
میرے_ہم_نفس_مـرے_ہـمنوا از فریحہ_چـودھـــری قسط 3
میرے_ہم_نفس_میـرے_ہـمنوا
فریحہ_چــــودھـــری ✍
#میرے_ہـم_نفس_میـرے_ہمنوا
#فریحہ_چــــودھـــری ✍
#قسط_3
"اے ایس پی گوہر درٙانی آن ڈیوٹی ہیں ؟؟"کرسی پر بیٹھٹتے ہی ایس پی جہانگیر شاہ نے اپنے ماتحت سے پوچھا
"یس سر"
"اوکے انہیں بھیجھیں "ایک سرسری سی نگاہ انسپیکٹر خرم پر ڈال کر کہتا وہ فائل کی جانب متوجہ ہوگیا
" اوکے سر " خرم سلیوٹ کرتا باہر نکل گیا چند لمحے بے دھیانی سے صفحے پلٹنے کے بعد اسنے فائل بند کردی خود کو ڈھیلا چھوڑ کر اسنے کرسی کی پشت سے سر ٹکایا اور پلکیں موند لیں
ماضی کے جھرونکوں سے جھانکتا ایک تکلیف دہ منظر اسے پھر سے غافل کر گیا
"جوجو مجھے آپ کو کچھ بتانا ہے بیٹا "بابا نے پیار سے اسکی پیشانی چومتے ہوئے کہا
"جی بابا " وہ خوش ہوتا ان کے ساتھ سیڑھیوں پر بیٹھ گیا
"لیکن آپ کو مجھ سے دو وعدے کرنا ہیں جوجو پکے والے وعدے " وہ اسکے سامنے اپنی چوڑی پیشانی پھیلاتے ہوئے بولے
"اور آپ کو پتہ ہے نا پکا والا وعدہ وہ ہوتا ہے جو کبھی نہیں ٹوٹتا کسی بھی حال میں نہیں
"جی بابا " اس نے تابعداری سے سر ہلاتے ہوئے اپنا ننھا ہاتھ ان کی ہتھیلی ہر رکھ دیا وہ اس کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر کافی دیر سوچتے رہے جیسے لفظوں کو ترتیب دے رہے ہوں اور پھر مسکرا کر اسکی طرف دیکھنے لگے
"آپ تو میرے بہت بہادر بیٹے ہیں نا "
"جی بابا "وہ معصومیت سے بولا
"آپ وعدہ کریں جوجو آپ جازم کا بہت خیال رکھیں گے اسے کبھی نہیں بتائیں گے کہ وہ ـ
کسی کے سختی سے جھنجھوڑنے پر اس نے جھٹکے سے آنکھیں کھولیں
غائب دماغی سے آنکھیں ملتےاسنے ادھر اُدھر دیکھ کر ماحول کو سمجھنے کی کوشش کی وہ منظر غائب ہو چکا تھا اسکی دائیں طرف گوہر کھڑا تھا اور تشویش زدہ نظروں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا خود کو کمپوز کرتا وہ سیدھا ہو بیٹھا
"کیا ہوا یار طبیعت تو ٹھیک ہے نا " گوہر نے پریشانی سے پوچھا
"آ..ہاں میں ....شاید سو گیا تھا رات بھر سو نہیں سکا نہ توـ ـ ـ "اس نے بہانہ بنایا
"کیوں رات کو کیوں نہیں سوۓ ؟" اس نے بغور اسے دیکھتے ہوئے پھر سے پوچھا جہانگیر کو نظریں چرانی پڑیں وہ اپنا آپ کسی پر ظاہر نہیں کرنا چاہتاتھا
"ارے کچھ نہیں میری ماں آؤ بیٹھو "وہ اب خود کو سنبھال چکا تھا تبھی ہلکے پھلکے انداز میں بولا
گوہر تیکھی نظروں سے اسے گھورتا کرسی پر جا بیٹھا اس سے پہلے کہ وہ مزید تفتیش کرتا جہانگیر نے گفتگو کا رُخ بدل دیا
"اچھا بتاؤ اُس کیس کا کیا بنا "اس نے فائل کھول کر اپنے سامنے کر لی
" ٢ دن پہلے وہاں پھر سے وہی واقع ہوا ٣ لوگ غائب ہیں رات کے اندھیرے میں زبردستی گھروں سے اٹھائے گئے ہیں تم سے رابطہ نہیں ہو پا رہا تھا اس لیے بتا نہ سکا "گوہر کے تفصیلی جواب پر اسے جھٹکا لگا
"واٹ ؟؟اتنی سخت سیکورٹی کے باوجود ؟" وہ ازحد حیران ہوا
"ہاں یہی بات تو سب سے زیادہ قابلِ تفتیش ہے ان کی پلاننگ بہت secure ہے یوں لگتا ہے جیسے اس گروہ کا سرغنہ بہت ہی ماسٹر مائنڈ انسان ہوـ"
"ہوں ـ ـ ـ " جہانگیر دونوں کہنیاں میز پر ٹکا کر آگے کو جھکا اور ہاتھ تھوڑی پر رکھ کر کچھ سوچتے ہوئے بولا
"تم جائے وقوع پر گۓ کوئی سراغ ملا ؟
"ہاں کل گیا تھا وہاں کوئی کچھ بھی نہیں جانتا اس بارے میں اور جو تین ماہ پہلے بدقسمتی سے ان ظالموں کے ہاتھ لگے تھے ان کے گوشت کے ٹکڑے دس دن پہلے مقامی لوگوں کو جھیل کے کنارے ملے ہیں "گوہر نے جھرجھری لے کر بتایا جہانگیر کی ماتھے کی سلوٹوں میں یکدم اضافہ ہوا
"تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو کہ وہ ٹکڑے انہی لوگوں کے ہیں ؟؟" اس نے ایک اور نقطہ اٹھایا
"ارے میرے بھائی وہ یہ سب بہت ہی کوئی باقاعدہ پلاننگ سے کر رہے ہیں مختلف پیکٹس میں بند ان کے ٹکڑوں پر ان کا نام تک لکھے ہوئے تھے بہت شاطر کھلاڑی ہے جو بھی ہے "
"تم تو اچھا خاصہ امپریس ہو چکے ہو اس سے "جہانگیر نے اسے گھور جواباً وہ مسکرایا
"امپریس نہیں ہوں یار پر پتا نہیں مجھے کیوں لگتا ہے وہ جلد ہی دوبارہ پھر سے کوئی ایسی کوشش کرے گا "
وہ سنجیدہ تھا مگر جہانگیر کی مشکوک نظروں سے خائف ہوتا فورًا ہاتھ اٹھا کر دفاعی اندز میں بولا
"اب یوں کیوں گھور رہے ہو ؟ سچ میں میرا کوئی تعلق نہیں اس گروہ سے "
اس کے انداز پر جہانگیر کو ہنسی تو بہت آئی مگر وہ اتنی سیریس ڈیسکشن کے دوران ہنس نہیں سکتا تھا یونہی سنجیدہ نظروں سے اسے دیکھتا رہا
"ویسے مغیث ٹھیک کہتا ہے "گوہر کے لہجے میں خفگی تھی
"کیا کہتا ہے مغیث ؟؟" مغیث کے ذکر پر اسے انجانی سی خوشی ہوئی
"یہی کہ محترم جہانگیر علی شاہ زبان کی بجائے آنکھوں سے بات کرنے میں حددرجہ مہارت رکھتے ہیں "گوہر نے اسکے الفاظ اسی کے انداز میں دہرائے تو وہ کوشش کے باوجود اپنی مسکراہٹ نہ روک سکا
"چلو اب سیریس ہو جاؤ یہ مشکل اور مختلف کیس اگر ہمیں دیا گیا ہے تو اس پر سنجیدگی سے پلان کر کے ہمیں ہر حال میں مجرموں تک پہنچنا ہے میں کچھ سوچتا ہوں تم یوں کرو سیکیورٹی مزید سخت کر دو اور مجھے پل پل کی رپورٹ دو ... مجرم چاہے جتنا بھی شاطر ہو قانون کے ہاتھ سے نہیں بچ سکتا " اس کا لہجہ بے حد سخت تھا گوہر سر ہلاتا باہر نکل گیا
★★★★★★★★
"کتنی دیر سے انتظار کر رہی ہوں تمہار کہاں رہ گئی تھی تم ؟؟ " وہ اسے دیکھتے ہی برس پڑی حُرب کھلکھلا کر ہنس پڑی
"ارے کیا ہو گیا یار؟؟" اس نے غوزہ کی سرخ ہوتی ناک کھینچی
"ہاتھ ہٹاؤ " وہ اس کا ہاتھ جھٹک کر بینچ پر بیٹھ گئی حُرب بغور اسے دیکھنے لگی چاکلیٹ کلر کی لمبی فراک وائٹ پاجامے میں چاکلیٹ ہی کلر کا حجاب لیے ڈوپٹہ شانوں پر پھیلاۓوہ معمول سے ہٹ کر اچھی لگ رہی تھی حُرب ستائشی نظروں سے اسے دیکھتی اسکے ساتھ جا بیٹھی
"اف اتنی اچھی لگ رہی ہو آج تو " حرٙب کے تعریفی الفاظ پر غوزہ نے اسے شکایتی نظروں سے دیکھا
"ارے کیا ہوا "
"جھوٹ مت بولا کرو حُرب " اس کا لہجہ تلخ تھا حرٙب کو بھی سنجیدہ ہونا پڑا
"اب اس میں جھوٹ کیا ہے " وہ غصے سے اسے دیکھنے لگی جو سر جھکاۓ بیٹھی تھی
"کیا کمی ہے تم میں میں غوزہ کیوں سوچتی ہو تم ایسا اچھی بھلی شکل دی ہے اللہ نے تمہیں
"میں کچھ نہیں سوچتی تم بس میری تعریف نہ کیا کرو مجھے یوں لگتا ہے جیسے تم مجھ پر طنز کر رہی ہو "بات کرتے کرتے اس کا لہجہ بھرٙا گیا حُرب کو مزید غصہ آگیا
"پتہ نہیں کس نے تمہارے دماغ میں یہ خناس بھر دیا ہے کبھی تم نے خود کو غور سے دیکھا ہے اپنی آنکھیں کو دیکھا ہے کتنی خوبصورت ہیں میں تو اکثر سوچتی ہوں کہ کاش میری آنکھیں تم جیسی ہوتیں "وہ اسے سمجھا رہی تھی غوزہ تلخی سے ہنس دی
" تمہارے لیے یہ کہنا آسان ہے کیوں کہ تمہیں وہ طعنے سننے کو نہیں ملتے جو مجھے سننے پڑتے ہیں کالی چڑیل ، کالی بلی ، منحوس ماری جیسے تلخ الفاظ تمہارا سینہ چھلنی نہیں کرتے اس لیے تم کہہ سکتی ہو ہاں حوری تم کہہ سکتی ہو " حُرب کو سمجھ نہ آئی اسے کیا کہنا چاہئے جس سے اسکی حساس سی دوست کے چہرے پہ خوشی آ جاۓ
غوزہ اس کی طرف رخ کر کے مسکرا دی
"تم سوچ رہی ہو نا تمہیں مجھے خوش کرنے کے لیے کیا کہنا چاہئے " وہ شاید اس کی سوچ پڑھ چکی تھی حرٙب نے حیرت سے اسے دیکھا
"تم کچھ مت کہو حوری میں ٹھیک ہوں بس کبھی کبھی مجھ پر مایوسی و یاسیت کا دورہ پڑ جاتا ہے کبھی کبھی میرا دل چاہتا ہے کہ میرا رنگ بھی تمہارے جیسا ہوتا دودھ جیسا سفید... میرے ہاتھ بھی تمہارے جیسے ہوتے " غوزہ نے اسکے خوبصورت ہاتھوں پر نظر ڈالی
"اگر میرا رنگ سانولا نہ ہوتا تو شاید بابا بھی مجھ سے پیار کرتے مجھے دیکھ کر اپنا رخ نہ بدلا کرتے یہ دنیا خاص طور پر خالہ اور ان کا وہ آوارہ بیٹا مجھے کبھی کالی نہ کہہ پاتے بس اسی ایک لفظ سے دور بھاگ جانا چاہتی ہوں میں جہاں یہ لفظ مجھے کبھی سنائی نہ دے" وہ اپنے دل کا غبار نکال رہی تھی حوری خاموشی سے ادے دیکھتی رہی جب وہ رو کر ہلکی پھلکی ہو چکی حرٙب اس کا ہاتھ تھام کر اٹھ کھڑی ہوئی
"چلو ایک نظر اپنی سپیچ دیکھ لو آج تمہیں فرسٹ پرائز جیتنا ہے "غوزہ نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلا دیا
★★★★★★★
"ادینہ کہاں جا رہی ہو ؟؟" ماہی بیگم نے لپ اسٹک لگاتی ادینہ سے پوچھا
"پارٹی میں جارہی ہوں ماما " وہ جواب دیتی دوبارہ اپنے کام میں مشغول ہو گئ
"کتنی بار کہا میں نے تمہیں کہ یہ پارٹی والے شوق ختم کرو اب کچھ گھرداری سیکھو بھابھی بیگم کا دل جیتنے کی کوشش کرو اچھا بھلا لڑکا ہاتھ سے نکل رہا ہے ساری عمر روتی رہو گی تب بھی ایسا لڑکا نہیں ملے گا "انہوں نے آہستہ آواز میں اسے سمجھانا چاہا۔
"مما وہ شادی کر چکا ہے اس کا ایک بیٹا بھی ہے میری اتنی کوششوں کے باوجود بھی اس کا جھکاؤ میری طرف نہیں ہوا بظاہر اتنا شریف نظر آنے والا خوش شکل ڈیشنگ پریسنالٹی والے انسان کے دل میں جگہ بھی بنائی تو کس نے ایک طوائف نے ہونہہ " اس نے تنفر سے سر جھٹکا
"ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا بھائی صاحب کبھی بھی اس لڑکی کو اپنی بہو تسلیم نہیں کریں گے " ماہی بیگم نے اسے ایک نئی راہ دیکھائی وہ بے نیازی سے شانے جھٹک کر پلٹی
"مما شاید آپ مغیث کو جانتی نہیں ہیں وہ بہت ضدی ہے اپنی ضد منوا کر ہی دم لے گا آپ نے دیکھا نہیں کیسے مجنوں بنا ہے۔
"تم دونوں آخر چاہتی کیا ہو چلو مغیث تو ہاتھ سے نکل گیا لیکن گوہر کا آپشن تو ابھی موجود ہے نا " اسکی بحث نے ماہی بیگم کو غصہ دلا دیا
"سوری مما اگر آپ چاہتی ہیں کہ،میں اس فیملی میں سے کسی سے شادی کروں تو وہ مغیث ہے اور بس "ادینہ نے تو گویا بات ہی ختم کر دی
"کیوں گوہر میں کیا برائی ہے اتنی اچھی پوسٹ پر ہے محنتی اور شریف بچہ ہے ذرا جواونچی آواز میں بات کرے اتنا کہا میں نے اس شہرینہ کو کہ کچھ عقل کرے مگر میری کوئی سنتا کہاں ہے "اب ان کی توپوں کا رخ ناول پڑھتی شہرینہ کی طرف ہوا اسکے منہ کے زاویے بگڑنے لگے
"مما پلیز اُس کالے بندر کو میں ایک منٹ برداشت نہیں کر سکتی کجا کہ ساری زندگی "اس نے گوہر کی سانولی رنگت پر چوٹ کی اس سے پہلے کہ ماہی بیگم اسے جھاڑتیں گاڑی کے ہارن پر وہ سب چونکیں یہ مغیث کی گاڑی کا ہارن تھا
"لگتا مغیث آگیا چلو ادینہ تم باہر آؤ اور شہرینہ تم بھی حلیہ درست کر کے باہر آؤ " وہ دونوں کو اشارہ کرتی باہر نکل گئیں
★★★★★★★★
میں اپنی آئی پہ آؤں تو چھوڑ دوں تجھ کو
میں ضد پہ اپنا نہیں تو ,تو, تو ٹھہر
انتہائی غصے میں ریش ڈرائیونگ کرتا وہ سیدھا گھر پہنچا تھا روتے ہوئے عون کو کندھے سے لگاۓ وہ جب لاوٴنج میں آیا تو اس کی پہلی نظر سمعیہ بیگم پر پڑی جو ادینہ اور چھوٹی چچی سے باتوں میں مصروف تھیں وہ چلتا ہوا سمعیہ بیگم کے سامنے آکھڑا ہوا
"مما یہ عون ہے میرا بیٹا اب یہ یہی رہے گا " اس نے عون کو ان کے ہاتھوں میں دینا چاہا جو حیرت زدہ سی کبھی اسے دیکھتیں کبھی دروازے کو
"لیکن بیٹا اس کی ماں ـ ـ "
"وہ مر گئی ہے "وہ درشتی سے انکی بات کاٹ کر بولا وہ جو سمجھ رہی تھیں کہ نورجہاں یقیناً گاڑی میں ہو گی ایکدم اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر پیچھے ہٹیں "اللہ رحم"
"اگر آپ اس کی دیکھ بھال نہیں کر سکتیں تو بتا دیں میں اپنے بیٹے کے لیے کوئی اور بندوبست کر لوں گا "وہ سرخ انگارہ آنکھوں سے انہیں دیکھتا بولا لہجہ ہر قسم کے احساس سے عاری تھا
انہوں نے سرعت سے آگے بڑھ کر عون کو اسکے ہاتھوں سے لے کر سینے سے لگا لیا وہ بغیر کچھ بولے تیز تیز قدم اٹھاتا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا اور وہ جو مزید پوچھنے کا ارادہ رکھتی تھیں بےبسی سے اسے جاتا دیکھتی رہیں
چھوٹی چچی نے فاتحانہ نظروں سے ادینہ کو دیکھا انہیں اپنی منزل بہت قریب محسوس ہو رہی تھی
*#جاری_ہے*
No comments: