میرے_ہم_نفس_مـرے_ہـمنوا از فریحہ_چـودھـــری قسط 31
#فریحہ_چـودھـــری ✍
#قسط_31
صبوحی نوائم کو لے کر سکندر کے روم کی طرف آئی نوائم اس کے پیچھے پیچھے چلتی آ رہی تھی دروازے پر پہنچ کر وہ رک گئ اس نے ایک نظر نوائم کو دیکھا اور ہاتھ دستک کے لیے بڑھا دیا مگر اس سے پہلے کہ ہاتھ دروازے تک پہنچتا دروازہ جھٹ سے کھل گیا سکندر کو اسے سامنے دیکھ کر شاک لگا تھا
"صبوحی ۔۔۔۔ تم ۔۔۔۔۔ میرا دل کہہ رہا تھا تم ہی آئی ہو ۔۔۔۔۔ آؤ اندر آؤ" سکندر کا چہرہ خوشی سےکھل اٹھا تھا البتہ صبوحی کے تاثرات میں کوئی فرق نہ آیا وہ نوائم کی طرف پلٹی
"نوائم ۔۔۔۔اب سے تم میری طرف سے آذاد یو ۔۔۔ یہ تمہارا باپ ہے ۔۔۔۔ اب تمہاری حیثیت کا تعین تمہارا باپ ہی کرے گا "وہ مزید کچھ نہ کہہ سکی گلے میں پھنسے آنسوؤں کے گولے کو بمشکل اندر اتارتے وہ تیز قدموں سے پلٹ گئ
" صبوحی بات سنو " سکندر اس کے پیچھے لپکا تھا مگر وہ اسکی پکاروں التجاؤں کو نظر انداز کرتی منظر سے ہٹ گئ تھی
ابر مانگوں تو مجھے_____دھوپ کی شالیں دینا
پھر میرے صبر کی دنیا کو _______ مثالیں دینا...!
☆☆☆☆☆☆☆
"حیات بھائی مجھے آپ سے ایک ...بات کرنی ہے " وقار صاحب بڑے مؤدب انداز میں مخاطب ہوۓ تھے شام کی چاۓ پر سب اکٹھے تھے سکندر اور صبوحی کے علاوہ ۔۔۔ چاۓکی ٹرالی لیے ملازمہ اندر آئی جب وقار صاحب نے بات کا آغاز کیا
"ہاں کہو " حیات صاحب مکمل متوجہ ہوۓ
" ہم سے صبوحی کے ساتھ ذیادتیاں ہوئیں ہیں یوں کہہ لیجے اس کی بربادی میں سکندر کے ساتھ ساتھ ہم بھی برابر کے حصہ دار ہیں اگر آپ نے سکندر کے لیے یہ سزا تجویز کی ہے تو ہمارےلیے کیا حکم ہے " بات ایسی تھی کہ سب کے کان کھڑے ہوۓ بالخصوص ندرت اور ماہی کے
" ہمممم .مگر..صبوحی ایسا نہیں چاہتی اس نے مجھ سے خود بات کی ہے کل رات نوائم کو بھی سکندرکے پاس چھوڑ گئ ۔۔۔"
"مگر ہم سب قصوروار ہیں میں... ماہی اور ندرت ۔۔۔۔میں نگاہیں نہیں ملا پاتا اس سے ۔۔۔ کتنا بدنصیب بھائی ہوں زمانے کے سردگرم سے نہ بچا سکا اسے " بات کرتے کرتے وہ یکدم خاموش ہوا تھا ماہی اور ندرت نے ناگواری سے پہلو بدلا
"اسے اس حویلی میں اس کا کھویا ہوامقام ملنا چاہئے بھائی صاحب ۔۔۔۔ کچھ بھی کریں مگر اسے پھر سے زندگی کی طرف لے آئیں اگر وہ سکندر کو معاف کر چکی ہے تو سکندر بھی ازالے کی کوشش کرے " وہ ابھی بات کر ہی رہے تھے جب ملازمہ ہانپتی کانپتی اندر داخل ہوئی
ْ"صاحب جی ۔۔۔۔ وہ صبوحی "وہ اٹکی تھی " صبوحی بی بی کا دروازہ صبح سے بند ہے ابھی بھی نہیں کھول رہیں "
☆☆☆☆☆☆☆
نواب ولا میں اس وقت خاموشی چھائی ہوئی تھی صبوحی نے خود کشی کی کوشش کی تھی اس کے اس عمل نے سکندر کو ایک بار پھر ندامت کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا تھا اس وقت نواب ولا میں صرف نوائم اور حرب ہی موجود تھے مقیت اور ریجا ایک دن پہلے ہی اسلام آباد کی طرف نکلے تھے ماہی اور ندرت کو بھی مارے بندھے ہسپتال جانا پڑا تھا ادینہ اور شہرینہ صبح کی غائب تھیں انامتہ یونیورسٹی جبکہ مغیث آفس تھا حرب عون کا فیڈر بنا رہی تھی جب نوائم کچن کی طرف آئی آہٹ پر حرب نے پلٹ کر دیکھا نوائم کو دروازے میں ایستادہ دیکھ کر وہ خوش اخلاقی سے مسکرا دی
"آؤ ۔۔۔ آؤ وہاں کیوں رک گئیں ۔۔۔۔ کچھ چاہئے تھا کیا ؟؟" وہ اس کی معصوم صورت پر پھیلی پریشانی کی لکیریں دیکھ کر کہنے لگی
"وہ ۔۔۔ میری ۔۔۔ امی " اس نے رات سے صبوحی کو نہ دیکھا تھایقینا وہ پریشان تھی حرب نے نرمی سے مسکرا کر اس کا ہاتھ تھاما
" وہ ابھی آ جائیں گی ۔۔۔ فکر مت کرو۔۔۔ ہوں ....تم یہیں رکو میں عون کو دیکھ آؤں پھر دونوں مل کر کھانا کھائیں گے " حرب یہ کہہ کر کچن سے نکل گئ نوائم کو وہیں کھڑے ابھی چند لمحے ہی گزرے تھے جب اسے اپنے ساتھ کسی کی موجودگی کا احساس ہوا وہ پلٹی تو سامنے فابیان کو کھڑا دیکھ کر سہم گئ
" کب سے ڈھونڈ رہا ہوں تمہیں ۔۔۔۔ اور تم یہاں ہو " وہ آنکھوں میں چمک لیے بغور اسے دیکھ رہا تھا نوائم کی طرف سے کوئی جواب نا پاکر وہ آگے بڑھا اورایک جھٹکے سے اس کا بازو پکڑ لیا
"بس بہت ہو گیا یہ کھیل تماشہ۔۔۔ سیدھی بات تو تمہاری ماں کو سمجھ نہ آئی تھی ورنہ مجبوراً مجھے یہ قدم نہ اٹھانا پڑتا ۔۔۔۔۔ اسے کیا لگا تھا وہ تمہیں مجھ سے بچا لے گی ۔۔۔۔۔ " وہ بولے چلے جا رہا تھا یہ جانے بغیر کہ اس کی باتیں نوائم کے پلے پڑ بھی رہی ہیں یا نہیں نوائم کے آنسوؤں کو بے دردی سے صاف کرتے اس نے مسکراہٹ لبوں پر سجا لی
"نہ نہ میری جان رونا نہیں ۔۔۔۔ چلو چلیں ۔۔۔ تمہیں سیر کرواؤں ۔۔۔ آؤ" وہ اس کا بازو کھینچتا اسے باہر لے آیا حرب عون کو تھامے نیچے آئی تو سامنے کا تماشہ دیکھ کر ٹھٹھک گئ
"یہ کیا کر رہے ہو فابی " اسے روتی خوفزدہ سی نوائم کا بازو کھینچتے دیکھ کر حرب کو انہونی کا احساس ہوا تھا تبھی فوراً سامنے آگئ
"ہٹو پیچھے سامنے مت آنا " فابیان پھنکارا تھا
" آج میں بتاؤں گا انکار کیسے کرتے ہیں " اسنے ہنوز راستے میں دیوار بنی حرب کو زوردار دھکا دیا وہ لڑکھڑا کر صوفے پر جا گری عون اس افتاد پر بوکھلا کر رونے لگا ۔۔۔۔ فابیان ایک لمحہ ضائع کیے بغیر تیزی سے اسے لیے باہر کی جانب بڑھنے لگا وہ بے جان مورت کی مانند اس کے ساتھ گھسيٹتی چلی جارہی تھی اس کے پلان کے مطابق گاڑی گیٹ سے باہر ہی موجود تھی
" ہم ہاسپٹل جا رہے ہیں کوئی پوچھے تو بتا دینا اوکے " اس نے چوکیدار کو مطلع کیا جس نے تابعداری سے سر ہلا دیا سچویشن ہی ایسی تھی کہ کسی کو اس پر شک نہیں ہو سکتا تھا فابیان اپنے پلان کی کامیابی پر سرشار سا آگے بڑھا اوردروازہ کھولنے لگا جب ایک تیز رفتا کار اس کے برابر میں آ کر رکی اس نے جھٹکے سے پلٹ کر دیکھا مغیث کو اترتے دیکھ کر اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں ہڑبڑاہٹ میں اس کے ہاتھ سے نوائم کا بازو چھوٹ گیا
" کہاں جا رہے ہو تم لوگ " مغیث نے دونوں کو دیکھتے ہوۓ سوال کیا نوائم غیرارادی طور پر پیچھے کو کھسکنے لگی اس سے پہلے کہ فابیان کوئی بہانہ گھڑتا چوکیدار لپک کر اس کی طرف آیا
" صاحب جی ۔۔۔ اندر چھوٹی بی بی بے ہوش پڑی ہیں اور عون بابا بھی روۓ جا رہے ہیں " اس نےایک ہی سانس میں بات پوری کی مغیث سرعت سے اندر کی طرف بھاگا فابیان نے بےساختہ شکر کا سانس لیا اور رخ موڑ کر نوائم کو دیکھنے لگا اس نے نوائم کی تلاش میں ادھر ادھر نظر دوڑائی اسے کہیں ناپاکر اپنے سر پر ہاتھ مارا " اوہ شٹ "
☆☆☆☆☆☆☆
"آر یو اوکے " مغیث لپک کر حرب کی طرف آیا جو ماتھے کی چوٹ سہلاتے عون کو سنبھال رہی تھی
" ہاں میں ٹھیک ہوں ۔۔۔ آپ نے فابیان کو دیکھا وہ نوائم کو زبردستی لے گیا ہے " وہ تیزی سے مغیث کی طرف آئی اور ایک ہی سانس میں کہنے لگی
" کیا کہہ رہی ہو ۔۔۔۔ وہ دونوں تو ابھی باہر ۔۔۔۔ "کہتے کہتے وہ رک گیا بات سمجھ میں آتے ہی وہ الٹے قدموں واپس پلٹا تھا
☆☆☆☆☆☆☆
نوائم بازو چھڑاتے بھاگ نکلی تھی بھاگتے بھاگتے وہ بہت دور نکل آئی تھی اسے اس بات کا احساس تک بھی نہ ہوا اس نے رک کر ادھر ادھر نظر دوڑائی ہر چیز اسے حیران پر حیران کیے دے رہی تھی سڑک پر تیز رفتاری سے دوڑتیں گاڑیاں ۔۔۔۔ لوگوں کا ہجوم ۔۔۔ دکانیں ۔۔۔ گھر ۔۔ سب اس کے لیے عجیب تھا بلکہ عجیب وغریب ۔۔۔ وہ زندگی میں پہلی بار گھر سے نکلی تھی پہلی بار وہ سب دیکھ رہی تھی کہاں ایک بند کمرے میں گزرے 20 سال اور اب یہ کھلی فضا وہ جھوم اٹھی اس کے چہرے پر بچوں کاسا اشتیاق تھا پھر اچانک اس کا ذہن عقب سے آتی آواز کی جانب چلاگیا اس نے چہرہ موڑ کر اپنے پیچھے بنی عمارت کو دیکھا وہ شاید کوئی دربار تھا جہاں لوگوں کا بڑا ہجوم تھا وہ نظریں سامنے جماۓ الٹے قدم چلنے لگی مگر جلد ہی اسےرکنا پڑا وہ پیچھے کسی سخت شے سے ٹکرائی تھی اس نے سرعت سے پلٹ کر دیکھا وہ سخت شے نئ چمکتی مرسڈیز تھی اس کے چہرے پر خوشی کے رنگ اترے تھے وہ بے ساختہ خوشی سے اچھلی
"ہاۓ یہ کتنی بڑی ہے امی نے تو مجھےچھوٹی سی دلائی تھی "اس نے شیشوں پر ہاتھ پھیرنا شروع کیا
"کون ہو تم کیا کر رہی ہو یہ " قریب سے آتی بھاری مردانہ آواز پر وہ اچھل پڑی
"جی " اس نے سہمی سی آواز میں کہہ کر نظر اٹھا کر سامنے دیکھا جہاں ایک لمبا چوڑا شخص آنکھوں پر گلاسز لگاۓ ہاتھ میں موبائل پکڑے اسے ہی دیکھ رہا تھا
"کیا کر رہی "کون ہو تم... یہ کیا کر رہی ہو "قریب سے آتی مردانہ بھاری آواز پر وہ اچھل پڑی
"جی" اسنے سہمی سی نگاہ اٹھا کر سامنے دیکھا جہاں ایک لمبا چوڑا شخص آنکھوں میں گلاسز لگاۓ بغور اسے دیکھ رہا تھا دائیں ہاتھ میں موبائل اور چابیاں دبی تھیں نوائم پر نظر پڑتے ہی شاید وہ چونکا تھا لب کپکپاۓ تھے اور آنکھوں میں استعجاب در آیا تھا
"کیا کر رہی ہو یہاں" اب کے سوال مختلف تھا شاید وہ تاثرات پر قابو پا گیا تھا
"یہ میری گاڑی ہے جو تم لے گے تھے ہے نا مجھے امی نے دلائ تھی" وہ پھولے پھولے گالوں کے ساتھ کہتی مقابل کو ورطہ حیرت میں ڈال گئ تھی ساتھ ہی آنکھیں نکال کر اسے گھورنے لگی
"اسکا ریموٹ کہاں ہے" اسنے ریموٹ کی تلاش میں ادھر اھر دیکھا موبائل پر نظر پڑتے ہی اسکی آنکوں میں چک بڑھ گئ
"ادھردو میں چلاوں گی" اسنے جھپٹنے کےانداز میں موبائل کھینچا مقابل کا منہ کھل گیا
"مگر اس پر تو کوئ بٹن نہیں ہے" اعتراض کا نیا نقطہ اٹھایا گیا
" یہ موبائل ہے بے وقوف" اسکے تپ کر کہنے پر نوائم نے غصیلی نگاہ اس پر ڈالی اور موبائل زمین پر دے مارا" تم نے ریموٹ خراب کر دیا میں امی کو بتاوں گی"
وہ بڑی بڑی آنکھوں سے بہتے جھڑنے کو پونجھتی سڑک کے عین وسط میں جا کھڑی ہوئی اجنبی کے چہرے پر غصے کی سرخی چھا گئ اس سے پہلے کہ وہ تیز رفتار کار کے نیچے آ کر کچلی جاتی اس نے بے حد سختی سے اس کا بازو دبوچا اور اپنی طرف کھینچ لیا
☆☆☆☆☆☆☆
رات کے ساۓ گہرے ہو چلے تھے وہ سگريٹ سلگاۓ سڑک کے عین درمیان میں گاڑی سے ٹیک لگاۓ کھڑا تھا خود سے بھی بیگانہ وہ سامنے درخت پر نظریں گاڑے کسی غیر مرئی نقطے پر سوچ بچار کر رہا تھا تبھی سامنے سے آتی سفید کار عین اس کی کار کے پیچھے آ رکی دروازہ کھلنے کی آواز پر بھی اس نے پلٹنے کی کوشش نہ کی البتہ تیز نسوانی آواز پر محض نظروں کا زاویہ بدلا گیا
"کیا مسئلہ ہے گاڑی کیوں روکی " لڑکی بلند آواز میں چیخی تھی ڈرائیور نے بغیر جواب دہے اس کی طرف کا دروازہ کھول دیا وہ نا سمجھی سے اسے دیکھنے لگی
"میڈم آپ کو اترنا ہو گا ۔۔۔ صاحب نے دوسری گاڑی بھیجی ہے آپ اس میں جائیں گی کیوں کہ مجھے ارجنٹ واپس جانا ہے " وہ مؤدب ساجواب دے رہا تھاوہ سمجھنے کے انداز میں سر ہلا کر بیگ اور کتابیں سمیٹتی باہر نکل آئی اس کے نکلتے ہی ڈرائیور زن سے گاڑی بھگا لے گیا وہ حجاب درست کرتی بیگ کندھے پر لٹکاتی جازم کے قریب آئی
"اب کھڑے کیوں ہو چلنا نہیں کیا " اس نےتیکھی نظروں سے اسے دیکھتے حکمیہ انداز اختیار کیا جازم نے سگريٹ کا آخری کش لگا کر دور اچھالا اور ہاتھ جھاڑ کر پینٹ کی جیب میں ٹھونستا اس کی طرف پلٹا
"کیوں نہیں بالکل ۔۔۔۔چلتے ہیں " وہ کھل کر مسکرایا تھا ساتھ ہی نظریں اسکے وجود پر گاڑ دیں وہ گڑبڑا گئ بلیک اور گرے کلر کی جینز شرٹ میں بکھرے بالوں اور سرخ آنکھوں سے گھورتا وہ اندر ہی اندر اسے خوفزدہ کر گیا اسکی آنکھوں میں استعجاب در آیا
"تمہیں تو میں نے کہیں دیکھا ہے "لڑکی نے گہری نگاہوں سے اس کا مشاہدہ کیا تھا
"ضرور دیکھا ہو گا " جازم نے اسی کے اندازمیں جواب دیا وہ مزید حیران ہوئی
"مگر کہاں "
"یہ تو میں تمہیں راستے میں بتاؤں گا آؤ" وہ اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتا اپنی طرف کا دروازہ کھولنے لگا
"لیکن میں تمہارے ساتھ کیوں جاؤں " وہ تڑخ کر بولی جازم نے ہاتھ روک کر اسے دیکھا
"کیوں کہ میں تمہیں لے جانا چاہتا ہوں " الفاظ سادہ جب کہ انداز عجیب تھا
"میں تمہارے ساتھ ہرگز نہیں جاؤں گی " وہ دو ٹوک انکار کر کہ واپس پلٹنے لگی جب جازم نے سرعت سے آگے بڑھ کر اس کے حجاب کا ایک کونہ تھام لیا اس کے جسم میں سنسی دوڑ گئ مگر جازم کے اگلے الفاظ نے اسے حق دق کر دیا
"تمہاری بہن نے تو کبھی انکار نہ کیا تھا مس رُخما زمان " گہری نگاہوں سے اسے تکتا چہرہ اسکے قریب کرتے ہوۓ گویا پھنکارا تھا بلیک حجاب سر پر لیے سادہ شلوار قميض میں ملبوس جس کے چہرےپر میک اپ کے نام پر صرف کاجل اور لپ اسٹک تھی اسے حیرانی سے دوچار کر گئ تھی
"کتنی مختلف ہو تم فاریہ سے ۔۔۔۔ کیا اس سے کچھ سیکھا نہیں تم "اس کے انداز نے رُخما کو سلگا دیا تھا اس نے درشتی سے اس کے ہاتھ جھٹک ڈالے اور دو قدم پیچھے ہٹی
"تم ہمیں کیسے جانتے ہو "
"یہ تمہیں تفصیل سے بتاؤں گا آؤ تمہیں گھر ڈراپ کر دوں تمہارے بھائی صاحب پریشان ہوں گے "اب کے انداز نرمی لیےہوۓ تھا
"کیا تمہیں بھائی نے بھیجا ہے " اک اور سوال پر جازم نے گہرا سانس بھر کر ہاتھ بالوں میں پھیرا
"اف کتنے سوال کرتی ہو تم ۔۔۔۔ کہا نا بتاؤں گا آؤ میرے ساتھ" اس نے کہتے ساتھ ہی رُخما کا بازو تھاما اور اسے زبردستی گاڑی کے اندر دھکیل کر ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی
__________
"کہاں ہے نوائم ۔۔۔۔ بتاؤ مجھے کدھر چلی گئ وہ " صبوحی نے گھر آتے ہی سب سے پہلے نوائم کا پوچھا تھا مگر جواب میں جو کچھ اسے سننے کو ملا وہ اس کے ہوش و حواس گم کرنے کو کافی تھاادینہ ان کے حیرت اور بے یقینی سے کھلے منہ سے بے نیاز زہر اگلنے میں مصروف تھی
"بھاگ گئ آپ کی وہ پاکیزہ سات پردوں میں رہنے والی بیٹی ۔۔۔۔چچ چچ ۔۔۔۔ کتنا پہرہ دیا کتنا چھپایا دنیا سے مگر پھر بھی فطرت کون بدل سکتا ہے ۔۔۔۔ آخر نکلی نا ماں جیسی ۔۔۔۔ بالکل اسی کی طرح ۔۔۔"
"چٹاخ " تیز گونجتی آواز پر پل بھر میں کمرے میں سناٹا چھا گیا ادینہ نے حیرت سے اپنے سامنے غیض و غضب کے طوفان بنے سکندر کو دیکھا
"سیدھی طرح بتاؤ نوائم کہاں ہے " الفاظ سے ذیادہ لہجے کی سختی کا اثر تھا کہ ادینہ چاہ کر بھی مزید ایک لفظ منہ سے نہ نکال پائی "بولو " وہ گرجے تھے ادینہ سہم کر ایک قدم پیچھے ہٹی تھی
"میں بتاتی ہوں انکل "آواز عقب سے آئی تھی جو یقیناً حرب کی تھی سب بے اختیار پلٹے
" اسے فابیان زبردستی اپنے ساتھ لے گیاہے " خبر تھی یا دھماکہ صبوحی کو چھت سر پر گرتی محسوس ہوئی
"نہیں ایسا نہیں ہو سکتا کہہ دو یہ جھوٹ ہے " وہ تڑپ کر بولیں تھیں آنسو بے اختیار ہی ان کے گال بھگونے لگے
"ارے شرم نہیں آتی تجھے میرے بیٹے پر الزام لگاتے ہوۓ "ندرت فوراً اپنے بیٹے کی پردہ پوشی کو آگے بڑھی
"اگر سچ میں ایسا ہوا تو میں زندہ نہیں چھوڑوں گا اسے " سکندر کے تیور خطرناک تھے وہ ندرت پر ایک تلخ نگاہ ڈالتے تیزی سے باہر کی جانب بڑھے
☆☆☆☆☆☆☆
نوائم نے مندی مندی آنکھیں کھول کراپنے اطراف میں نگاہ دوڑائی کمرہ کشادہ اور روشن تھا جس کی ہر شے سفید تھی ماسواۓ فرنیچر کے ۔۔۔۔ وہ خود جس بیڈ پر موجودتھی اس کی چادر بھی سفید تھی اور کمبل .. اس نے اپنے اوپر کمبل کو چھوا
"اوہ یہ بھی وائٹ ہے "وہ چہکی تھی اسے آہٹ کا احساس ہوا قدموں کی آواز قریب آنے پر وہ پھرتی سے اٹھ بیٹھی
"آر یو اوکے " مقابل نے کرسی بیڈ کے قریب رکھتے ہوۓ پوچھا
"جی "وہ ہونقوں کی طرح اس کی شکل دیکھنے لگی سامنے والے نے قدرے چونک کر اس کے "جی "کو سنا تھا
"ارے تم اتنا ڈر کیوں رہی ہو ۔۔۔ بے فکر رہو میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا بس کچھ سوال جواب کروں گا اور پھر تمہیں واپس چھوڑ آؤں گا ۔۔۔ ہوں "وہ بڑے نرم لہجے میں ٹھہر ٹھہر کر بول رہا تھا
"کہاں چھوڑ آئیں گے "
"تمہارے گھر "
"کونسے گھر " پھر سے سوال کیا گیا
"ارے تمہارے گھر جہاں تم رہتی ہو " اسے تعجب ہوا
"میں کہاں رہتی ہوں "
"یہ تو تم بتاؤ "
"کیا بتاؤں "
"تمہارا گھر کہاں ہے "
"پتہ نہیں "
"پتہ نہیں ؟؟کیا تم پاگل ہو "اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں الجھن در آئی
"نہیں میں نوائم ہوں "اتنی معصومیت سے جواب دیا گیا کہ وہ چند لمحے یک ٹک اس کا چہرہ دیکھے گیا
"اچھا تو تمہارا نام نوائم ہے ؟؟؟"
"جی "اس نے زور سے سر اثبات میں ہلایا
"اور یہ نہیں پتہ کہ تمہارا گھر کہاں ہے ؟؟؟"
"نہیں "
"یہ بھی نہیں پتہ کہاں سے آئی ہو ؟؟"
"نہیں "
"یہ بھی نہیں پتہ تمہارے والد کا نام کیا ہے ؟؟؟"
"نہیں "
"والدہ کا نام "
"نہیں "
"بہن یا بھائی کا نام "
"نہیں "
"کسی دوست کا نام "
"نہیں "
"نہیں نہیں کیا رٹ لگا رکھی ہے تم نے ۔۔۔ مجھے پاگل بنا رہی ہو "وہ بھنا اٹھا اس کی نہیں نہیں کی تکرار نے اسے اچھا خاصہ جھنجھلا ڈالا تھا اس کے یوں چیخ کر اٹھنے سے نوائم تھر تھر کانپنے لگی مگر وہ اس سے بے نیاز بولے جا رہا تھا
"اتنی چھوٹی بچی ہرگز نہیں ہو تم کہ ہر شے سے انجان بن جاؤ ۔۔۔ میں صاف صاف بتا رہا ہوں کہ ایسی کہانیوں میں الجھا کر مجھے ٹریپ کرنے کی کوشش ہرگز فائدہ مند نہ ہو گی ۔۔۔ چلو اٹھو دو منٹ میں باہر آؤ ۔۔۔ ورنہ مجھ سے برا کوئی نہ ہو گا "وہ انگلی اٹھا کر بڑے جارہانہ انداز میں اسے وارن کر رہا تھا بے حد غصے میں کرسی کو پاؤں سے ٹھوکر مارتا اسے پیچھے آنے کا اشارہ کرتا باہر نکل گیا ڈری سہمی ہانپتی کانپتی نوائم بھی اس کی تقلید میں چل پڑی
☆☆☆☆☆☆☆
"یہ کہاں لے آۓ ہو تم مجھے " راستے بھر جازم نے اس کی آہ و بکا پر کان نہ دھرے تھے مگر اب گاڑی قدرے سنسان علاقے میں روکتے ہوۓ وہ مکمل اس کی طرف گھوم گیا
"اب تم یہیں رہو گی ۔۔۔ جب تک میں چاہوں گا ۔۔۔ ہوں ۔۔۔ چلو اترو شاباش" وہ بڑے محبت بھرے انداز میں اس کے گال چھوتا کہہ رہا تھا وہ سرعت سے پیچھے ہٹی ساتھ ہی اس کے ہاتھ بھی جھٹک ڈالے جازم ہنس دیا
"تم مجھے جانتے نہیں ہو میں تمہیں ۔۔
"ارے بس بس ۔۔۔ ذیادہ رعب مت ڈالنا ۔۔۔۔ میں تمہیں واقع ہی نہیں جانتا ۔۔۔ مگر اب جان جاؤں گا "وہ پھر سے مسکرا دیا بڑی طمانیت سے جیسے کوئی معرکہ سرانجام دیا ہو
"چلو باقی باتیں بعد میں " اس کا انداز ایسا تھا جیسے دونوں میں بہت گہرا تعلق ہو رخما کی آنکھیں پھر سے برسنے لگیں اسے ٹس سے مس نہ ہوتا دیکھ کر جازم کے تاثرات فوراً بدلے تھے وہ گاڑی سے اتر کر اس کی طرف آیا اور مضبوطی سے کلائی تھام کر باہر گھسیٹ لیا رخما کی چیخ نکل گئ وہ بغیر کان دھرے اسے یونہی گھسیٹتا اندر کی طرف بڑھ گیا
☆☆☆
"کیا کررہی ہو "مغیث نے کچن کی دیوار سے ٹیک لگا کر حرب کو دیکھتے سوال کیا جو بڑی پھرتی سے کام نمٹا رہی تھی
"نظر نہیں آ رہا کام کر رہی ہوں "جواب حسب توقع تھا مغیث مبہم سا مسکرایا
"میں بھی مدد کروں " اپنی طرف سے بڑی پیشکش کی تھی مگر حرب کے مطمئن انداز میں دیے جواب نے اسے گڑبڑانے ہر مجبور کر دیا
"ضرور ۔۔۔ ذرا یہاں آئیں اور سنک میں پڑے برتن اچھی طرح دھوئیں خیال رہے گندگی باقی نہ رہے "اسے منہ کھولا دیکھ کر وہ چہرہ موڑ کر مسکراتی اسے اندر تک جلا گئ اس نے تیزی سے منہ بند کیا
"برتن دھونا کون سا مشکل کام ہے " اندر ہی اندر جلتے بھنتے اس نے بظاہر بڑے تحمل کا مظاہرہ کیا تھا ساتھ ہی آستینیں چڑھا لیں
"تو پھر دیر کس بات کی ہے " مقابل بھی حرب تھی آزمائش پر تلی ہوئی
"سوچ لو تمہیں معاوضہ دینا ہو گا وہ بھی منہ مانگا " وہ ایک آنکھ میچ کر مسکراتا اسے رخ موڑنے پر مجبور کر گیا اس کے ہاتھوں میں پیدا ہوتی لرزش اس کی نظروں سے پوشیدہ نہ رہ سکی تھی قدموں کی آہٹ پر وہ مسکراتا ہوا دروازے سے ہٹ گیا
☆☆☆☆☆☆☆
نوائم فرنٹ سیٹ پر بیٹھی خوفزدہ نظروں سے اس اجنبی کے چہرے کو تکے جا رہی تھی جو سختی سے لب بھینچے مکمل توجہ ڈرائونگ پر ملحوظ کیے یوۓ تھا
"آپ مجھے کہاں لے جا رہے ہیں " اس نے بے حد دھیمی آواز میں رک رک کر پوچھا جواب ندارد چند منٹ کی خاموشی کے بعد گاڑی میں مدھم مدھم سی ہچکیوں کی آواز گونجنے لگی کچھ ہی دیر میں وہ بلند آواز رونے لگی تھی گاڑی جھٹکے سے رکی وہ گلاسز اتارتا سرعت سے رخ موڑ کر اسے دیکھنے لگا جو دونوں ہاتھوں سے چہرہ چھپاۓ رونے میں مشغول تھی
" کیا مسئلہ ہے تمہیں کیوں رو رہی ہو " اس کی رعب دار بھاری آواز پر بھی نوائم کے رونے میں کوئی کمی نہ آئی وہ گہری سانس بھرتا مکمل اس کی طرف گھوم گیا
"سنو ۔۔۔۔ ادھر دیکھو میری طرف " وہ نرمی سے اس کا ہاتھ ہٹاتا محبت سے چور لہجے میں کہہ رہا تھا نوائم نے رک کر اس کاچہرہ دیکھا
"دیکھ رہی ہوں " فرمانبرداری کا مظاہرہ کیا گیا مقابل کے ہونٹوں پر بڑی دلنشین سی اجلی شفاف مسکراہٹ اتری اس کے ہاتھوں کو نرمی سے دباتا پھر سے پوچھنے لگا
"کیوں رو رہی ہو "
"مجھے وہاں نہیں جانا ۔۔۔ امی ماریں گی " وہ معصومیت سے کہتی اسے شدید حیرانی سے دوچار کر گئ تھی زندگی میں پہلی بار اسکا ایسی کسی لڑکی سے واسطہ پڑا تھا بے حد معصوم اور بھولی بھالی بے ضرر سی کانچ کی گڑیا وہ کتنےہی ثانیے پلک جھپکاۓ بغیر اسے دیکھے گیا
"تو پھر کہاں جانا ہے " سر جھٹکتا وہ دوبارہ سے اسکی طرف متوجہ ہوا نوائم نے ہاتھ اسکی گرفت سے نکالے اور سر پر رکھ لیے آنکھوں کو اوپر نیچے گھماتے وہ چند لمحے جواب سوچتی رہی جب بولی تو مقابل کو گنگ کر گئی
"میں اسی گاڑی میں رہوں گی " وہ چاروں طرف گھوم کر دیکھتی اسے امتحان میں ڈال گئ تھی بے حد پریکٹیکل لائف گزارنے والا آج عشق کے پائیدان پر کھڑا تمکنت سے ایستادہ محبت کے سامنے چاروں شانے چت ہو چکا تھا وہ ہار گیا تھا ہاں بالکل..... جہانگیر شاہ ہار گیا تھاایک تھکن زدہ سانس لبوں سے خارج کرتے اس نے گاڑی واپسی کے لیے موڑ لی
*#جاری_ہے*

No comments: