وہ دونوں اس وقت ریسٹورنٹ میں آمنے سامنے بیٹھے تھے ۔.
جی کیوں بلایا آپ نے مجھے ۔سر۔ راحم نے کہا
وہ تو آتش فشاں بنی بیٹھی تھی پھٹ ہی پڑی
آپ کی ہمت کیسے ہوئی رشتہ بھیجنے کی
آپ نعمان کا لگایا گیا الزام سچ ثابت کرنا چاہتے ہیں
مجھے آپ سے یہ امید نہیں تھی
جب وہ خوب دل کی بھڑاس نکال چکی تو
سر بولے
بس یا کچھ اور
وہ سر کو پر سکون دیکھ کے آگ بگولہ ہو گئی ۔
آپ کو تو کوئی پر واہ نہیں۔۔۔
کسی کی ڈائیری پڑھنا بہت بری بات ہے ..سر نے بات بدل دی
اور جو آپ کر رہے ہیں وہ اچھی بات ہے ۔۔
میں کیا کر رہا ہوں ؟ سر انجان بنے
سارا آپ لوگوں کی باتوں پر دھیان مت دیں لوگ جو کہتے ہیں کہنے دیں ۔۔۔
لوگ کبھی آپ سے خوش نہیں ہوں گے
کچھ میرے حال پر رحم کرو بہت تڑپا چکی ہو
ان چند دنوں میں
آپ لوگوں کی خاطر اپنے پیار کو چھوڑ دیں گی
۔۔آپ سے کس نے کہا میں آپ سے پیار کرتی ہوں ۔۔سارا نے کہا ۔
آپ کی آنکھوں نے
آپ کی آنکھیں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں میں آپ سے محبت کرتی ہوں ۔۔۔
سر نے جذبوں سے چور لہجے میں کہا
وہ شرم سے نگاہیں جھکا گئی
مگر آپ سر ہیں ۔۔اس نے معصومیت سے کہا
تو کیا ٹیچر لوگوں کے جذبات نہیں ہوتے
اور ہاں #سر کالج میں ہوں صرف
اب سر نہیں کہنا۔۔
سر نے مصنوعی غصے سے کہا
اور وہ دل سے مسکرا دی
__________ختم شد_________

No comments: