Ads Top

میرے_ہم_نفس_مـرے_ہـمنوا از فریحہ_چـودھـــری قسط 33


میـرے_ہـم_نفس_میـرے_ہمنوا

فریحہ_چـودھـری

#میرے_ہم_نفس_میرے_ہـمنوا
#فریحہ_چـودھـــری ✍
#قسط_33
"جازم مجھے تم سے ہرگز ایسی امید نہ تھی "بی جان اسے دیکھتے ہی رخ پھیر گئیں تھیں وہ چونک کر انہیں دیکھنے لگا
"کیا مطلب بی جان "
"کیا یہ سکھایا تھا ہم نے تمہیں ۔۔۔ یہ تربیت کی تھی تمہاری " اس کے یوں انجان بننے پر انکے اشتعال میں اضافہ ہوا
"بی جان میں واقع ہی نہیں سمجھا "
"ایک لڑکی کو دن دھاڑے اغواء کرتے ہو دو دن تک اپنے پاس رکھتے یو پھر پوچھتے ہو کیا ہوا ہے ؟؟ بنی بنائی عزت خاک میں ملا دی تم نے جازم ۔۔۔ مجھے تم سے واقع ایسی امید نہ تھی "آخر میں ان کا لہجہ نا چاہتے ہوۓ بھی بھرا گیا جازم بے چین سا آگے بڑھا
"وہیں رک جاؤ "بی جان نے ہاتھ اٹھا کر اسے وہیں روک دیا
"آپ کو کیسے معلوم ہوا " وہ کب سے ذہن میں مچلتے سوال کو زبان پر لے آیا
"فاریہ آئی تھی یہاں ۔۔۔ پولیس کے ساتھ ۔۔۔ "
"بی جان میں آپ کو سب بتاتا ہوں "وہ دونوں ہاتھ اٹھا کر صلح جو انداز میں بولا مقصد انہیں ٹھنڈا کرنا تھا
"میں اسے لے کر آیا ہوں ۔۔۔ لیکن "
"لیکن ویکن کو چھوڑو ۔۔۔۔ جہاں سے اسے لے کر آۓ ہو وہیں چھوڑ آؤ ۔۔۔۔ کسی معصوم کی بددعائیں مت لو "وہ سختی سے اسے درمیان میں ہی ٹوک گئیں تھیں
"میں اسے واپس نہیں چھوڑ سکتا "وہ بے ساختہ نظریں چرا گیا
"تو پھر ٹھیک ہے نکاح کر لو اس سے ۔۔ جاؤ۔۔۔ ابھی جاؤ
۔۔۔ نکاح کرو اور باعزت طریقے سے گھر لے آؤ ۔۔۔ میں تمہیں کسی کی عزت سے کھیلنے کی اجازت ہرگز نہیں دوں گی ۔۔۔اب مجھے اس وقت تک شکل مت دکھاناجب تک میرا حکم نا مان لو " وہ بے حد دھیمے مگر مضبوط لہجے میں کہہ کر پلٹ گئ تھیں جازم کا دماغ بھک سے اڑا وہ دھپ دھپ کرتا باہر کی جانب بڑھ گیا
☆☆☆☆☆☆☆
"اس قدر خود غرض اور بے مروت ہو تم ۔۔۔ مجھے ہرگز اندازہ نہ تھا "گوہر نے اپنے سامنے گداز صوفے پر براجمان جہانگیرکو دیکھ کر جملہ کسا ۔۔۔ وہ بغیر نوٹس لیے سگریٹ کے کش لیتا دھوئیں کے مرغولے اڑاتا رہا گوہر پیچھلے آدھے گھنٹے سے اپنے دل کی بھڑاس نکالنے میں مصروف تھا جہانگیر کی خاموشی اسے مزید تپا رہی تھی
"بی جان کو معلوم ہے کیا " جہانگیر نے بغیر نظر اٹھاۓمحض نفی میں سر ہلانے پر اکتفا کیا وہ اسے جان بوجھ کر تپا رہا تھا
"تم بدل گئے ہو جہانگیر " اب کے اس نے انداز بدلا تھا چہرے پر مسکینی اور آنکھوں میں نمی لانے کی ناکام کوشش کرتے ہوۓ بلآخر وہ جہانگیر کی توجہ ہٹانے میں کامیاب ہو گیا جہانگیر نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا اور پھر سے بے نیاز یو گیا
"تم چاہتے کیا ہو ۔۔۔۔ ایک تو بغیر بتاۓ بغیر پوچھے سیدھا پاکستان چلے آۓ ۔۔۔ کیا دنیا میں جگہ ختم ہو گئی تھی جو تمہیں یہاں آنے کی زحمت کرنا پڑی کہیں اور بھی تو دفع ہو سکتے تھے "گوہر پھر سے اسی موضوع کی طرف چلا آیا جہاں سے بات کا آغاز ہوا تھا جہانگیر نے تیوری چڑھائی
"تم مجھے صاف وجہ بتا دو "
"میں یہاں ۔۔۔۔ جازم کے لیے آیا ہوں "
"جازم کوئی ننھا بچہ نہیں ہے اور نہ ہی تم اس کی اماں ہو "گوہر خود کو تلخ ہونے سے روک نہ پایا تھا جہانگیر ہنس دیا
"وہ بچہ ہی ہے "
"تمہارے لیے وہ بچہ ہو گا مگر حقیقت کی نظر سے دیکھو تو بائیس سال کا بھرپور جوان ہےاچھا برا سمجھتا ہے وہ " گوہر نے سمجھانے کی پوری کوشش کی " اور تمہاری اطلاع کے لیے عرض ہے کہ جازم اور غوزہ والا معاملہ بھی ختم ہو چکا ہے تمہارے ہی کہنے پر میں نے غوزہ کوفلیٹ ۔۔۔۔ "
"جانتے ہو میں نے تمہیں کیوں بلایا " غوزہ کے ذکر پر اس کے چہرے کے تاثرات تن گئے تھے تبھی فورًاموضوع بدل دیا
☆☆☆☆☆☆☆
"آپ نے کیاسوچا کب تک یونہی چلے گا اب اس سب کا کوئی نہ کوئی تو حل نکلنا چاہئے "سمعیہ بیگم نے چاۓ کا کپ حیات صاحب کو پکڑاتے ہوۓ رسان سے کہا
"کس بارے میں کہہ رہی ہیں آپ "
"سکندر اور صبوحی کے بارے میں "
"میں بھی دن رات یہی سوچتا رہتا ہوں ۔۔۔ اوپر سے نوائم کی گمشدگی ۔۔۔صبوحی بالکل ٹوٹ کر رہ گئ ہے اور سکندر ....وہ سارا دن اسکی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے " حیات صاحب کے لہجے میں درد واضح تھاسمعیہ بیگم نے اثبات میں سر ہلا دیا
"ٹھیک کہہ رہے ہیں آپ ۔۔۔ لیکن یہ بھی تو سوچیں اتنے دن گزر گئے نہ جانے کس حال میں ہو گی زندہ بھی ہو گی یا ۔۔۔۔ "
"خدا نہ کرے کیسی باتیں کر رہی ہو " حیات صاحب بےساختہ انہیں ٹوک گئے تھے
" یہ میں نہیں کہہ رہی ۔۔۔ سارا گھر کہہ رہا ہے ۔۔۔۔ ندرت نے تو اچھا خاصہ محاظ بنایا ہوا ہے آتے جاتے صبوحی کو کچوکے لگاتی رہتی ہے فابیان کا کچھ پتا نہیں مجھے لگتا ہے فابیان کے فرار کے پیچھے ندرت کا ہاتھ ہے ۔۔۔اور یہ بھی تو سوچیں اگر نوائم واپس آ بھی گئ تو یہ لوگ اس کا جینا حرام کر دیں گے ۔۔۔ پہلے کی بات اور تھی حیات.... اب کچھ سوچ کر چلنا ہو گا "وہ دلی خدشے کو زبان پر لے آئی تھیں جو کسی حد تک درست بھی تھا
"یہ سب کچھ صبوحی کےساتھ بھی ہوا تھا یاد ہو گا آپ کو "انہوں نے تلخ صورت حال حیات صاحب کے سامنے رکھی وہ ہاتھ کی مٹھی تھوڑی پر ٹکاۓ گہری سوچ میں ڈوب گئے سمعیہ بیگم کی باتیں سو فیصد درست تھیں کیا وقت پھر سے کہانی دہرانے والا تھا کیا اب ایک اور صبوحی اس بے رحم وقت کی بھینت چڑھنے والی تھی یہ سوچ ہی ایسی تھی کہ انہیں بے ساختہ جھرجھری آ گئ
☆☆☆☆☆☆☆
جانتے ہو میں نے تمہیں کیوں بلایا " غوزہ کے ذکر پر اس کے چہرے کے تاثرات تن گئے تھے تبھی فورًاموضوع بدل دیا
"کیوں بلایا ہے "
"نوائم نامی کسی لڑکی کو جانتے ہو "اس نے گویادھماکہ کیا تھا
"ہاں ۔۔۔ مگر " گوہر ٹھٹھکا تھا
"وہ میرے پاس ہے کچھ دن پہلے میری گاڑی سے ٹکرا گئ تھی "
گوہر شاک کی کیفیت میں اسے دیکھنے لگا چہرے پر ہاتھ پھیر کر اس نے بے ساختہ گہرا سانس بھرا
"اوہ تھینک ... سیریسلی پھوپھو اور چاچو تو بہت ذیادہ پریشان تھے پھوپھو کی تو طبیعت ہی نہیں سنبھل رہی تھی مگر ۔۔۔۔ "بات کرتے کرتے وہ چانکا " تمہیں کیسے پتا چلا کہ نوائم کا تعلق ہم سے ہے ۔۔۔۔ کیا اس نے بتایا ؟؟"
"آ ۔۔۔ہاں ۔۔۔ اسی نے بتایا ناں ورنہ مجھے کیسے پتا چلتا "جہانگیر نے جھوٹ سے کام لیا تھا جانے کیوں
" مجھے اس کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں لگی آئی مین ۔۔۔۔ "جہانگیر نے بات پوری کرنے کے لیے مناسب الفاظ کا سہارا لینا چاہا مگر گوہر نے درمیان میں ہی ٹوک دیا
"نہیں ایسی بات نہیں ہے ایکچولی وہ کبھی گھر سے باہر نہیں گئ بلکہ اس کی دنیا تو ایک کمرے تک ہی محدود تھی شاید اسی وجہ سے تمہیں وہ ابنارمل لگی "
"ایسا کیوں "جہانگیر نے بظاہر لاپرواہی سے پوچھا تھا مگر اس کا دماغ مکمل طور پر اسی بات میں الجھا ہوا تھا
"پھوپھو نے اسے ہم سب سے دور علیحدہ رکھا ۔۔۔۔ شاید چاچو کی وجہ سے ۔۔۔ " وہ دھیمے سے بتا رہا تھا جہانگیر نے مزید کریدنا ضروری نہیں سمجھا مگر اس کی اگلی بات نے جہانگیر کے اعصاب کو زبردست جھٹکا دیا
" ارے مجھے یاد آیا ۔۔۔۔ تمہارے بابا اور چاچو سکندر جوانی میں بہت اچھے دوست تھے ۔۔۔ اس دن حمیرا آنٹی کی زبانی حقیقت سن مجھے بھی یونہی شاک لگا تھا جیسے کہ تمہیں "گوہر اس کے چہرے کے تاثرات جانچتا ہنستے ہوۓ کہہ رہا تھا جہانگیر کا ذہن مزید تانوں بانوں میں الجھنے لگا
"اچھا میں چلتا ہوں مجھے بہت ضروری کام ہے پھر ملاقات ہو گی " گوہر جانے کے لیے کھڑا ہوا
"نوائم کو بلواؤں "جہانگیر بھی ساتھ ہی اٹھ گیا
"نہیں ۔۔۔۔ اسے ابھی اپنے پاس ہی رکھو ۔۔۔۔ اس کا نواب ولا جانا ابھی بہتر نہیں ہے "گوہر کی بات پر جہانگیر کا دماغ بھک سے اڑا
"کیا کہہ رہے ہو یہ ۔۔۔ تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا ۔۔۔ تم جانتے ہو میں یہاں اکیلا رہتا ہوں ایسے میں ایک جوان اور خوبصورت لڑکی کو اپنے ساتھ رکھنے کا مطلب ہے ۔۔۔"
"اوہ جوان اور خوبصورت لڑکی " وہ بات اچکتا اسے تاؤ دلاتا ہنسا تھا
"بکواس بند کرو " جہانگیر نے اس کے کندھے پردھپ رسید کی
"ایک مشورہ دوں ؟؟اگر ایسے نہیں رکھ سکتے تو اس سے نکاح کر لو"وہ رازدارانہ انداز میں اس کی طرف جھک کر مشورہ سے نواز رہا تھا جہانگیر نے جھٹکے سے اس کا بازو کندھے سے ہٹایا
"تم جانتے بھی ہو کیا کہہ رہے ہو میں ایک شادی شدہ انسان ہو ایسےمیں "
"فار گاڈ سیک جہانگیر ۔۔۔تم کس کو الو بنا رہے ہو خود کو یا مجھے ؟؟ اس دن جو کچھ ہوا کیا تم وہ سب بھلا کر غوزہ کی طرف پلٹ جانا چاہتے ہو ؟؟کیا تم ایسا کر پاؤ گے ؟؟نہیں نا تو پھر کب تک خود کوتنہائی کے عذاب میں جھلساتے رہو گے ۔۔۔ بھول جاؤ سب اور آگے بڑھو۔۔۔ زندگی جی کر دیکھو ۔۔۔ میں یہ نہیں کہہ رہا غوزہ کو چھوڑ دو اسلام میں چار شادیوں کی اجازت ہے تم تو پھر دوسری کرو گے کوئی گناہ نہیں "وہ اسے نئ سوچ تھماتا جانے کے لیے پلٹ گیا دروازے پر پہنچ کر وہ پھر سےرک گیا
"سوچ لو ۔۔۔ اچھی طرح سوچ لو ۔۔۔ نوائم پیچھلے دو دن سے تمہارے ساتھ ہے۔۔ میں اسے لے بھی جاؤں تو یہ دنیا اسے جینے نہیں دے گی ۔۔۔ کون یقین کرے گا اس کی پارسائی و معصومیت کا ۔۔۔ میری درخواست ہے اسے آزمائش میں مت ڈالو ۔۔۔۔ اپنا نام دے کر زمانے کے منہ بند کر دو ورنہ یہ بے رحم دنیا اس سے جینے کا حق بھی چھین لیں گی "وہ اسے ساکت وجامد چھوڑ کر دہلیز پار کر گیا تھا
عشق کرنے کے آداب ہوا کرتے ہیں
جاگتی آنکھوں کے کچھ خواب ہوا کرتے ہیں
ہر کوئی روکے دکھا دے یہ ضروری تو نہیں
خشک آنکھوں میں بھی سیلاب ہوا کرتے ہیں
کچھ فسانے ہیں جو چہرے پہ لکھے رہتے ہیں
کچھ پس دیدہ خوشاب ہوا کرتے ہیں
کچھ تو جینے کی تمنا میں مرجاتے ہیں
اور کچھ مرنے کو بے تاب ہوا کرتے ہیں
تیرنے والوں پہ موقوف نہیں خالد
ڈوبنے والے بھی پایاب ہوا کرتے ہیں
☆☆☆☆☆☆☆
جازم نے مکان کا تالہ کھولا اور اندر داخل ہو گیا تیز چمکتی لائیٹ نے رخما کی آنکھوں چندھیا دیں وہ بازو آنکھوں پر رکھے اٹھ بیٹھی اجڑے بکھرے بے ترتیب حلیے میں وہ اسے نڈھال اور بیمار سی لگی جازم کو سامنے دیکھ کر اس نے تیزی سے دوپٹہ درست کیا
"ہونہہ ناٹک دیکھو پارسا بی بی کے ۔۔۔ جیسے تمہارے خاندان والےتو مسجد میں نمازیں پڑھاتے ہیں "وہ طنز کے تیر چلانے سے باز نہ آیا تھا رخمانے کمال ضبط سے اس کے الفاظ کی کڑواہٹ کو اپنے اندر اتارا تھا
"چلو اٹھو میرے ساتھ چلو " جازم حکم دیتا آگے بڑھنے لگا رخما کی آنکھیں اس کی پشت کو گھور رہی تھیں وہ سمجھ نہ پائی تھی آیا یہ آذادی کا پروانہ تھا یا قید خانے کی تبدیلی
"تمہیں سمجھ نہیں آیا کیا "جازم پلٹ کر غرایا تھا
"کہاں چلنا ہے "دل کڑا کر کے پوچھا گیا
" تمہیں بتاؤں ۔۔۔ کہاں جانا ہے ۔۔ ہوں بتاؤں تمہیں؟ "جازم جھٹ سے اس تک پہنچ ساتھ ہی کھینچ کر تھپڑ اس کے گال ہر رسید کر دیا وہ گال پر ہاتھ رکھے پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی
"خبردار جو آج کے بعد مجھ سے کوئی سوال جواب کیا
۔۔ زبان گدی سے کھینچ لوں گا تمہاری" سختی سے جبڑا ہاتھوں میں جکڑے وہ پھنکارا تھا "سمجھی "
"چلواب " جھٹکے سے اسے چھوڑتا آندھی طوفان کی مانند کمرے سےنکل گیا رخما لڑکھراتے قدموں کو سنبھالتی بمشکل اس کے پیچھے لپکی
ہے دعا یاد مگر صرف دعا یاد نہیں
میرے نغمات کو انداز نو یاد نہیں
میں نے پلکوں سے دربار پر دستک دی ہے
میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں
میں نے جن کے لیے راہوں میں بچھایا تھا لہو
ہم سے کہتے ہیں وہی عہد وفا یاد نہیں
کیسے بھر آئیں سر شام کسی کی آنکھیں
کسے تھرائی چراغوں کی ضیاد یاد نہیں
صرف دھندلاۓ ستاروں کی چمک دیکھی ہے
کب ہوا کون ہوا کس سے خفا یاد نہیں
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
آؤ اک سجدہ کریں عالم مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں
☆☆☆☆☆☆☆
"بھابھی میں گوہر ۔۔۔۔ دروازہ کھولیں " گوہر کی آواز سن کر غوزہ نے جھٹ سے دروازہ وا کیا اور اسے لیے اندر کی طرف بڑھنے لگی
"بیٹھیے " سامنے صوفےکی طرف اشارہ کرتی خود بھی بیٹھ گئ ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں پیوست کیے وہ اسے پہلے سے ذیادہ پریشان اور خستہ حال لگی
"کیا مصروفیت ہے آج کل " گوہر نے ہی بات کا آغاز کیا
"فی الحال تو فارغ ہوں ۔۔۔ سوچ رہی ہوں کوئی جاب کر لوں ۔۔۔ سارا دن بوریت بھی تھکا ڈالتی ہے "بے حد سنجیدگی سے جواب دیا گیا
" ہوں ۔۔۔۔ آپ نے آگے کا کیا سوچا "اب کے گوہر نے ڈائریکٹ بات کی تھی غوزہ چونکی
"ابھی بتایا تو ہے ۔۔۔ ویسے بھی مجھے اس طرح یہاں رہنا اچھا نہیں لگتا ۔۔۔ میں بہت جلد آپ کو اس گھر کا کرایہ ۔۔۔۔ "
"بھابھی کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ "گوہر نے فوراً بات کاٹی "یہ آپ کا اپنا گھر ہے ۔۔۔ آپ کے شوہر کا گھر ہے "وہ اپنی بات پر زور دے کر کہنے لگا
"شوہر "غوزہ زیرلب بڑبڑائی ساتھ ہی ہنس دی
"یہی تو میں پوچھ رہا ہوں ۔۔۔۔ اب آپ آگے کیا چاہتی ہیں ۔۔۔۔ زندگی یوں تو نہیں گزرتی اگر آپ چاہیں تو میں جہانگیر سے بات کرتاہوں مجھے یقین ہے وہ ۔۔۔"
"کوئی فائدہ نہیں ایک باردلوں میں میل آ جاۓ تو پھر زندگی بھر اسے مٹایا نہیں جا سکتا "
"مٹ سکتا ہے بھابھی آپ کوشش تو کریں "گوہر نے رسان سے اسے سمجھانا چاہا تھا غوزہ نے نفی میں سر ہلایا
" نہیں ۔۔۔ میں یہ کوشش نہیں کر سکتی "
"کیوں ؟؟"
"کیوں کہ ۔۔۔ شاید میں یہ کرنا نہیں چاہتی ۔۔۔ہم میں بہت فاصلے ہیں دوریاں ہیں میرے باپ نے جو کچھ کیا بے شک وہ بہت غلط اور نا قابل تلافی تھا ویسے بھی اب اتنے رشتے کھو کر کسی نئے رشتے کی بنیاد نہیں رکھ سکتی اور وہ بھی اس وقت جب کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں "وہ بھراۓ ہوۓ لہجے میں کہہنے لگی شاید اتنے عرصے بعد کسی کے سامنے کھل کر بول رہی تھی گوہر نے حیرت سے اسے دیکھا
"دیکھیں جو کچھ آپ کے والد نے کیا اس میں آپ کا کوئی قصور نہ تھا آپ کا قصور فقط اتنا ہے کہ آپ نے جہانگیرکو سمجھنے کی بجاۓ الٹا اسے قصوروار سمجھا "
"میں نے جو کیا ٹھیک کیا "ضد اور ہٹ دھرمی عود کر آئی تھی تبھی تیز اور مضبوط لہجے میں اسے ٹوک گئ
"مجھے اس پر کوئی شرمندگی نہیں " غوزہ کا چہرہ سپاٹ تھا گوہر کو ڈھونڈنے سے بھی کوئی شرمندگی و خجالت کے آثار نہ ملے
"اگر ایسا ہے تو ٹھیک ہے ۔۔۔ میں آپ کو فورس نہیں کر سکتا"وہ صوفے سے اٹھا " اتنا بتاتا چلوں ۔۔۔۔ جہانگیر شادی کر رہا ہے اور میرا خیال ہے بالکل ٹھیک کر رہا ہے وہ کسی کے لیے کیوں اپنی زندگی کو تیاگ دے جو خود کو غلط سمجھنے پر بھی تیار نہیں " گوہر تلخ ہو گیا تھا نہ جانے کیوں ۔۔۔۔ غوزہ کا چہرہ یکدم سفید پڑا تھا
" کس ۔۔۔ سے کر۔۔ رہا ۔۔۔ ہے "
"میری کزن سے ۔۔۔ لومیریج "گوہر نے اپنی طرف سے بم پھوڑا تھا مگر غوزہ کے ٹھنڈے اور سپاٹ ردعمل نے اسے حیرت میں ڈال دیا
"چلو ۔۔۔ اچھا ہے ۔۔۔ یقیناً وہ بہت خاص ہو گی ۔۔۔ تبھی تو جہانگیر شاہ کے دل میں جگہ بنا لی " وہ دھیرے سے کہہ کر اٹھ گئ گوہر کو نہ جانے کیوں غصہ آیا تھا
"کیسی بیوی ہے " وہ بڑبڑاتا ہوا واپس گاڑی میں آ بیٹھا
☆☆☆☆☆☆☆
"اب تمہارے لیے کیا شاہی سواری کا بندوبست کرنا پڑے گا " جازم کی تیز چنگھاڑتی آواز پر وہ چونک کر متوجہ ہوئی
"دروازہ بند کر کے آؤ " رخما نے فوراً اس کے حکم پر عمل کیا تھا اب وہ کمرے کے عین وسط میں کھڑی انگلیاں چٹخاتی اس کے اگلے حکم کی منتظر تھی اور جازم ۔۔۔ بڑے اطمینان سے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاۓ اس کا جائزہ لینے میں مصروف
بلیک اور پنک کمبینیشن کے سٹائلش سوٹ میں ملبوس وہ اسے پہلے سے فریش لگی وہ یکدم چونک کر سیدھا ہوا
"تمہیں کپڑے بدلنے کے لیے کس نے کہا تھا "وہ اس کے نئے قیمتی لباس پرنظریں گاڑھے درشتی سےکہنے لگا
"وہ ۔۔۔۔ وہ بی جان نے "وہ ہکلائی تھی جازم استہزائیہ ہنسا
"کتنی تیز ہونا تم ۔۔۔ سیدھا نام اس ہستی کا لے رہی ہو جسے میں کچھ کہہ نہیں سکتا "
"نہیں سچ میں "وہ اپنی صفائی میں کچھ کہنے ہی والی تھی کہ جازم نے ہاتھ اٹھا کر ناگواری سے ٹوک دیا
"اچھا چپ ۔۔۔ یہ کمرہ دیکھو ۔۔۔ صاف ہے ؟؟"اس نے کمرے کی حالت کی طرف توجہ دلائی جسے دیکھ کر اسے صحیح معنوں میں جھٹکا لگا تھا یہ سب جازم کی کارستانی تھی
"نہیں "
"تو پھر صاف کرو کھڑی منہ کیا دیکھ رہی ہو ۔۔۔ چلو جلدی کرو آدھا گھنٹہ ہے تمہارے پاس اچھے سے صاف کرو " وہ حکم دیتا ٹی وی کی جانب متوجہ ہو گیا رخما پلک جھپکاۓ بنا اس سگندل کو دیکھتی رہی
نیا اک رشتہ پیدا کیوں کروں میں
بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کروں میں
خاموشی سے ادا ہو رسم دوری
کوئی ہنگامہ برپا کیوں کروں میں
یہ کافی ہے کہ ہم دشمن نہیں
وفاداری کا دعوی کیوں کروں میں
☆☆☆☆☆☆☆
جہانگیر صوفے پر بیٹھا فائلوں کے ڈھیر میں سر دیے الجھا ہوا تھا گاہے بگاہے نظر اٹھا کر دائیں جانب بیٹھی نوائم کوبھی دیکھ لیتا
"نکالو منہ سے باہر ۔۔۔ ورنہ ایک لگاؤں گا اب " وہ تین دفعہ اسے ناخن چبانے سے روک چکا تھا مگر چوتھی بار اس کی مسلسل یہی حرکت نے اسے تپا ڈالا جہانگیر کی تیز اور قدرے غصیلی آواز پر نوائم نے فوراً ہاتھ نیچے کیا کچھ گھنٹے قبل ہی نوائم اور جہانگیر کا نکاح ہوا تھا جہانگیر کے لاکھ اصرار پر بھی گوہر اب تک نوائم کو لینے نہ پہنچا تھا وہ پہلے ہی تپا بیٹھا تھا اوپر سے نوائم کی حرکات ۔۔۔۔
"وہ کیا ہے " اس نے دیوار پر لگی پینٹنگ کی طرف اشارہ کیا
"درخت ہیں اور کیا ہے " بڑا صاف اور سیدھا جواب تھا نوائم نے برا سا منہ بنایا
"نہیں اس کے ساتھ کیا ہے "
"آلو بخارا " جہانگیر نے فائلز سمیٹتے ہوۓ جواب دیا
"ہاہاہاہاہا ۔۔ "نوائم کے زور زور سے ہنسنے پر جہانگیر ٹھٹھکا وہ جب سے آئی تھی یہ پہلا موقع تھا کہ وہ اسے خوش دیکھ رہا تھا بے تحاشہ ہنسنے سے اس کی رنگت سرخ ہونے لگی
"کیا ہوا "جہانگیر نے بمشکل اس کے چہر ے سے نظر چراتے ہوۓ پوچھا
"آلو کو بھی بخار ہوتا ہے کیا " وہ پھرسے ہنسنے لگی تھی جہانگیر نے گہرا سانس خارج کیا
"اب یہ مت کہنا تم نے پہلے کبھی آلو بخارا نہیں دیکھا "
"ہاں سچ میں.... اسے کیا کرتے ہیں "
"کھیلتے ہیں "وہ مسکرا کر اسے چھیڑنے لگا
"سچ ؟؟"
"مچ "
"پھر مجھے بھی لاکر دیں "نئ فرمائش جاری ہوئی
"نازو "جہانگیر نے ملازمہ کو آوازدی
"دیکھو اگر فریج میں کوئی آلو بخارا ہے تو محترمہ کو لا کر دیں " کہتے ساتھ ہی وہ اٹھ گیا تھا اور پیچھے رہ گئے تھے نوائم اور اس کے آلو بخارے ۔۔۔جن کو وہ بڑے تاک تاک کر دیوارپر نشانے مار رہی تھی اور بیچاری نازو ....آنکھیں پھاڑے اس کی کاروائی ملاحظہ کر رہی تھی
"ایسے کھیلتے ہیں نا ۔۔۔۔ آؤ تم بھی کھیلو "
*#جاری_ہے*

No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.