Ads Top

میرے_ہم_نفس_مـرے_ہـمنوا از فریحہ_چـودھـــری قسط 38


میـرے_ہـم_نفس_میـرے_ہمنوا

فریحہ_چـودھـری


#میرے_ہم_نفس_میرے_ہـمنوا
#فریحہ_چـودھـــری ✍
#قسط_38_آخری
میــــرے ہــــم نــفس میـــرے ہمنـــوا
مجھــــے دوست بــن کر دغــــا نہ دے
مــــیرے داغِ دل ســـے ہـــے روشنــــی
اســــی روشنــــی ســے ہــے زنـــــدگی
مجــــھے ڈد ہـے اے میــرے چــارہ گــر
یــہ چـــراغ تــو ہــی بـــجھــــا نـــہ دے
مجـھے اے چھوڑ دے میـــرے حال پـــر
تـــــیرا کیــــا بھـــروسہ ہــے چــارہ گــــر
یــــہ تیــــری نــــوازشِ مختصــــــــر
مــــــیرا عـــــزم اتنـــا بلنـــد ہــــے
کہ پــــراۓ شعـــلوں کا ڈر نہیــــں
مجھے خـــوف آتشِ گل ســے ہـــــے
یـــــہ کہیـــں چـــمن کو جلا نہ دیــں
وہ اٹھـــے ہیـــں لے کے ہـــوم و صُبــــو
ارے او شکیــــــــل کہـــــاں ہـــے تـــــو
تـــــیرا جـــــام لینـــــے کو بـــزم میــــں
کــــوئی اور ہــــاتـــھ بـــــڑھا نـــــہ دے
میـــــرے ہــــــم نفس میـــرے ہمنـــــوا
وہ جو بڑے انہماک سے غزل سنتا صوفے پرآڑھا ترچھا پڑا تھا دستک کی آواز پر سیدھا ہوا جہانگیر گلا کنھکارتا اندر داخل ہورہا تھا" تم کب سے یہ سننے لگے "
اسکا اشارہ غزل کی طرف تھا" جب سے آپکو سنتے پایا" وہ مسکرا کر کہتا اپنےساتھ جگہ دینے لگا
"کیسی طبعیت ہے" اسنے وہ بات کی جس کے لیے آیا تھا
"بہت بہتر ہوں "
"دیٹس گڈ" جہانگیر نے محبت سے اسکے بال بگاڑے
"بھیا ایک بات تو بتائیں "
"ہاں پوچھو "
"آپ اب مجھ سے ناراض تو نہیں نا "
"میں تم سے کبھی ناراض نہیں ہو سکتا "
"مجھے پتا تھا" وہ جوش سے کہتا ساتھ لپٹ گیا
"اچھا میں ایک بات سوچ رہا تھا "
"کونسی"
"آپ خفا تو نہیں ہوں گے" بات خاص تھی یہ اسکےانداز سے ظاہر تھا
"ارے بابا نہیں ہوتا بولو بھی "
"حمیراآنٹی کی مجھے کال آئ تھی" اسنے محسوس کیا جہانگیر کی رنگت بدلی تھی چہرے پر تکیف دہ آثار پیدا ہوۓ
"کیوں" بظاہر لاپرواہی ظاہرکرتے بھی وہ مکمل متوجہ تھا
"وہ آپ سے ملنا چاہتی ہیں آپکی واپسی کا سن کر بہت خوش تھیں "جازم نے ڈرتےڈرتے بات پوری کی چند لمحے خاموشی کی نزر ہو گۓ جازم کی نظریں اسکے چہرے کے اتار چڑھاو میں الجھی تھیں اندازہ لگانا مشکل تھا کہ وہ کیا سوچ رہا ہے
"کیا آپ ان سے نہیں ملیں گے" خاموشی کا وقفہ طویل ہوا تو جازم نے ہی بات پھر سے چھیڑی
"انکا آپ سے گہرا رشتہ ہے آپ کب تک ان سے نفرت کرتے رہیں گے کوئی معافی مانگے تو دے دینی چاہیۓ نا" اسکا انداز قائل کرنے والا تھا
"بشرطیکہ کوئی معافی مانگے تب ....". بات جتنی صاف تھی اتنی ہی مشکل جو جازم کی عقل میں تو کبھی نہ سما سکتی تھی
"ماں تو ماں ہوتی ہے جازم چاہے جیسی بھی ہو یہ تو اک احساس ہوتی ہےجسکی نرم آغوش میں پناہ لیتا تھکا ٹوٹاوجود پھر سے ہمت پکڑنے لگتا ہے امید ہارتا شخص گویا نۓ سرے سے جینے لگتا ہے ........میں جانتا ہوں میرے کہنے سے یہ رشتہ ختم نہیں ہو گا ... مگر میں انکی طرف لوٹ بھی نہیں سکتا ..... یہ ابھی میرے بس میں نہیں "وہ کسی ٹرانس کی کیفیت میں بولے چلے جارہا تھا پھر ہاتھ چہرے پر پھیر کر اٹھ گیا
"بھیا "جازم نے اسکا بازو تھام لیا آنکھوں میں التجا تھی
"ان سے کہنا جب ذہن ماضی کی بندشوں سے آزاد ہوا جہانگیر شاہ ..........ان تک ضرور آۓ گا "
وہ دھیرے سے کہتے پلٹ گیا جازم نے سر زور و شور سے جھٹکا "پتہ نہیں کیا بول کر گئے ہیں کچھ پلے نہیں پڑا "
☆☆☆☆☆☆☆
صبوحی سکندر کے کمرے کے پاس سے گزر رہی تھی جب کچھ ٹوٹنے کی آواز پر ان کے قدموں کو بریک لگا وہ لپک کر کمرے کی طرف آئیں جہاں سکندر کھانس کھانس کر بے حال ہو رہا تھا
"کیا ہوا آپ ٹھیک تو ہیں "وہ ان کے کندھے پر دباؤ ڈال کر سیدھا کرتے ہوۓ پوچھنے لگیں
"پانی " انہوں نے بمشکل سانس لیتے ہوۓ کہا
"ابھی لائی " چند منٹ بعد ہی وہ پانی لیے حاضر تھیں پانی پی کر وہ سیدھے ہوۓ تو چونک پڑے
"آج اتنا رحم کیوں " وہ سوال کیے بنا نہ رہ سکے
"ویسے میں نے یہ سب جان بوجھ کر نہیں کیا ۔۔۔۔۔ پہلے تو انامتہ یہیں ہوتی تھی مگر آج وہ بھی جانے کہاں ہے " وہ خواہ مخواہ ہی شرمندہ ہوتے صفائی دینے لگے
"کب تک انامتہ کے سہاروں پر جئیں گے "
"تو کس کے سہارے پر جیوں " ان کے لہجے میں ٹوٹے
"ہم ایک دوسرے کا سہارا ہیں " صبوحی ان کے قریب ہی بیڈ پر ٹک گئیں "بیٹیاں تو اپنے گھر کی ہو جائیں گی وہ کب تک ہمیں سنھالیں گی ہمیں ایک دوسرے کے لیے جینا ہو گا "صبوحی کے الفاظ نے سکندر کو ساکت کر دیا کچھ لمحے تو وہ بولنے کے قابل ہی نہ ریے
"کیا تم نے مجھے معاف کر دیا "وہ بے یقین ہوۓ
"ہاں ۔۔۔۔میں نے ۔۔۔۔ آپ کو معاف کر دیا دعا ہے خدا بھی آپ کو معاف کر دے " کہہ کر وہ اٹھ گئیں سکندر کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں
"تم بہت عظیم ہو صبوحی ۔۔۔۔ بہت عظیم "
☆☆☆☆☆☆☆
"کیسا فضول سا کلر ہے بالکل تمارے رنگ جیسا" جازم نے اسے بلیک ڈریس ہاتھ میں لیے دیکھ کر چھیڑا رخما نے لب بھینچ کر خود کو کچھ سخت سست کہنے سے روکا
"کم از کم میں اتنی کالی بھی نہیں ہوں " وہ خود کو کہنے سےباز نہ رکھ پائی
"ہاہاہا ہو سکتا ہے ۔۔۔۔ بھئ اب اتنی دور سے دیکھوں گا تو نظریں دھوکہ کھا بھی سکتی ہیں ۔۔۔۔ یہاں ذرا قریب آکر بیٹھو تب پتہ چلے " اتنی بے باکی کی شاید اسے امید نہیں تھی تبھی ہونقوں کی طرح منہ کھولے اسے دیکھنے لگی
"اب یوں کیا دیکھ رہی ہو ۔۔۔۔ ماناکہ بہت پیارا ہوں۔۔۔۔لڑکیاں تو اب بھی مجھ پر مرتی ہیں ۔۔۔۔ لیکن سوچو جب وہ تمہیں میرے ساتھ دیکھیں گی تو کیا ری ایکشن ہو گا ان کا " وہ اسے بولنے پر اکسا رہا تھا اور بلآخر کامیاب ہو گیا
"ان کا جو بھی ری ایکشن ہو گا میری بلا سے۔۔۔۔۔ آپ صرف خود کا سوچیں ۔۔۔۔ اگر میرا ساتھ اتنا ہی نا پسندیدہ ہے تو راستہ الگ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔۔۔۔ فیصلہ کریں اور بتا دیں "وہ تڑخ کر کہتی پلٹنے لگی تھی جب جازم اٹھ کر سرعت سے اس کا راستہ روک گیا رخما نے اچھنبے سے اسے دیکھا
"فیصلہ تو ہو چکا " وہ دھیرے سے مسکرایا ساتھ ہی اس کا ہاتھ تھام لیا رخما کو گویا کرنٹ لگا تھا
"بھیا کہتے ہیں عورت کی شکل و صورت سے ذیادہ کردار کی مضبوطی میٹر کرتی ہے اور مجھے تمہارے کردار پر یقین ہے " وہ آنکھوں میں چمک لیے اس کی بے یقین نگاہوں کا مرکز بنا ہوا تھا رخما ہڑبڑا کر ہوش میں آئی
"چھوڑیں ۔۔۔۔ ہاتھ چھوڑیں میرااب نجانے یہ ڈرامے کیوں کررہے ہیں " وہ اس پر یقین کرنے کو تیار نہ تھی جازم نے ہاتھ تو چھوڑ دیا مگر اگلے لمحے وہ مکمل اس کی گرفت میں تھی
"آرام سے سنا کرو سمجھا کرو پھر بولا کرو ۔۔۔ تمہیں معلوم بھی ہے کتنا جذباتی ہوں اسی لیے سب الٹ کر بیٹھتا ہوں مگر تمہارے معاملے میں مجھے اس جلد بازی پر کوئی افسوس نہیں " وہ چہرہ اس کے قریب کرتے بھاری گھمبیر لہجے میں سرگوشی کررہا تھا پھر دھیرے سے گنگنایا
تیرے خاموش ہونٹوں سے محبت گنگناتی ہے
تو میری ہے میں تیرا ہوں یہی آواز آتی ہے
"میں آپ پر یقین کیسے کروں ۔۔۔۔پل میں تولہ پل میں ماشہ ۔۔۔۔جب دل چاہے گا بے عزت کر دیں گے " بات کرتے کرتے اس کا لہجہ بھرا گیا جازم نے گہرا سانس بھر کر اسے گرفت سے آذاد کر دیا
"اچھا اب معافی کیسے ملے گی "
"نہیں ملے گی "
"اچھا میں نے کان پکڑ لیے یہ دیکھو "اس نے باقاعدہ کانوں کو ہاتھ لگایا رخما رخ پھیرے بے نیاز بنی رہی
"اب بھی نہیں "
"نہیں جو کچھ ہو چکا وہ معافی کے قابل یرگز نہیں ۔۔۔۔ایک مجبور و بے بس لڑکی کو بغیر کسی گناہ کے سزا دی جاۓ اس ظلم و زیادتی کا حساب دیے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں ہے " وہ کسی صورت رعایت دینے کو تیار نہ تھی
"دیکھو جو ہو چکا اسے بھلا دو ۔۔۔۔ میں وعدہ کرتا ہوں آئندہ ایسا نہیں ہو گا ۔۔۔۔۔ تمہارے بھائی نے بدلہ لے تو لیا ہے ۔۔۔۔۔ سوچو اگر میں اس دن مر جاتاتو "اس نے جان بوجھ کر یہ بات کہی تھی ری ایکشن حسب توقع تھا
"اللہ نہ کرے کیسی باتیں کر رہے ہیں "رخما نے بے ساختہ کہا اپنے دل کی آواز سے تو وہ خود بھی نگاہیں چرا رہی تھیں مگر کب تک
"اس کا مطلب تمہارے دل میں کچھ گنجائش تو باقی ہے"
جازم خوش فہم ہوا
"لیکن اس کامطلب یہ نہیں کہ آپ کو معافی مل جاۓ گی "
"مجھے معافی لینے آتی ہے "جازم نے شوخی سے کہتے اسے پھر سے گرفت میں لیناچاہا رخما نے اس کے ہاتھ جھٹک ڈالے
" ویسے بھائی کے خلاف کوئی کاروائی کیوں نہیں ہونے دی " اس نے ذہن میں مچلتا سوال کیا
"وہ اس لیے میری جان ۔۔۔۔۔ کہ شروعات تو اس کھیل کی میں نے کی تھیں ویسے بھی اس کی لاڈلی بہن میرے قبضے میں تھی اتنا حق تو بنتا تھا اسکا "جازم نے رخما کی ناک دبا کر بات پوری کی
"بھیا تو کسی صورت نہ مان رہے تھےمگر جب میں انہیں بتایا کہ میں نے رخما زمان شاہ کو کیسے رخما جازم شاہ بنایا ہے تو وہ بے حد خفا ہوۓ انہوں نے صاف کہا یا میں تمہیں اپنا لوں یا چھوڑ دوں اس زبردستی کے بندھن میں کچھ نہیں ۔۔۔۔۔ اور آج اسی مقصد کے لیے میں آپ کے سامنے ہوں مگر یہاں تو صلح کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے "وہ مایوسی سے کہتا پلٹنے لگا
"سنیں "
"سنائیں "وہ چہکا
"چاۓ لاوں " بات ایسی تھی کہ جازم کا منہ لٹک گیا
"کتنی ان رومنٹک لڑکی ہو تم " وہ مایوسی سے کہہ رہا رخما کی ہنسی چھوٹ گئ
☆☆☆☆☆☆☆
"بھیا یہ میں کیا سن رہی ہوں " حرب نے بیگ صوفے پر پھینکا اور جہانگیر کے مقابل آ گئ انداز ایسا تھا جیسے بہت خاص بات ہو
"کیا ہوا ہے " وہ متوجہ ہوا
" جازم بتا رہا تھا کہ غوزہ نے خود کشی کر لی ۔۔۔۔ مجھے یقین ہے وہ مذاق کر رہا ہو گا ۔۔۔۔ ہے نا " وہ ایک ہی سانس میں بولے جا رہی تھی جہانگیر نے سر جھکا لیا
"وہ سچ کہہ رہا ہے "
"نہیں "حرب نے بےاختیار منہ پر ہاتھ رکھ کر چیخ کا گلا گھونٹا "ایسا کیسے ہو گیا اس دن تو وہ ٹھیک تھی "وہ باقاعدہ ہچکیوں سے رونےلگی تھی جہانگیر متعجب ہوا
"کس دن ۔۔۔ تم کب ملی اس سے "
"وہ نواب ولا آئی تھی ۔۔۔۔ نوائم کو دیکھنے ۔۔۔۔ جس خاموشی سے آئی تھی ویسے ہی چلی گئ ۔۔۔ مجھے کیا پتا تھا بھیا میں اسے ۔۔۔۔ آخری دفعہ دیکھ رہی ہوں "وہ ہچکیوں کے دوران بمشکل اٹک اٹک کر کہہ رہی تھی
"آپ اسے منا لاتے نا ۔۔۔۔آخر تو بیوی تھی آپ کی ۔۔۔ کیوں مرنے دیا آپ نے اسے "حرب کو پچھتاوے گھیر رہے تھے اک عرصہ دوستی کا ساتھ گزرا تھا اتنی آسانی سے کیسے فراموش کر جاتی
"میں گیا تھا حرب ۔۔۔۔ مگر وہ نہیں آئی ۔۔۔ اب سوچتا ہوں مجھے اسے فیصلے کا اختیار نہیں دینا چاہئے تھا بلکہ محض حکم دینا چاہئے تھا "دکھ بے بسی کرب تو اس کے لہجے میں بھی تھا مگر وہ کچھ کرنے قاصر تھا حرب اس کے سینے سے لگی دل کھول کر روتی چلی گئ
وہ دل کی باتیں زمانے بھر کر کیوں سناتا ...مجھے بتاتا
وہ اک دفعہ تو میری محبت کو آزماتا ........مجھے بتاتا
زبان خلقت سے جانے کیا کیا وہ مجھ کو باور کرا رہا ہے
کسی بہانے انا کی دیوار گراتا................. مجھے بتاتا
مجھے خبر تھی کہ چپکے چپکے اندھیرے اس کو نگل رہے ہیں
میں اسکی راہ میں دیے جالاتا............. مجھے بتاتا
پر اسنے ستم کیا کہ شہر چھوڑ دیا خامشی سے............. مجھے بتاتا
☆☆☆☆☆☆☆
اگلے دن وہ سو کر اٹھا تو رخما کو کمرے میں نہ پاکر آوازیں دینے لگا کچھ دیر انتظار کے بعد وہ بستر چھوڑ کر اٹھ گیا وہ اسے لاونج میں ہی فون سٹینڈ کے پاس مل گئی
"تم یہاں ہو کب سے بلا رہا ہوں "جازم نے رخما کو فون ہاتھ میں لیے کھڑے دیکھ کر پوچھا وہ ہنوز گم سم رہی
"ارے " اس نے زور سے کندھا ہلا کر متوجہ گیا
"جازم ۔۔۔ وہ ۔۔۔ " سیل اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر جاگرا تھا جازم کو کسی انہونی کا احساس ہوا
"کیا ہوا کس کا فون تھا "
"فاریہ کا ۔۔۔۔ مراد بھائی ۔۔۔ مراد بھائی نہیں رہے ۔۔۔ شمشاد بھائی نے ان کا قتل کر دیا "وہ ہچکیوں سے بری طرح رونے لگی جازم نے کھینچ کر اسے ساتھ لگا لیا شاک میں تو وہ بھی تھا
"اچھا چپ ۔۔۔۔ کیا تمہیں وہاں جانا ہے ۔۔۔۔ میں تمہیں چھوڑ آؤں گا "جازم نے اس کے آنسو صاف کرتے نرمی سے کہا
" نہیں "رخما نے فورا نفی میں سر ہلایا فاریہ نے منع کیا ہے کتنی بد نصیب ہوں نا آخری بار انہیں دیکھ بھی نہیں سکتی ...."
"اچھا ادھر بیٹھو" اسنے بازو سے پکڑ کر اسے صوفے پر بٹھایا اور بی بی کو پانی لانے کا کہتا مزید پوچھنے لگا
"فاریہ بتا رہی تھی کوئی جائیداد کا جھگڑا تھا اور کچھ نہیں بتایا" وہ اس وقت اتنی حواس باختہ تھی کہ کسی طرف دھیان ہی نہ گیا جبکہ جازم کے اعصاب کو گہرا جھٹکا لگا تھا اسے لگا وقت ایک بار پیچھے گیا ہو جہاں ایک بھائی نے دولت کی خاطر دوسرے بھائی کو بے رحمی سے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا
☆☆☆☆☆☆☆
"مغیث اسے پکڑیں "حرب نے ٹی وی دیکھتے مغیث کا
کندھا ہلایا متوجہ ہونے پر اس نے عون کو اس کی طرف بڑھایا
"کیوں ۔۔۔۔ دیکھ نہیں رہی میچ چل رہا ہے "مغیث نے تیوری چڑھائی
"میں شاپنگ پر جارہی ہوں آنٹی اور انامتہ کے ساتھ پلیز اسے سنبھال لیں "وہ ملتجی ہوئی عون کے ساتھ شاپنگ کا پہلا تجربہ اتنا خوشگوار ہرگز نہ تھا کہ وہ دوبارہ رسک لیتی
"تو ساتھ لے جاؤ ۔۔۔ میں نا سہی میرا بیٹا ہی سہی "وہ تو گویا بھرابیٹھا تھا پیچھلے دودن سے حرب انامتہ اور نوائم کے ساتھ شاپنگ پر جارہی تھی اور مغیث کو جھوٹے منہ بھی نہ پوچھا گیا تھا تب سے وہ اندر ہی اندر کڑھ رہا تھا
"کیا ہو گیا ہے مغیث ۔۔۔۔۔ یہ بھیڑ میں گھبرا جاتا ہے ۔۔۔ پلیز پکڑ لیں " اسے ہنوز ہاتھ پر ہاتھ رکھے دیکھ کر حرب نے عون کوزبردستی اس کی گود میں بٹھادیا اور خود کپڑے اٹھا کر واش روم میں گھس گئ عون کو شاید یہ زبردستی پسندنہ آئی تھی تبھی گلا پھاڑ کر رونے لگا مغیث نے ہلایا جلایا مگر وہ چپ ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا اس نے آرام سے اسے بیڈ پر بٹھایا اور خود بھی اسکے برابر چٹ لیٹ گیا اب بیٹے کا رونا جاری تھا اور باپ کی بڑبڑاہٹ
" روئی جا بیٹا روئی جا ۔۔۔۔ رونا بھی اچھا ہوتا ہے ۔۔۔ صحت کے لیے ۔۔۔ آنکھوں کا فالتو پانی بہہ جاتا ہے اور آنکھوں کی بینائی میں اضافہ ہوتاہے ۔۔۔ گلا بھی صاف ہو جاتا ہے ۔۔۔۔ میرا تو خیال ہے مجھے بھی رونا چاہئے ۔۔۔ شاید تمہاری اماں کو خیال آ ہی جاۓ
سب کیڑے مکوڑوں میں اتنے بڑے گینڈے کا وجود ۔۔۔۔ اسے دکھائی ہی نہیں دیتا جو سارا دن اس کے آگے پیچھے گھومتا ہے۔۔۔۔ آہ ۔۔۔ میں خود کو گینڈا کہہ رہا ہوں ۔۔تف ہے تم پر مغیث حیات ۔۔۔۔ میں تو شہزادہ ہوں ۔۔۔۔ "باپ بیٹے کا یہ شغل جانے کب تک جاری رہتا حرب نےپہلے اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھا اسے کوئی حرکت نہ کرتے پا کر اس کی نبض چیک کی جو معمول کی رفتار سے چل رہی تھی "مغیث " اب کے باقاعدہ جھنجھوڑا
"تم مجھے مغیث کے ابا کیوں نہیں کہتی" وہ نیم وا آنکھوں سے اسے دیکھتا کہہ رہا تھا
"ہاۓ" حرب کی آنکھیں پھیلیں
"میرا خیال ہے آپ کی طبعیت ٹھیک نہیں ہے بخار سر پر چڑھ گیا ہے میں ڈاکٹر کو بلواتی ہوں " وہ جواب سنے بغیر عون کو اٹھاتی باہر نکل گئ
"یہ ہے تیری قسمت مغیث حیات "وہ پھر سے آہیں بھرنے لگا
عشق کو بھی عشق ہو تو پھر میں دیکھوں
کیسے تڑپے کیسے روۓ عشق اپنے عشق میں
☆☆☆☆☆☆☆
"چاچو دیکھیں میں کس کو لایا ہوں " گوہر کی آواز پر سکندر کو پلٹنا پڑا نظروں کے سامنے موجود شخص کو دیکھ کر انہیں غلطی کا گمان ہوا
لگا تھا جیسے آنکھیں دھوکہ کھا رہی ہیں
"یہ جہانگیر ہے چاچو ۔۔۔۔ فیضان انکل کا بیٹا " گوہر کی آواز نے ایک اور جھٹکا دیا تھا ہاں وہ فیضان ہی توتھا ۔۔۔ ہوبہو وہی نقش ۔۔۔۔ وہی جسامت وہی قدوقامت ۔۔۔۔ سکندر کے لب کپکپا گئے ہاتھوں میں لغزش اتر آئی
وہ لڑکھڑاتے قدموں سے آگے بڑھے اور ایک جھٹکے سے سینے سے لگاتے آنکھیں نم ہونے سے روک نہ سکے تھے پھر جو روۓ تو روتے ہی چلے گئے گوہر کے زبردستی الگ کرنے پر انہیں اپنی پوزیشن کا خیال آیا جہانگیر کی پریشان صورت پر نظر پڑتے ہی ہنس دیے
"آؤ بیٹھو ۔۔۔۔ آج گھر پر کوئی نہیں ہے خوب محفل جمائیں گے"خوشی کے ٹمٹماتے دیے ان کے چہرے پر روشن تھے
☆☆☆☆☆☆☆
بی جان کے اصرار پر بغیر اطلاع دیۓ وہ حرب کو لینے آیا تھا مگر ملاقات سکندر سے ہو گئ وہ نماز پڑھنے کو اٹھے تو گھر کی پیچھلی طرف چلا آیا راہداری سے گزرتے اسے بے اختیار ہی نوائم کی یاد آئی دل ایک نظر دیکھنے کو مچل پڑا وہ ایک قدم آگے ہی بڑھا تھا کہ نسوانی چیخ پر ٹھٹھک گیا
"چپ کرو ۔۔۔۔ خبردار جو آواز نکالی ۔۔۔۔ ساری گولیاں سینےمیں اتار دوں گا " مردانہ بھاری آواز اور ایسے سخت الفاظ جہانگیر خود کو اس طرف بڑھنے سے روک نہ پایا
"چلو میرے ساتھ "وہ نوائم کو کھینچتے ہوۓ پیچھلے دروازے کی جانب بڑھنے لگا جہانگیر کی رگیں تن گئیں اپنی نظروں کے سامنے اپنی عزت پر کسی کی بری نگاہ پڑتے دیکھنا اس کی مردانگی پر کاری ضرب تھی وہ مٹھیاں بھینچتا لپک کر راستے میں آیا یوں راستہ روکے جانے پر پہلے تو فابیان چونکا پھر راستہ صاف کروانے کو پسٹل کا رخ جہانگیر کی طرف کر لیا جہانگیر نڈر انداز میں اس کی آنکھوں میں دیکھنےلگا
"تم جیسے بڑے کتے دیکھے ہیں " اس نے ایک نظر ڈری سہمی اس کی گرفت سے نکلنے کو مچلتی نوائم پر ڈالی اور ہاتھ بڑھا کر فابیان کی گردن دبوچ لی وہ اس حملے کے لیے تیار نہ تھا تبھی اپنا دفاع نہ کر سکا پسٹل اس کے ہاتھ سے گر گیا جہانگیر کے آگے ٹھہرنا اس کے بس کی بات نہ تھی چند لمحوں میں ہی اس کا حشر بگڑ چکا تھا وہ اسے زمین کی طرف دھکیلتا پسٹل کی جانب بڑھا
"جہانگیر شاہ کی عزت کے ساتھ دل پر بھی ہاتھ ڈالا ہے تو نے ۔۔۔۔ جس کی کم سے کم سزا موت ہے " وہ رخ اس کی جانب کیے کھڑا تھا فابیان منتوں پر اتر آیا
"معاف کر دو مجھے ۔۔۔ ایک بار معاف کر دو آئندہ ایسا نہیں ہو گا ۔۔۔۔ تم ہی سمجھاؤ اسے ۔۔۔۔ پلیز روکو "اس نے نوائم کے آگے ہاتھ جوڑے نہ جانے نوائم کے دل میں کیا سمائی اس نے لاشعوری طور پر اپنا ہاتھ جہانگیر کے بازو پر رکھ دیا جہانگیر نے حیرت سے چہرہ موڑا
"جانے دیں وہ رو رہا ہے " اس نے اتنی معصومیت سے کہا کہ جہانگیر چاہ کر بھی انکار نہ کر سکا
"بخش دیا ۔۔۔ اسے تمہارے لیے بخش دیا "
سُن سانسوں کے سلطان پیا
ترے ہاتھ میں میری جان پیا
میں تیرے بن ویران پیا
تو میرا کُل جہان پیا
مری ہستی، مان، سمان بھی تو
مرا زھد، ذکر، وجدان بھی تو
مرا، کعبہ، تھل، مکران بھی تو
میرے سپنوں کا سلطان بھی تو
☆☆☆☆☆☆☆
دو سال بعد
ندرت فابیان کے ساتھ واپس لوٹ گئی تھی اور ادینہ کسی آشنا کے ساتھ رات کی تاریکی میں گھر سے بھاگ کر ماہی کا سارا طنطنہ خاک میں ملا گئی تھی اس حادثے کے بعد ماہی نے خود کو کمرے میں قید کر لیا
دوسری طرف شاہ ولا میں خوشیوں کا سماں تھا مہمانوں سے گھر بھرا پڑا تھا حرب کے ہاں بیٹی نے جنم لیا جبکہ رخما کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تھا دو دو بچوں کی آمد نے خوشیوں کو دوبالا کر دیا تھا صدقہ وخیرات کیے جا رہے تھے نئے نئے پکوان بن رہے تھے حرب تو دو ماہ سے ادھر تھی حیات صاحب کو پوتی کی اتنی خوشی ہوئی کہ وہ بمعہ اہل و عیال دوڑے چلے آے
سب خوش گپیوں میں مصروف تھے جب کمرے سے تیز تیز چیخنے پر بے اختیار اوپری منزل کی طرف دوڑے کمرے میں پہنچ کر دیکھا تو نوائم گھٹنوں میں سر دیے عین کمرے کے وسط میں بیٹھی رو رہی تھی
" کیا ہوا ہے "صبوحی تیزی سے آگے بڑھی " نوائم میری بچی بولو تو سہی "اسے ہنوز چپ دیکھ کر صبوحی کا دل گھبرانے لگا باقی سب کی حالت بھی کم و بیش ان جیسی ہی تھی
"نوائم "جہانگیر کے نرمی سے پکارنے پر اس نے جھٹکے سے سر اٹھایا
"کیا ہوا ہے ۔۔۔۔ کیوں رو رہی ہو " وہ بے حد نرمی سے پوچھ رہا تھا
" آپ نے دیکھا حرب آپی کے پاس گڑیا ہے اور رخما باجی کے پاس بھی پرنس آیا ہے ۔۔۔ مجھے بھی پرنس چاہئے " وہ بات پر زور دیتی تیز تیز بولی تھی جہانگیر نے بےساختہ صبوحی کو دیکھاصبوحی بھی مسکراتے ہوۓ اٹھ گئیں
"آپ لوگ جائیں ۔۔۔ میں سنبھال لوں گا " اس نے سب کی نظروں سے بچنے کے لیے انہیں باہر کا راستہ دیکھایا سب اپنی اپنی بولیاں بولتے کمرہ خالی کر گئے
"ادھر ۔۔۔اوپر بیٹھو "جہانگیر نے اسے بازو سے پکڑ کر بیڈ پر بٹھایا
"اب آپ مجھے مت ڈانٹنا ۔۔۔۔ کیونکہ مجھے پرنس لینا ہے "وہ ضدی لہجے میں کہہ رہی تھی
"اف یہ لڑکی " جہانگیر نے سرتھام لیا
"ورنہ میں رخما باجی کا چھپا لوں گی "واہ رے معصومیت
"دیکھو ابھی تو کل تمہارا پیپر ہیے لہذا کسی قسم کی سرگرمی میں انوالو نہیں ہونا ۔۔۔۔بعد میں دیکھیں گے اوکے " اس نے نرمی سے سمجھایا
"لیکن پرنس "وہ کہنے ہی والی تھی کہ جہانگیر کی گھوری پر چپ کر گئ
"میں ہوں نا تمہارا پرنس۔۔۔۔ کیا میں پرنس سےذیادہ پیارا نہیں ہوں "جہانگیر نے اس کی طرف جھک کر سرگوشی کی وہ بے طرح خوش ہوتی اس سے لپٹ
میں نے سورج چاند ستارے تیرے نام لکھے
جگ میں جتنے پھول ہیں سارے تیرے نام لکھے
دیواروں دروازوں پر بھی تیرا نام لکھا ہے
دریاؤں نہروں کے دھارے تیرے نام لکھے ہیں
سارے کانٹے اور انگارے اپنے پاس رکھے ہیں
خوشیاں ساری رنگ نظارے تیرے نام لکھے ہیں
جیون میں جو کچھ بھی پایا اسے بھول گئ ہوں
یادیں ساری سپنے سارے تیرے نام لکھے ہیں
پہروں تنہا بیٹھ کے میں نے تجھ سے باتیں کی ہیں
ساری غزلیں اور فن پارے تیرے نام لکھے ہیں
دل کے ساتھ ہی آنکھیں میں نے رستے میں رکھ دی ہیں
جیون کے سب سنگ سہارے تیرے نام لکھے ہیں
*_#ختم_شد_*

No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.