Ads Top

رقصم_از_ایمل_رضا قسط نمبر 18 آخری قسط)

رقصم_از_ایمل_رضا
قسط نمبر 18(آخری قسط

 ”میں نے وہی کیا جو مجھے کرنا چاہیے تھا۔ تم صرف میرے ہو....“ڈورس بھی سیدھے اصل بات پر آ گئی۔
 ”کب سے....؟“
 ”جب سے ہماری دوستی ہوئی ہے تب سے....“
 ”تم نے پہلے تو کبھی ہی نہیں کہا.... پھر یہ اچانک تمہیں کیا ہو گیا ؟“ 
 ”میں نے تم سے کہا لیکن تم نے یقین نہیں کیا.... میں تم سے محبت کرتی ہو ں عجرم !ان سب سے پوچھ لو....“ڈورس نے بے چارگی سے سب فرینڈز کی طرف اشارہ کر کے کہا جو سب کے سب ان دونوں کو ہی دیکھ رہے تھے۔
 ” پھر تم نے وعدہ کیوں کیا....تم نے کہا تھا کہ تم میری مددکرو گی۔“
 ”میں تمہاری مدد کیسے کرتی عجرم....میں کیسے تمہیں کسی اور کو ہوتا ہوا دیکھ سکتی تھی۔“ 
 ”جھوٹ بول رہی ہو تم ۔ تمہیں مجھ سے محبت نہیں‘ منال سے دشمنی ہے۔ “
 ”میرا یقین کرو....“
 ”تم صرف اپنی بہن سے جیلس ہو.... تم اس سے بدلا لینا چاہتی تھی۔اس کے ہاتھ سے چھین کر‘ مجھے حاصل کرنا چاہتی ہو۔تم جانتی تھی کہ مجھے یہاں تمہارے ساتھ دیکھ کر اس کا ری ایکشن کیا ہو گا۔ تم اچھی طرح سے جانتی تھی اس کا ری ایکشن‘ لیکن پھر بھی تم نے وہی کیا جو تم کرنا چاہتی تھی۔ یہ میری غلطی کی سزا ہے جو مجھے ملی ہے۔مجھے اس سے بڑی سزا ملنی چاہئے ۔
 تم انہی دوستوں میں سے ہو جو گلا نہیں دل کاٹتے ہیں۔تم نے کہا یونیورسٹی چھوڑ دو، میں نے چھوڑ دی۔تم نے کہا وقت کا انتظار کرو، میں نے مان لیا کیونکہ میں جانتا تھا کہ تم میری دوست ہو، تم جانتی تھی کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں اور.... اور پھر بھی تم نے ....“ 
 وقت گزر چکا تھا وہ جانتا تھا کہ یہ برا وقت ایسے ہی لکھا گیاتھا۔ اگلے دن وہ سب سے پہلے اس کی یونیورسٹی گیا۔ وہ یونیورسٹی میں بھی نہیں تھی۔ وہ گھر گیا۔ صوفیہ آنٹی سے مل کر وہ مایوس واپس لوٹ آیا۔ اگر یونیورسٹی ٹائم پر وہ گھر نہیں تھی تو کہاں تھی۔ انہوں نے اسے بتایا کہ وہ یونیورسٹی گئی ہے اور وہ اسے ہی لینے یونیورسٹی جا رہے ہیں لیکن وہ جانتا تھا کہ وہ یونیورسٹی گئی ہی نہیں ہے۔ انہیں یہ بتائے بغیر وہ اسے اس کی مخصوص جگہوں پر ڈھونڈتا رہا لیکن وہ کہیں بھی نہیں تھی۔سارے ایتھنز میں کہیں بھی نہیں تھی۔
 وہ کئی دن تک اسے ڈھونڈتا رہا لیکن وہ وہاں ہوتی تو اسے ملتی وہ تو کہیں اور تھی۔
 ڈورس کئی بار اس کے پاس آئی مگر اسے پراوہ نہیں تھی کہ وہ کتنی شرمندہ ہے۔ یہ سب اسی کی وجہ سے ہوا تھا۔
 ”یہاں سے جاو ¿ ڈورس ! مجھے مت کہو کہ میں اسے تلاش کرنے میں تمہاری مدد کروں ۔تم نے اپنی تسکین کر نی تھی کر لی....“ ”ہاں میں نے اپنی تسکین کر لی ۔ میں اسے اپنے فرینڈز کے سامنے ذلیل کرنا چاہتی تھی جن کے سامنے اس نے میری انسلٹ کی تھی۔ میں پاگل تھی عجرم!“ وہ رونے لگی۔
 ”تمہیں مجھ سے محبت ہے ناں .... تو اب کرو مجھ سے شادی....میں مزید انتظار نہیں کر سکتا۔ “ وہ ہر با ر ڈورس سے یہ ہی سب کہتا۔
 ”منال ملے یا نہ ملے ....مجھے اس بات سے کوئی لینا دینا نہیں .... میں اگلے ماہ تک شادی کا ارادہ رکھتا ہوں....“
  ڈورس جانتی تھی کہ وہ اسے اس بات سے ذلیل کر رہا ہے۔ذلیل تو وہ خود بھی ہو رہا تھا .... اگر غلطی ڈورس کی تھی تو وہ بھی اس میں شامل تھا۔ سزادونوں کو ملنی چاہئے تھی۔ انسان کو کوئی اپنے کھیل کا میدان کیسے بنا سکتا ہے۔
 ” تم نے جھوٹا وعدہ کیاتھا نا مجھ سے....“
 اسے جیسے صرف اسی بات کا دکھ تھاکہ اس کی دوست نے اس سے جھوٹا دلاسہ دیا۔ جو اس سے برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ پھر منال کا کیا حال ہو رہا ہو گا جو جھوٹی محبت کا بوجھ سہہ رہی ہو گی۔ سب یاد کرتے ہوئے اس کا سٹریس اتنا بڑھ جاتا کہ اسے لگتا اس سٹریس کو ٹیمپل تو کیا دنیا کی کوئی بھی جگہ کوئی بھی انسان دور نہیں کر سکتا۔ 
ٍ ”ہاں ....میں نے جھوٹا وعدہ کیا تھا ....“ اس نے ہر جگہ سے اپنی شکست تسلیم کر لی۔
 ”کیا ملا تمہیں پھر اتنا سب کچھ کر کے ڈورس....؟“
 ”منال کے ساتھ چند ماہ کی محبت تم فراموش نہیں کر پا رہے عجرم ! اور میری دوستی کو بھلانے لگے ہو....“
 ”کیونکہ اس کی محبت میں کوئی فریب نہیں تھا۔و ہ اس کے دل کی طرح خالص تھی۔“
 ”میں گھر پر پاپا کی ناراضی کو برداشت کر رہی ہوں،چوبیس گھنٹے منال کو تلاش کر رہی ہوں، اور ادھر تم .... تم بھی مجھ سے بدگمان ہو۔ کسی ایک طرف سے تو مجھے آسانی دو عجرم !“
 ” کسی ایک طرف سے تو منال کی آمد کی نشانی دو ڈورس۔ کیا دے سکتی ہو؟“ اس کا لہجہ سخت تھا
 ” نہیں....“ اپنی ہتھلیاں رگڑتے ڈورس رو دی
٭ ٭ ٭
 اس کے ایک اور فرینڈ نے بھی انہیں بتایا کہ اس نے سینٹ کے ساتھ منال کودیکھا ہے۔ وہ منال کو جانتا تھا ۔یہ اس کا کالج فیلو تھا اور عجرم کا فرینڈ۔ جس طرح ناراضی میں منال گھر چھوڑ کر گئی تھی کچھ بعید نہیں تھا کہ وہ سینٹ سے شادی کر لیتی۔ وہ منال تھی یا وہ کچھ نہیں کرتی تھی یا بہت کچھ کر لیتی تھی۔اس کے اس طرح سے گم ہو جانے نے اسے زندہ مردہ کر دیا تھا۔یہ وہ محبت تھی جسے اس نے اپنی وجہ سے کھویا تھا۔
 ”تم کہاں ہو....“ وہ اکثر بے خیالی میں اٹھتے بیٹھتے اسے مخاطب کرتا۔” میں نے تمہیں کھو ہی دیا ناں....“
 خواب کی آواز
 یاد کی آواز
 تصور کی آواز
 اسے اس کی سب آوازیں سنائی دینے لگی تھیں۔
٭ ٭ ٭
 ڈورس ، صوفیہ ، اور احد کے آنے تک وہ فلیٹ چھوڑ چکی تھی۔ وہ اسی بلڈنگ کے کسی اور فلیٹ میں تھی یا اسی شہر میں کسی اور بلڈنگ میں یا اس ملک کے کسی شہر میں۔ ایک بار پھر سے وہ سب لاعلم ہو چکے تھے۔یا وہ ملک ہی چھوڑ چکی تھی۔ ایک سال سے وہ گھر سے باہر تھی۔ اس نے اکیلے رہنا سیکھ لیا تھا۔ اب سار ی دنیا اس کا گھر ہو چکی تھی کیونکہ وہ اپنا گھر چھوڑ چکی تھی۔جب خود اس نے سب کو پیچھے کر دیا تھا‘ تو کوئی اس کے پیچھے بھاگ کر اسے کیسے پا سکتا تھا۔بدقسمتی اس وقت عروج پر ہوتی ہے جب لوگ مرتے تو نہیں ہیں لیکن زندوں کی طرح موجود بھی نہیں رہتے۔
٭ ٭ ٭
 سکندر ہاو ¿س کی پریشانی اس وقت اور بڑھ گئی جب آدھی رات کو عجرم ڈورس کو پک کرنے آیا تھا۔اس کی شکل دیکھتے ہی وہ بری طرح سے ڈر گئی تھی۔ اس کی شکل بتا رہی تھی کہ کچھ نہیں بہت کچھ ٹھیک نہیں رہا۔اس کے ساتھ کا ر میں سینٹ بیٹھا ہوا تھا۔ وہ اسے اپنے ساتھ لے جانے آیا تھا۔ جس طرح اور جس حلیے میں وہ اس کا فون سنتے ہی اپنے کمرے سے نکل کر باہر اس کے پاس آئی تھی۔ اسی حلیے میں وہ فوراََ اس کے ساتھ بیٹھ گئی۔
 جتنی بار اور جتنی دفعہ وہ دعائیں مانگ سکتی تھی وہ مانگ رہی تھی۔ اسے اب معلوم ہو رہا تھا کہ جان پر اصل عذاب کب نازل ہوتا ہے۔ سانسیں کب اپنی گنتی گنتے گنتے ختم ہونے لگتی ہیں۔
 وہ ایتھنز شہرسے باہر ایک دوسرے شہر جا رہے تھے جہاں سینٹ انہیں لے کر جا رہا تھا۔ عجرم جس شہر میں اس سے آخری بار ملا تھا یہ شہر اس شہر کے قریب تھا۔ عجرم نے تیز ڈرائیونگ کی پھر بھی انہیں وہاں جانے میں چار گھنٹے لگے۔
 شہر کے مرکز کے ایک قریبی بڑے ہسپتال میں انہیں اسے ڈھونڈنے میں کوئی مشکل نہیں ہوئی تھی۔نہ ہی اس بار وہ بھاگی نہ ہی وہ اس کی طرف لپکے ۔وہ انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں اپنی موت سے کی طرف نے نیازی سے بڑھ رہی تھی۔ وہ یہی چاہتی تھی۔ مر جانا۔ زندگی سے منہ موڑ لینا۔
  وہ وہاں بارہ گھنٹوں سے تھی۔ اس کا کار ایکسیڈنٹ ہوا تھا۔ وہ اپنے کسی کلائنٹ کے ساتھ اس کی کار میں جا رہی تھی۔ اس کا کلائنٹ ایک عورت تھی اور وہ دونوں ہی انتہائی نگہداشت میں تھیں۔پولیس کو سینٹ سے رابطہ کرنے میں وقت لگا۔ یہ سینٹ ہی تھا جس کے پاس منال گھر سے نکلنے کے بعد گئی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ وہ مقامی باشندہ ہے اور وہ کوئی ایسا گھر اسے ضرور لے دے گا جس میں وہ رہ سکے۔ اس نے سینٹ کو سب کچھ بتا دیا تھا۔ وہ اتنا ٹوٹ پھوٹ چکی تھی کہ سر رکھ کر رونے کے لیے اس ایک شانہ چاہیے تھا۔
 سینٹ نے اسی دن اسے ایتھنز سے باہر‘ سکندر احمد کی پہنچ سے دور ایک فلیٹ کرائے پر لے دیا تھا۔وہ اس سے رابطے میں رہتا تھا ۔اس کا حاؒ ل چال پوچھتا رہتا تھا۔
 شیشے کے اس پار اسے دیکھتے ہی ڈورس پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ یہ وہی تھی جس کی وجہ سے یہ سب ہوا تھا۔ بارہ گھنٹوں سے اسے ہوش نہیں آیاتھا۔اگر اسے کچھ ہو گیا تو صرف وہ زندگی کی بازی نہیں ہارے گی‘ ڈورس بھی مر جائے گی۔
 ”آپ دعا کریں اسے ہوش آ جائے۔ “ اس نے صوفیہ کو فون کر کے سب بتا دیا۔
  جو تھو ڑا بہت سکون تھا اس کے مل جانے کا وہ بھی جاتا رہا۔ رات انہوں نے وارڈ کے باہر گزار دی مگر اسے ہوش نہیں آیا تھا۔ اس کے چہرے کی طرف دیکھتے ہی ڈورس کواپنا بد صورت چہرہ نظر آنے لگتا تھا۔عجرم نے اس کے شانے پر تھپکی دے کر اسے تسلی دینی چاہی تھی لیکن وہ تسلی اس کے دل پر بہت بھاری گزری۔وہ منال کا ہاتھ پکڑ کر اپنی آنکھوں سے لگا کرکہنا چاہتی تھی کہ،
 ”میں اتنی بری بھی تو نہیں تھی کہ تم مجھے ایک بار بھی معا ف نہ کرتی۔ “
٭ ٭ ٭
 اڑتالیس گھنٹوں کے بعد اسے ہوش آیا اور ٹھیک سات دن بعد اسے روم میں شفٹ کر دیا گیا۔ انس اور اسد بھی آ چکے تھے۔ وہ اتنی بری طرح سے زخمی ہوئی تھی کہ مہینوں چل پھر نہیں سکتی تھی۔ دو ہفتے وہ نیم مدہوش ہی رہی۔ اپنی آنکھیں کھول کر وہ سب کو بمشکل پہچانتی تھی۔ شاید اسے سمجھ میں نہیں آ رہی تھی کہ وہ کہاں ہے۔وہ اماں کے بعد ماموں اور مامی کو یاد کرتی تھی‘ پاپا‘ صوفیہ یا ڈورس کو نہیں۔
  سکندر احمد کو انہوں نے ابھی تک نہیں بتایا تھا۔ منال کو انہوں نے ایتھنز کے ہی ایک ہسپتال میں شفٹ کروادیا تھا۔ ڈورس اور عجرم ہر وقت اس کے ساتھ رہتے تھے۔ صوفیہ دن میں کئی بار اسے دیکھ کر جاتی تھیں۔
 جب وہ اتنی صحت یاب ہو گئی کہ اس نے ہوش مندی سے دیکھنا شروع کر دیا تو اس کی آنکھوں میں اجنبیت در آئی۔ ناراضی، غصہ، اذیت، لاتعلقی،سب کچھ.... صوفیہ اس کے پاس ہر وقت موجود رہتیں‘ اسے پیار کرتی رہتیں۔ ایک وہی تھیں جن کے لئے اس کی آنکھوں میں محبت تھی ۔ اسے بولنے میں مسئلہ تھا۔ ورنہ شاید چلا چلا کر سب کو کمرے سے باہر نکل جانے کا کہتی‘ مگر اس کی آنکھیں یہ سب کہتی تھیں۔ وہ ہاتھ نہیں ہلا سکتی تھی، وہ چل نہیں سکتی تھی۔ ورنہ شاید وہ پھر سے چلی جاتی۔ مگر وہ کیوں جانے دیتے اسے اب ،اور کیوں نکلتے اس کے کمرے سے....
 پرائیویٹ روم میں وہ ہر وقت اس کے ساتھ رہتے۔ دائیں بائیں اوپر نیچے ہر جگہ کوئی نہ کوئی بیٹھا ہوا نظر آتا۔ان کی ایک بڑی پریشانی سکون میں بدل چکی تھی۔ وہ خطرے سے باہر تھی۔ اتنا کافی تھا کہ وہ ان سب کے سامنے ان سب کے ساتھ تھی۔یہی بہت تھا ۔ وہ اسے اب کہیں جانے نہیں دیں گے۔صوفیہ آنٹی اپنی دھیمی آواز میں اس سے اچھی اچھی نرم گرم باتیں کرتیں۔ کسی نے جو گزر چکا تھا اس کا ذکر نہیں کیا تھا۔زیادہ تر وہ سوتی رہتی تھی۔ ابھی بھی اس کی حالت ایسی نہیں تھی کہ سکندر احمد آ کر اس سے ملتے۔ انہیں ذہنی صدمے سے بچانے کے لئے انہیں ابھی اور انتظار کرنا تھا۔
  ڈورس دن رات اس کے ساتھ رہتی تھی اور کبھی کہہ دیتی تھی۔
 ” تم مجھے اس سے زیادہ غصے سے دیکھ سکتی ہو۔ گالی بھی دے لو۔ لیکن میں مجبور ہوں‘ تمہیں اب جانے نہیں دے سکتی۔“
 وہ منہ پھیر لیتی تو ڈورس ہنس دیتی۔
 ” تمہیں جلد ہی مسکرانا سیکھانا ہو گا منال! بہت سے لوگ کب سے اداس ہیں۔“
 ڈورس کھڑکی کے پاس ہی بیٹھی میگزین پڑھ رہی تھی۔ عجرم اسے دیکھ رہا تھا۔کسی کی بھی پرواہ کئے بغیر وہ سامنے کرسی پر بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا۔احد اپنے گٹار کے ساتھ مصروف تھا۔ وہ کب سے احد کی فضول دھنیں سن رہی تھی اور تنگ آ چکی تھی۔ اسے حیرت تھی کہ ڈورس کے منع کرنے کے باوجود بھی وہ باز نہیںآیا تھا اورا سے یہ احساس بھی نہیں تھا کہ وہ ایک مریضہ کو بری طرح سے تنگ کر رہا ہے۔ جب وہ تنگ آ گئی تو اسے بولنا ہی پڑا۔
 ”احد! اسے بجانا بند کر دو .... پلیز....“
 ”آں....“ احد چلایا۔”میں نے تمہیں کہا تھا ناں کہ یہ گٹارا سے بولنے پر مجبور کر دے گا۔“ 
 اس نے ڈورس سے کہا۔ منال نے منہ موڑ لیا۔ 
 ”اسے سن کر تو مردے بھی جاگ اٹھیںگے یہ تو ابھی زندہ ہے۔ “ اسد شاید بیٹھا بیٹھا اونگھ رہا تھا ۔ اب اٹھ گیا تھا۔
 ” تم لوگ ہی ڈر گئے تھے۔ ورنہ میں نے تو کہہ دیا تھا کہ چڑیلیں اتنی جلدی نہیں مرا کرتیں۔“
 ” تمہارا بڑا تجربہ ہے چڑیلوں کے ساتھ؟ اور بھوتوں کے بارے میں کیا کہو گے؟“ڈورس نے کہا
 ” بھوت معصوم ہوتے ہیں۔ ان کے نام احد‘ اسد اور عجرم ہوتے ہیں۔ وہ چڑیلوں کا مقابلہ کرنے کے لیے خود کو تیار کرتے ہیں۔“
 ” تم اپنی بکواس بند نہیں کر سکتے۔“ ڈورس نے چڑ کر کہا
 ” تم دیکھ رہی ہو کہ تمہاری بکواس منال نے بند کروا دی ہے۔تم دونوں کا غصہ اس نے گٹار پر نکالا ہے۔دراصل وہ یہ چاہتی ہے کہ تم دونوں اس کمرے میں نہ رہو۔ گیٹ لاسٹ ہو جاﺅ۔“احد نے ڈورس سے سب حساب کتاب ایک ہی بار میں برابر کر لیے۔
 ”اور یہ یہ بھی چاہتی ہے کہ تمہیں بھی اٹھا کر کھڑکی سے باہر پھینک دیا جائے۔“عجرم نے جل کر کہا۔
 ”اٹھا کر تو تمہیں منال باہر پھینکے گی اسے ٹھیک تو ہو لینے دو....“ کہہ کر وہ اور اسد ہنسنے لگے۔
 اس کے پاس بیٹھے وہ ایسی ہی باتیں کرتے رہتے تھے۔ وہ اسے ذہنی طور پر ٹھیک کرنا چاہتے تھے۔ وہ اسے سمجھا رہے تھے کہ اب بس بہت ہو چکا۔احد منال کو بھڑکاتا تھا کہ وہ ان کے ساتھ یہ یہ کرے۔فلاں فلاں طرح سے ان سے فلاں فلاں کام کروائے اور وہ آنکھیں موندے پڑی رہتی تھی۔
 وہ سب شاید جا چکے تھے۔ نیم مدہوشی میں اسے ڈورس کی آوازیں آتی رہی تھیںلیکن اب وہ بھی نہیں ا ٓ رہی تھیں۔ وہ سوئی جاگی کیفیت میں تھی کہ کسی کے ہاتھوں کی گرفت سے اس کی آنکھ کھل گئی۔اس کا ایک ہاتھ زخمی ہوا تھا جسے وہ حرکت بھی نہیں دے سکتی تھی۔ سوائے انگلیوں کی حرکت کے....تکلیف دوسرے ہاتھ میں بھی تھی لیکن نسبتاََ کم تھی۔درد کی ہلکی سی لہر سے اس کی آنکھ کھل گئی۔ عجرم اس کا ہاتھ پکڑے بیٹھا تھا۔ شاید وہ وہاں کافی دیر سے بیٹھا تھا۔ غصے سے اس نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ کے دباو ¿ سے نکالنا چاہا مگر اس کا دباو ¿ ویسے ہی رہا۔ جیسے پرواہ نہیں اسے کہ اسے درد ہو رہا ہے کہ نہیں۔ 
 ”بلاو ¿ اب گارڈ....“ اسے اپنی طرف دیکھتے پا کر اس نے سنجیدگی سے کہا۔منال نے اپنا منہ دوسری طر ف کر لیا۔
 ”جواب دو .... اب کیسے بلاو ¿ گی تم گارڈ کو....؟“
  نرس افراتفری میں اس کے کمرے میں آئی۔ منال کے دوسرے ہاتھ کی انگلی بدستو ر ایمرجنسی کال پر تھی۔ جیسے وہ سارے ہسپتا ل کواکٹھا کرکے ہی دم لے گی۔ 
 ”اوہ!“ عجرم نرس کو دیکھ کر سمجھ گیا کہ وہ ابھی اتنی بھی بے بس نہیں ہوئی ہے۔
 ”کیا ہوا....؟“ نرس آتے ہی اسے چیک کرنے لگی۔ 
 ”انہیں یہاں سے لے جائیں۔ میں ٹھیک ہوں۔“ اس نے نرس سے کہا۔ 
 ”یہ آئسکریم کھاناچاہتی ہے اور میں نے منع کیا ہے۔ اب یہ مجھے کمرے سے نکال رہی ہے۔“
 نرس نے منال کی طرف دیکھا۔ منال نے نفی میں سر ہلایا۔ 
 ”اس نے کہا کہ اگر اسے آئسکریم نہ کھانے دی گئی تو آئسکریم اس کے اوپر انڈیل دی جائے تاکہ یہ اسے محسوس ہی کر سکے۔“ عجرم تیزی سے بولتا ہی جا رہا تھا۔ نرس نے پھر بے یقینی سے اس کی طرف دیکھا۔ 
 ”کیا....؟“ پھر وہ ہنسنے لگی۔ وہ سمجھ گئی تھی کہ یہ ان کا کوئی پرائیویٹ جوک ہے اور وہ چلی گئی۔ عجرم نے ہاتھ بڑھا کر ایمرجنسی کال پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔ 
 ”میں نے مذاق کیا تھا ۔ تم نے سچ میں گارڈ بلوا لیا۔“ وہ ویسے ہی اس کے پاس بیٹھ گیا۔ جیسے پہلے بیٹھا تھا۔ 
 ”اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ تم اب بھاگ نہیں سکتی یہاں سے.... میں سارا دن ، ساری رات، کئی دن، کئی راتیں، تمہارا سر کھا سکتا ہوں۔“ 
 وہ ہنسنے لگا وہ بہت خوش تھا کہ وہ دونوں ایک ساتھ آمنے سامنے بیٹھے ہیں۔وہ زخمی ہے یہ دکھ تھا لیکن وہ ٹھیک ہو رہی ہے اس با ت کی خوشی تھی۔
 ”تم نے یہ سوچا بھی کیسے کہ میں تمہارے بغیر زندگی گزار لوں گا۔؟“ اس نے سنجیدگی سے اس کی طرف دیکھتے رہنے کے بعد کہا۔’
 ’آخری بار میں نے فون پر تم سے کہا تھا کہ تمہیں اپنا انداز میرے لئے بدلنا ہو گا۔ پھر بھی تم نے میرے لئے اپنا رویہ نہیں بدلا۔
جب تم میرے خواب ، میری یاد کی آواز سن سکتی تھی تو تم نے میرے دل کی آواز کیوں نہیں سنی۔ کیا تم نے سنا نہیں تھا کہ عجرم کا دل کیا کہتا ہے۔ کیا میرے دل نے یہ نہیں کہا تھا کہ وہ تمہارے لئے ہمیشہ دھڑکنا چاہتا ہے۔ تم تو وہ منال تھی جو مجھے ملی تھی۔ جسے میں ملا تھا۔کیسے ملا تھا یہ بھول کر تم صرف میری بات کا یقین نہیں کر سکتی تھی۔ کیا تم سے محبت کے لئے مجھے جھوٹ بولنا تھا۔“ 
 وہ اسے سنا رہا تھا۔ وہ سب جو اس نے سوچا تھا کہ وہ جب اسے ملے گی تو وہ اسے بتائے گا۔ 
 ”اس فیسٹیول میں تم نے مجھ سے کہا تھا نا کہ تم نے دنیا کو اپنے ارد گرد رقص کرتے دیکھا ہے۔ مجھے اس وقت اس بات کا مفہوم سمجھ میں نہیں آیا تھا۔ مجھے معلوم ہی نہیں ہو سکا کہ تم نے یہ کیوں کہا۔کیا محسوس کر کے کہا۔ لیکن جب تم مجھ پر واضح ہو گئی تو مجھے بھی ویسا ہی لگا۔مجھے دنیا کی ہر شے رقص کرتی ہوئی نظر آنے لگی۔ مجھ پر بھی حقیقت کھل گئی منال....مجھے معلوم ہوا کہ میںوہاں ڈورس کے کہنے پر نہیں‘ خود اپنے لئے گیا تھا۔“
 وہ آہستہ آہستہ اسے ایک ایک بات بتا رہا تھا۔وہ جھوٹ کو سچ نہیں کہہ رہا تھا۔وہ اسے حقیقت بتا رہا تھا۔اس بات سے لاعلم کے دروازے کے باہر کھڑی ڈورس اس کی ساری باتیں سنتی اپنے آنسو ضبط کر رہی ہے۔
 ”جو غلطی میں نے کی اس کا ازالہ مجھے کتنا مہنگا پڑا نا عجرم ! پاپا کی ناراضی کو برداشت کیا.... اور تمہیں کھو دیا۔“ وہ خود سے سوچنے لگی
  ” بعض غلطیوںکے مداوے شاید ساری زندگی کے روگ مانگ لیتے ہیں۔ اس غلطی نے بھی مجھ سے یہی مانگ لیا۔“
٭ ٭ ٭
 جیسے جیسے اس کی صحت اچھی ہوتی جارہی تھی ویسے ویسے ڈورس اور عجرم اس کا دماغ کھانے لگے تھے۔ وہ رات دن اس کے پاس بیٹھے ایسے باتیں کرتے تھے جیسے وہ تینوں ہمیشہ سے بہت گہرے دوست ہوں اور اپنی پرانی یادوں کو تازہ کر رہے ہوں۔ منال سوتی جاگتی انہیں سننے کے لئے مجبورتھی ۔ انہیں پرواہ نہیں تھی کہ وہ ان سے کتنی بار کہہ چکی ہے کہ اب وہ جائے یہاں سے۔ اسے کوئی بات نہیں سننی، انہیں نہ اس کی ناگواری کی پرواہ تھی اورنہ ہی اس بات کی کہ وہ انکھوں میں غصہ لئے لاتعلقی سے انہیں دیکھ رہی ہے۔ اس کے سب کام کرنے کے ساتھ ساتھ ہر وقت ان دونوں کی زبان چلتی رہتی، احد آجا تا اور تماشہ ہو جاتا۔ وہ بار بار منال کو اکساتا کہ وہ ان سے ناراض ہی رہے اورا ن سے اپنا تعلق ہمیشہ کے لئے ختم ہی رہنے دے۔
 ”یہ ڈورس پاپا کی وجہ سے اتنی اچھی بن رہی ہے۔ اس نے پھر ویسی ہی بن جانا ہے۔“ وہ منال کو صاف صاف بتا رہا تھا۔
 ”احد دفعہ ہو جاو ¿ یہاں سے....“ اس بات پر ڈورس کو سچ مچ غصہ آ گیا۔ اس کے تیور دیکھ کر وہ ڈر گیا۔
 ” دیکھو اب تمہارے سامنے کے دو دانت لمبے ہو رہے ہیں۔ “
 ” یہ لمبے نہیں بھی ہوئے تو میں تمہارا خون پی جاﺅں گی۔“
 ” یار! مارکیٹ میں ہر طرح کی سوفٹ ڈرنک موجود ہے‘ تمہیں بلڈ کولا ہی کیوں پینا ہے۔“
 ” کیونکہ میں چڑیل ہوں‘ اور مجھے اپنی ڈیوٹی کرنی ہے۔“وہ دانت پیس کر بولی
 ” چلو تم نے مان لیا نا کہ تم کیا ہو۔ ایسے ہی ریمپ پر واک کرتی تھی تو خود کو مس یونیورس سمجھی پھرتی تھی۔“
 ڈورس رات دن منال کے ساتھ رہتی تھی۔ صوفیہ خود یہی چاہتی تھیں کہ ڈورس ہی رہے تاکہ دونوں کے درمیان فاصلہ کم ہو۔ جب اس نے چل کر باتھ روم جانا شروع کیا تو وہی اس کی مد د کری۔ وہ صاف اسے منع کرتی کہ اسے اس کی مدد او رسہارے کی ضرورت نہیں ہے لیکن وہ جیسے سنتی ہی نہیں تھی کہ وہ کیا کہہ رہی ہے۔ اس نے سیکھ لیا تھا کہ جس سے محبت کی جاتی ہے اس سے منسلک ہر چیز اور شخص سے محبت کی جاتی ہے او ر وہ سیکھ رہی تھی کہ اپنے پاپا کی محبت میں وہ کس کس سے کتنی محبت کر سکتی ہے۔
 جب وہ اٹھ کر بیٹھنے اور سہارے سے چلنے لگی اور اس کے ایک ہاتھ کی بینڈیج کھول دی گئی ۔ اس وقت صوفیہ سکندر احمد کو اپنے ساتھ لے کر آئیں۔ انہیں معمولی حادثے کا بتایا گیا تھا اور وہ بھی اس سے مل لینے کے بعد.... دیر تک اسے خود سے لگائے وہ پیار کرتے رہے۔ منال نے اپنی بانہوں کاگھیرا ان کے گرد تنگ کر دیا۔وہ اپنے اس دنیا میں آنے کے بعد اب اپنے پاپا سے مل رہی تھی۔
٭ ٭ ٭
 اسے گھر شفٹ ہونے کے بعد مکمل بیڈ ریسٹ کرنا تھا۔ وہ نہ سہارے کے بغیر چل سکتی تھی اور نہ ہی اٹھ سکتی تھی ۔ رات کو پاپا اس کے ہی بیڈ روم میں اپنے لئے رکھے گئے سنگل بیڈ پر سوتے تھے۔ اس کے منع کرنے کے باوجود بھی، ڈورس بھی اسی کے روم میں صوفے پر سوتی تھی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ ایسا کرے۔ وہ اس کا احسا ن نہیں لینا چاہتی تھی لیکن اکثر رات کو ا پانی کے لئے یا اٹھ کر بیٹھنے کے لئے کسی کے سہارے کی ضرورت ہوتی تھی اور پاپا سے پہلے وہ اس کے پاس موجود ہوتی تھی۔
 رات کو اکثر اس کی آنکھ کھل جاتی اور وہ بے خیالی میں بہت کچھ سوچنے لگتی تھی۔ وہ اس گھر اور اس گھر سے باہر گزرے وقت کو یاد کرتی تھی۔ جس وقت وہ اس گھر سے گئی تھی وہ ہمیشہ کے لئے جانے کے لئے گئی تھی۔ اس دنیا میںخود سمیت اسے کسی چیز میں دلچسپی نہیں تھی۔ وہ پاکستان جانا نہیں چاہتی تھی۔ وہاں وہ ایک اور زندگی طعنوں کے ساتھ نہیں گزارنا چاہتی تھی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اب لوگ اسے یہ کہیں کہ اس کے باپ نے اسے گھر سے باہر نکال دیا ہے یا وہ اسے رکھنا نہیں چاہتے ہیں۔
 وہ ایک اور زندگی اپنے بچپن جیسی نہیں گزارنا چاہتی تھی۔ وہ یہاں رہ کر اپنی تعلیم مکمل کرنا چاہتی تھی۔ اسے اپنی تعلیم سے لگاو ¿ تھا اور وہ چاہتی تھی کہ وہ اس فیلڈ میں اپنا نام بنانا چاہتی تھی۔ اس نے کو شش کی کہ وہ اپنے ساتھ جڑے رشتوں کو فراموش کرے۔ وہ نہ کسی سے امید رکھے اور نہ ہی اس کی امید ٹوٹے۔ وہ خود کے ساتھ زندگی گزارنے کے لئے نکلی تھی۔ وہ سب کو بھولنا چاہتی تھی لیکن اتنا ہی سب کو یاد کرتی تھی۔ اس نے اٹھا رہ ماہ ایک الگ زندگی گزاری تھی۔ وہ زندگی مشکل نہیں تھی لیکن تنہا ضرور تھی۔ اس نے خود اس زندگی کا انتخاب نہیں کیا تھا۔ اسے مجبور کر دیا گیا تھا کہ وہ ایسی زندگی گزارے۔ وجوہات کچھ بھی تھیں مگر ان کا شکار وہ ہوئی تھی۔ 
 کمرے کی مدھم روشنی میں اس نے پاپا کی طرف دیکھا اور دُور صوفے پر خم کھائے سوئیڈورس کی طرف.... اس کے خوبصورت سنہری مائل بال بکھرے ہوئے تھے۔ اس کی آنکھوں کے گرد گہرے سیاہ حلقے دور سے بھی دیکھے جا سکتے تھے۔وہ کئی راتوں سے نہیں‘ کئی مہینوں سے نہیں سوئی‘ اس کی آنکھیں گواہی دیتی تھیں۔ اس کی خوبصورتی عکس کی طرح اس کمرے میں پھیل رہی تھی۔ و ہ اس کمرے میں اس کے ساتھ تھی اس کی وجہ سے۔
 ”پاپا....“ اس نے آہستگی پاپا کو آواز دی تاکہ وہ اٹھ کر ڈورس کا لحاف ٹھیک کر دیں۔
 ”پاپا....“ اس بار اس نے زرا تیز آواز میں انہیں پکارا۔ 
 ”کچھ چاہئے....؟“ وہ اٹھ کر اس کے پاس آ گئے ۔
 ”ڈورس کا لحاف نیچے گر چکا ہے ۔ وہ اسے واپس اوڑھا دیں۔“اس نے صوفے پر سوتی ڈورس کی طرف آنکھوں سے اشارہ کیا۔سکندر احمد نے حیرت سے منال کی طرف دیکھا۔ پہلے وہ ڈورس کے پاس گئے اور اسے اچھی طرح سے لحاف اوڑھا دیا پھر وہ دوبارہ منال کے پاس آئے۔
 ”منال....“ اس کے قریب بیٹھ کر اس کے دونوں ہاتھ تھام لئے ....
 ”مجھے پتہ ہے پاپا !آپ مجھ سے کیا کہنا چاہتے ہیں۔“اس نے ایک گہرا سانس لیا۔سکندر احمد نے بھی ایسا ہی کیا۔
 ”ڈورس نے جو بھی کیا وہ اس پر شرمندہ ہے ۔ میں جانتا ہوں یہ اٹھارہ ماہ ا س پر بہت بھاری گزرے ہیں۔تمہاری تلاش اس نے اس طرح کی ہے کہ میں نے اور صوفیہ نے بھی نہیں کی ہو گی۔ تم نے جو کچھ اس کے ساتھ کیا اپنے پاپا کو دکھ دینے کے لئے کیا۔ اس نے جو تمہارے ساتھ کیا اپنے پاپا کی محبت میں کیا۔ تم دونوں کا انداز ہی غلط تھا....یا شاید میں ہی غلط تھا ۔جو غلطی سالوں پہلے کی اس نے مجھے سالوں بعد پچھتانے پر مجبور کیا۔ کیا ایسی ہی سچی محبت تھی ثریا کی....“
 وہ خود سے پوچھ رہے تھے ۔منال کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اماں کے ذکر پر.... 
 ”تم بھی تو پھر اسی ثریا کی بیٹی ہو.... اس جیسی محبت نہ کرو.... بس معاف کر دو....“
 سکندر احمد ڈورس کے لئے ہر چیز لاتے تھے۔ اب وہ اس کے لئے معافی لا رہے تھے۔جس کی اسے اشد ضرورت تھی۔
 ”میں ڈورس کو معاف کر چکی ہوں پاپا!“ پہلے اماں مجھے آپ کو معا ف کرنے کے لیے کہتی رہی تھیں۔ میں نے ان کی بات نہیں مانی تھی۔وہ مجھ سے روٹھ گئی تھیں شاید.... میں نہیں چاہتی اب آپ مجھ سے روٹھ جائیں۔“
 صوفے پر خم کھائے لیٹی ڈورس نے لحافکے نیچے کھلی آنکھوں کو ایسے بند کیا جیسے بہت لمبے عرصے کے بعد اب اپنی نیند پوری کرنے لگی ہو۔
٭ ٭ ٭
  کیری جو انٹرنیشنل برانڈ کا ایجنٹ تھا ۔ایک بار پھر ڈورس کو سائن کرنے کے سلسلے میں اس سے ملنے آیا تھا ۔اگرچہ اس بار کنٹریکٹ بہت بڑا تو نہیں تھا لیکن ”شو “بہت بڑا تھا۔ ایسی دلکش آفر کے باوجود ڈورس نے اسے انکار کر دیا تھا۔کیری کو نجانے ڈورس کی ہی اتنی
ضرورت کیوں آ پڑی تھی جو وہ بار بار ڈورس کے گھر کے چکر لگانے لگا تھا۔
 ”تم اسے کیوں انکار کر رہی ہوں؟“
 ڈورس اپنے کمرے میں کسی میگزین کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہی تھی۔ آواز پر اس نے سر اٹھا کر دیکھا۔وہ منال ہی تھی جو اس سے پوچھ رہی تھی۔ وہ اس کے خود کو مخاطب کرنے پر حیران نہیں ہوئی تھی۔جیسے ڈورس کو یقین ہو کہ اتنی تکلیف سہہ کر ، اتنی ذلت برداشت کر کے، اتنے دکھ اٹھا کے ، اتنا برا رویہ برداشت کر کے اب تو منال کو اسے مخاطب کرنا ہی تھا۔
 ”مجھے نہیں کرنی اب ماڈلنگ....“
 ”کیوں ڈورس؟ “
 ”بس اب میرا دل نہیں چاہ رہا....“اس نے نرمی سے کہا۔
 ”وہ کافی بار ا ٓ چکا ہے۔ اسے انکار مت کرو....میری خاطر ہی مان جاو ¿.... “منال نے اپنا ہاتھ ڈورس کے کندھے پر رکھااور سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔ ڈورس نے منال کے ہاتھ کو دیکھا اور پھر اس کی آنکھوں میں....
 ” اب تم کیا کیا چاہتی ہو کہ میں کیا کیا کروں؟“ اس نے اداسی سے کہا
 ” وہ سب جو تمہیں کرنا چاہیے۔“
٭ ٭ ٭
 فیشن ویک کا تیسرا دن تھا۔ جب وہ عجرم ، آنٹی کے ساتھ وہاں پر آئی تھی۔ اسے چلنے میں مسئلہ تھا۔ دس قدم چلنے کے بعد ہی وہ تھک جاتی تھی لیکن ڈورس کے اصرار پر وہ وہاں آ گئی تھی۔ 
 ایک گھنٹے تک مختلف ڈیزائنر کے کپڑوں کی واک ہوتی رہی تھی۔ ڈورس اس دن کی شو سٹاپر تھی ۔ اسے سب سے آخر میں آنا تھا اور وہ آ گئی۔ وائٹ برائیڈل ڈریس پہنے ۔ مسکراتی ہوئی۔اس کے آنے پر سب نے تالیا ں بجائیں تھیں۔منال تالیاں نہیں بجا سکی تھی۔ عجرم نے اس کا ہاتھ تھام رکھا تھا۔
 ”تمہارے ساتھ اس طرح بیٹھنے کے لئے مجھے ایک عرصہ انتظار کرنا پڑاہے منال!“ عجرم نے اسے عین اسی لمحے بتا یا تھا جب ڈورس ریمپ پر چلتی ہوئی ان کے قریب پہنچ چکی تھی۔ 
 ”مجھے بھی....“منال نے اعتراف کیا۔
 ڈورس مسکراتے ہوئے ان دونوں کو ہی دیکھتے ہوئے آگے بڑھ رہی تھی۔مسکراہٹ کے بھیتر، خوشی کی گہرائی میں اندر کہیں ایک جھیل ابلنے لگی تھی۔آنکھوں کے چشمے سے.... کھارے پانی کی....
  وہ اب فوٹوگرافرز کو پوز دے رہی تھی۔دھیان کہیں اور تھا....مسکرانا مشکل تھا....
 ”تمہارا شکریہ عجرم ! تم کیری کو منا کر واپس لے آئے اور اس نے ڈورس سے دوبارہ کنٹریکٹ کر لیا۔“منال عجرم سے کہہ رہی تھی۔
 ”شکریہ تو ابھی مجھے بھی ادا کرنا ہے .... سینٹ کا....اس نے مجھے میری زندگی بھر کا کنٹریکٹ واپس دلوا دیا ہے۔ “عجرم نے سرگوشی سی کی۔ منال شرما گئی۔
 ہال کی لائٹس چاروں طرف جھوم رہی تھیں۔جیسے وہ کسی کی خوشی میں مگن ہوں۔پھر وہ بند ہو گئیں ۔ آج کا شو ختم ہو چکا تھا ۔ لیکن زندگی ابھی شروع ہوئی تھی۔
٭ ٭ ٭
 *ختم شد*

No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.