Ads Top

رقصم_از_ایمل_رضا قسط نمبر 17



رقصم_از_ایمل_رضا قسط نمبر 17

رقصم_از_ایمل_رض
قسط نمبر 17
”مجھ سے محبت کے سوال جواب مت کرو، صرف ایک یہی لفظ ایسا ہے جس پر مجھے بات نہیں کرنی....“
”اگر تم بات کرنا نہیں چاہتی تو ٹھنڈے دماغ سے میری بات سنو....“ اسے غصہ آ گیا تھا۔” ایک سال تین ماہ سے تمہیں پاگلوں کی طرح ڈھونڈ رہا ہوں اور تم مجھے سننا نہیں چاہتی، تم یہ جاننا نہیں چاہتی کہ وہ کیا ہے جو میں کہنا چاہتا ہوں، تم خفا ہو میں جانتا ہوں، مگر مجھے موقعہ تو دو، میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ تمہارے بغیر میری زندگی کیسی ہے، تمہارے بغیر عجرم کیسا ہے۔“ 
اس نے بے تاثر آنکھیں لئے اسے دیکھا۔” بس؟ اب تم جب تک چاہو یہاں رہو....“ وہ باہر کی طر ف بڑ ھی۔
”تم ایسے کیسے جا سکتی ہو....“ حیرت سے زیادہ اسے دُکھ تھا۔پیچھے سے جا کر اس کا بازو پکڑ کر اس نے اسے اپنی سمت گھومایا۔
”میں جا سکتی ہوں....“اس نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔” جیسے تم چلے گئے تھے....“
”ہمیں بیٹھ کر بات کرنی چاہیے۔ اس طرح تو کوئی بات نہیں ہو گی۔“ 
”بات کسی بھی طرح نہیں ہو گی۔ “اس نے اپنا بازو آزاد کروایا اور تیز تیز چلنے لگی۔وہ اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔
”منال.... میں معافی مانگنے آیا ہوں۔ مجھے اتنا وقت تو دو کہ میں تمہارے گلے شکوے دُور کر سکوں۔“ 
”کال سکیورٹی پلیز....“راہداری میں ایک دو لوگوں کی آمد رفت تھی۔ جن میں سے ایک سے منال نے کہا۔
”تمہیں میری محبت کا یقین نہیں....؟“ اس کی آواز پاتال سے آئی۔ منال کی آنکھیں بے تاثر ہی رہیں
” جو موجود ہی نہیں اس کا یقین کیا کرنا؟“ 
”جب تک تم سب جان نہیں لیتی تم مجھے ایسے دھتکار نہیں سکتی ۔یہ وہی عجرم ہے جس کے لئے تمہار ا دل خوبصو رت بنا تھا۔ جو کچھ ہواحالا ت کی وجہ سے ہوا۔ تم ایک شرمندہ انسان کو ایسے کیسے خود سے الگ کر سکتی ہو۔ تم اتنی بری طرح سے میرے جذبے کی تذلیل نہیں کر سکتی،تم ہاں کرو یا ناں، میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا۔ تمہارا رویہ برا ہو یا بدترین، مجھے فرق نہیں پڑتا۔ “
گارڈ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر چلنے کے لئے کہا۔ عجرم نے اس کا ہاتھ جھٹکا۔” میری بات سن کر جاو ¿ منال....“
منال بدستور اپنی فلیٹ کی طرف بڑھتی رہی.... 
”منال ....“ اس نے پوری قوت سے چلا کر پکارا۔ راہداری میں اس کی آواز گونجے لگی۔
”تم کیسے عجرم کے ساتھ ایسا کر سکتی ہو ۔“ وہ ویسے ہی چلا چلا کر بو ل رہا تھا۔ گارڈ اسے زبر دستی چلنے کے لئے اپنی طرف گھسیٹ رہا تھا۔ 
”میں نے غلطی کی لیکن ....“اس کی آواز دور ہو نے لگی۔دروازے کے پیچھے کھڑی منال نے اپنے آنسو صاف کرنے کی کوشش بھی نہیں کی۔
”مجھے لانے کے لئے اب اس نے تمہیں بھیجا ہے۔“ اس نے غائبانہ اسے مخاطب کیا۔ ”تم اس کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہو ناں.... مجھ سے دوستی بھی اور ....“کھڑے کھڑے وہ رونے لگی۔ بہت دنوں بعد وہ سنبھلی تھی۔ عجرم کو یہاں نہیںآنا چاہئے تھا۔ کاش کوئی ایسی جگہ ہو جہاںعجرم نام کی پرچھائی بھی نہ ہو۔ فون اٹھا کر اس نے سینٹ کو کال کرنی شروع کی۔ اسے اب یہ گھر بھی شفٹ کرنا تھا۔
٭ ٭ ٭
بے تحاشہ اداسی لئے وہ دل گرفتہ اپنی کار میں آکر واپس بیٹھ گیا۔ اس نے دُور اوپر منال کی کھڑکی کی طرف دیکھا۔اسے اس بلڈنگ سے ایک ہزار گز دور رہنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ ورنہ سکیورٹی اسے پولیس کسٹڈی میں دے دیتی، گارڈ اس کے سر پر کھڑا تھا کہ وہ کار اسٹارٹ کرے اور جائے۔ 
وہ داخلی دروازے کی طرف دیکھتا رہا کہ شاید وہ آ جائے۔ شاید وہ اسے کھڑکی سے دیکھ رہی ہو لیکن ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔وہ بہت مشکل سے اسے تلاش کرتا ہوا اُس کلائنٹ تک پہنچا تھا جس کا منال آج اس آفس میںکام کرنے گئی تھی۔ جس وقت وہ آفس سے باہر نکلی اسی وقت اس کی نظر اس پر پڑی۔ اس سے پہلے کے وہ کار سے باہر آتا۔ اس پر نظر پڑتے ہی منال ٹیکسی لے کر چلی گئی۔ وہ جہاں اس کے لئے سارا یتھنز کھنگال آیا تھا۔اس کے لئے اس شہر میں اس کا پیچھا کرنا کوئی مسئلہ نہیںتھا۔ وہ ا ٓسانی سے اس کی بلڈنگ تک پہنچ گیا تھا لیکن اسے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ یقین ہی نہیں کرے گی۔ ڈورس نے ٹھیک کہا تھا۔
”حقیقت معلوم ہوتے ہی وہ تم سے نفرت کرنے لگے گی۔ تمہیں ناپسند کرے گی۔“
اور حقیقت ڈورس کی بتائی بات سے زیادہ تباہ کن ثابت ہوئی تھی۔ اس کی نفرت اس کی ناپسندیدگی عجرم کو جلا گئی تھی۔ اس کی آنکھوں میں اس کے لئے پہچان کی کوئی رمق تھی نا ہی اس کے دل میں اس کے لئے محبت کا کوئی ماضی....
٭ ٭ ٭
”وہ ہے کون؟“ اسے ڈورس کی بات عجیب بھی لگی اورمضیکہ خیز بھی
”وہ جو کوئی بھی ہے وہ لڑکی ہے ۔اتنا کافی نہیں؟ تمہیں اس کے ساتھ فلرٹ کرنا ہے۔ اس کے دوست بن جاو ¿، اس کا دل توڑ دو اور بس.... اتنا سا ہی کام ہے۔“ 
”کم آن ڈورس !“ اسے ہنسی آ گئی۔” یہ بچوں والے کام، میرے پاس ان فضول کاموں کے لئے وقت نہیں ہے۔ میری طرف سے انکار ہے۔“ 
”اسی لئے کہہ رہی ہو ں کہ تمہارے پاس وقت نہیں ہوتا۔ تو تم ایک ہی یونیورسٹی جوائن کر لو، اس کی یونیورسٹی ، جو وقت تمہارے پاس ہو گا۔ وہ تم اس کے پاس رہ کر گزار لینا، یونیورسٹی کے علاوہ تم ایسے کیسے اس سے مل سکتے ہو....“
”کوئی مسئلہ ہے تم دونوں کے درمیان....؟“
”ہاں.... ہے مسئلہ.... مگرتم اسے کبھی بھول کر بھی میرے بارے میں نہ بتانا۔ تم صرف وہاں جاو ¿ اور بس....“
”نو....“ اس نے صاف انکار کیا۔” تم کسی اور سے کہہ دو....“ 
”کسی اور سے کہہ سکتی تو تمہیں نہ کہتی۔“ و ہ خفا ہو ئی۔” تم میرے دوست ہو مجھے صرف تم پر ٹرسٹ ہے....“
”نو....“ وہ مسلسل انکار کرنے لگا۔” یہ سب فضول کام ہیں.... غیر اخلاقی ‘ غیر انسانی....میں یہ نہیں کر سکتا....“
”ٹھیک ہے تم صرف اس کی یونیورسٹی چلے جاو ¿ اور اس کے دوست بن جاو ¿....نو فلرٹ۔ تمہارے جیسے انسان کا کسی کے ساتھ ملتے رہنا ہی کافی ہے۔ باقی کام وقت کردے گا۔“
”کیا مطلب....؟“
”تم نہیں سمجھو گے۔“
”تم پر تو نہیں کیا وقت نے کام.... میرے ساتھ رہتے رہتے۔“ اس نے آنکھ دبائی۔
”ہم اپنی بات بھی کر لیں گے۔ خود ہی تو کہتے ہو کہ ان باتوں کا ابھی وقت نہیں آیا۔“
”تمہارے لئے یہ آخری بار.... پھر تم مجھے تنگ نہیں کرو گی۔“
”آخری بار....پکا....“ وہ اٹھلائی۔” ویسے پہلے کبھی کوئی کام کیا ہے تم نے میرا ....؟ میں اپنے کام خود ہی کرتی ہوں۔“
”یہ بھی کر لونا پھر....“
”سمجھو یہ بھی خود ہی کر رہی ہوں۔تم اور میں ایک ہی تو بات ہے۔ اس نے شرارت سے کہا، عجرم خوش ہو گیا۔وہ اسے پسند کرتا تھا ‘ وہ جانتی تھی لیکن زیادہ گھاس نہیں ڈالتی تھی‘ یہ وہ جانتا تھا۔
”برداشت کر لو گی مجھے اس کے ساتھ....؟“
”ہاں .... تم پر اعتبار جو بہت ہے۔مجھے یقین ہے کہ تم میرے علاوہ کسی کے نہیں ہو سکتے۔“
پہلے دن وہ دونوں ایک ساتھ منال کی یونیورسٹی گئے تھے۔
عجرم کے لئے کسی کو مخاطب کرنا اور منٹوں میں خود سے فرینک کر لینا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ یہ مسئلہ صرف وہاں موجود منال کا تھا ورنہ یہ مسئلہ کسی کا بھی نہیں تھا۔ منال نے ایسے تعلیمی ماحول کو پہلی بار دیکھا تھا۔ سب کچھ اس کے لئے پہلی بار ہو رہاتھا۔ وہ سب کچھ پہلی بار دیکھ رہی تھی۔
”مجھے دیکھ کر وہ وہاں سے بھاگ رہی تھی۔ “وہ فون پر ڈورس کو بتا رہا تھا۔
”واو ¿....“
”روڈ.... یہ تو میری انسلٹ ہوئی ناں۔“ اس نے مصنوعی خفگی سے کہا۔ 
”اگر تم مجھے روز ایسے ہی رپوٹ دو گے تو مجھے غصہ آنے لگے گا۔ یہ تمہارا مسئلہ ہے۔ اگر تم اس کے روےے پر حیران ہو رہے ہو تو۔ وہ ایسے ہی تمہیں حیران کرے گی یا وہ کچھ نہیں کرتی یا بہت کچھ کرتی ہے۔جب ہم ملیں گے تو بات کریں گے۔“
”تم بھی روڈ ہی ہو۔“ وہ خفا ہوا۔
”ایسا ہی ہے۔ “اس نے قہقہہ لگایا۔
وہ ڈورس کی کون تھی وہ نہیں جانتا تھا۔ وہ ڈورس کو جانتا تھا۔ وہ سب فرینڈز ایک دوسرے سے بہت پیار کرتے تھے۔ وہ ہمیشہ سے ایک ساتھ تھے۔ سکول سے فارغ ہونے کے بعد ان سب نے کوشش کی کہ وہ سب ایک ہی ساتھ کالج میں رہ سکیں اوراگر کوئی اس کالج میں نہیں تھا تو وہ اکثر ایک ساتھ مل بیٹھتے تھے۔ وہ لڑتے تھے، ہنگامہ کرتے تھے،پارٹی کرتے تھے ۔ ان کی عادات‘ سوچ ‘ میں اختلاف تھا مگر دوستی میں نہیں۔ وہ سب کے سب ر چ کڈ تھے۔ خوبصورت اور خوش باش۔ انہوں نے زندگی کے وہ رنگ نہیں دیکھے تھے جو غم اور خوشی کے امتزاج سے بنتے ہیں۔ ڈورس اور عجرم میں دوسروں کی نسبت زیادہ دوستی تھی۔ باقی فرینڈز کا خیال تھا کہ انہیں مستقبل میں شادی کر لینی چاہئے۔
وہ ایک دوسرے کے قریب تھے۔ ایک دوسرے کو سمجھتے تھے۔ ڈورس نے اسے ایک لڑکی سے دوستی کے لئے کہا اور وہ مان گیا۔ اس نے ڈورس سے پوچھا کہ وہ کون ہے مگر شاید وہ بتانا نہیںچاہتی تھی۔اس نے بھی اصرار نہیں کیا۔
یونیورسٹی آنے کے بعد ،منال سے ملنے کے بعد، وہ جیسے اپنے گرو پ سے کٹ گیا۔اس کا حلقہ اس یونیورسٹی میں بھی لامحدود تھا۔ اس کے ہائے ہیلو فریندز کی کمی نہیں تھی مگر وہ منال کے ساتھ ہی رہتا تھا۔ اس کے ساتھ اس کی اچھی دوستی ہو چکی تھی۔ وہ قریباََ بھول چکا تھا کہ ڈورس منال کو جانتی ہے۔ وہ اس کے لئے اس کی یونیورسٹی فیلو تھی، ایک اچھی دوست۔ اس کے ساتھ وہ ٹرام میں سفر کرتا تھا۔ ایک بار ٹرام میں سفر کر کے اسے اچھا لگا تو و ہ کرنے لگا۔ وہ اس کی باتوں پر حیران ہوتی یا صرف ہنستی رہتی ۔ایک بار اس نے پوچھا۔
”تمہیں دنیا میں سب سے پیارا کون ہے؟“
وہ سوچنے لگی دراصل وہ سوچ رہی تھی کہ وہ بتائے یا نہ بتائے۔ وہ دکھی اور افسردہ نظر آنے لگی۔
”جو سب سے پیارا ہے وہ میرے ساتھ نہیں ہے....“
”کون....؟“ وہ مزے سے آئس کینڈی کھا رہا تھا۔
”میری ماں....“ اس نے دکھ سے بتایا۔ اس نے خوامخواہ اسے دکھی کر دیا تھا۔ وہ اس کا افسردہ چہرا دیکھنے لگا۔ اس کی آنکھیں بوجھل لگنے لگی تھیں۔ وہ شاید ابھی رو پڑتی، اسے خوش کرنے کے لئے وہ اسے لنچ پر لے گیا۔ اسے بار بار خود پر غصہ آ رہا تھاکہ اس نے بیٹھے بیٹھائے منال کو کیوں اداس کردیا تھا ۔
ڈورس کا دیا ٹاسک‘ دوستی میں بدل چکا تھا۔ اسے منال کی معصومیت پسند تھی‘ اور وہ اس سے باتیں کر کے خوش ہوتا تھا۔عجرم اس کے ساتھ ویسا ہی تھاجیسے اپنے باقی سب دوستوں کے ساتھ تھا۔ جیسا وہ تھا، اس نے خود کو منال کے لئے نقلی نہیں بنایا تھا۔ اسے خود سے کوئی بھی بات گھڑنے کی ضرورت نہیں تھی یا خود کو بدلنے کی، وہ وہی کرتا تھا جیسا وہ کرتا تھا۔ وہی اور ویسا ہی بولتا تھا جیسا وہ ہمیشہ بولا کرتا تھا۔منال کے لیے الگ سے ‘ نیا‘ یا خاص‘ اصلی یا نقلی اس نے کچھ نہیں کیا تھا۔۔ 
جس د ن اس نے اس کا گانا سنا، اسے ایک بار پھر سے شرمندگی ہوئی، اسے لگا اس نے اسے پھر سے اداس کر دیا ہے۔ وہ وہ گانا گا رہی تھی جو اس کی ماں گایا کرتی تھیں۔ اس رات اس نے رات گئے تک اس کے بارے میں سوچا تھا۔ اس کے گانے میں درد تھا۔ کیا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا لیکن اس گانے نے اسے ڈسٹرب کر دیا تھا۔سٹریٹ فیسٹیول میں ا س نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا ۔ اسے ڈر تھا کہ وہ گم ہو جائے گی۔ اس نے اس کا ہاتھ تھام کر کورس میں اٹالین گانا گایا۔ 
یہ اس کی غیر ارادی حرکت تھی۔ وہاں ڈورس یا کوئی بھی اس کی دوست ہوتی تو بھی وہ یہی کرتا۔ وہ یونیورسل لو کے لئے گایا جا رہا تھااو ر اس نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا تھا....بس.... مگر شاید اس نے غلطی کی۔ اس نے اگلے ہی لمحے سوچا۔ منال کی آنکھیں اس قدر روشن ہو گئی تھیں کہ وہ ان میں اپنی تصویر دیکھ سکتا تھا۔
وہ اس کی غلط فہمی دور کر سکتا تھا مگر اس نے نہیں کی.... بلکہ اس نے اسے وہ مالا پہنادی جسے وہ ہر بار فیسٹیول میں تلاش کرتا تھااور حیرت انگیز طور پر ہر بار اس مالا کو مس کر دیتا تھا‘ وہ اسے ملتی ہی نہیں تھی....ملی تب جب منال اسے ملی....
وہ کچھ بھی نہیں کر رہا تھا سب کچھ ہوتا جا رہا تھا۔ اس نے کچھ پلان نہیں کیا تھا۔ وہ اسے بے حد اچھی لگتی تھی۔ بہت پیاری.... اسے اس کا تصویریں لینا اچھا لگا۔ کبھی کبھا را ٓنے والا اس کا غصہ۔ کبھی کبھار کی جانے والیں اس کی بچکانہ ضدیں....
”oia....“اس کے لئے اس جگہ میں کوئی خاص چارم نہیں تھا۔ سب کے ساتھ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ بہت بار وہاں گیا تھا مگر منال کو تو جیسے کوئی خزانہ مل گیا تھا۔ 
ٍ ”تم چلو تو سہی.... دیکھو تو وہ کیسی جگہ ہے۔“
”میں دیکھ چکا ہوں۔ پلیز مجھے بور مت کرو۔ میں بہت بار جا چکا ہوں۔“
”صرف ایک بار میرے ساتھ....“ اس نے بچوں کی طرح کہا۔
وہ ابھی بھی بور ہو رہا تھا مگر اسے ضرور دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔ وہ ہر قدم ا یسے اٹھا رہی تھی جیسے کوئی پرندوں کے درمیان سے گزرتا ہے۔ایسے کے کوئی پرندہ ڈر کراُڑ نہ جائے۔
گنبد کی گھنٹیوں کے بجنے پر اس نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا تھا۔ 
”ان گھنٹیوں کی آواز سن کر لگتاہے ناں جیسے یہ کسی خوش خبری کی نوید دے رہی ہوں۔“ 
”مجھے تو لگ رہا ہے سترھویں صدی کے بچوں کو چھٹی دی جا رہی ہو سکول سے....“
”ڈرمر ہو اور میوزک کی بے عزتی کر رہے ہو....افسوس....“ 
”کیونکہ ان کی آواز میوزک جیسی نہیں۔“ وہ اسے چڑا رہا تھا
”ان کی آواز ڈرم سے نہیں نکل رہی ناں....“
”بہت سی آوازیں تو کہیں سے بھی نہیں نکلتیں۔ پھر بھی پیاری لگتی ہیں۔“
”ایسی کونسی آوازیں ہیں۔“ وہ ہنسنے لگا۔
”خواب کی آواز، یاد کی آواز، تصور کی آواز اور دوستی کی آواز....
”اوہ.... کم آن....“ اس نے اسے درمیان میں ہی ٹوکا۔” تم کچھ بھی کہو، گنبد کی یہ گھنٹی مجھے ویسی ہی لگے گی۔“ 
منال نے بے نام خفگی سی سے اس کی طرف دیکھا۔”how roud“اس نے اسی کا جملہ لوٹایا۔
پتہ نہیں وہ وہاں کیا تلاش کر رہی تھی۔ہر جگہ ہر کونے میں جا کر وہ کچھ نہ کچھ محسوس کرتی تھی ۔ شاید وہ اس لمحے کے انتظار میں تھی جو عجرم پر ظاہر ہو اور عجرم اسے کچھ کہہ دے.... اور اس نے کہہ دیا....
”تم نے یہا ںیہی سرگوشیاں سنی ہیں ناں کہ” دنیا بہت خوبصورت ہو جاتی ہے۔ جب ایک شخص کے لئے آپ کا دل خوبصورت ہو جاتا ہے۔“
وہ خاموش رہی۔
”کیا ایسا ہے منال؟“ اس کے دونوں ہاتھ تھام کر وہ پوچھتا رہا۔
”ہاں....“اس نے اقرار کر لیا تھا۔ اقرار عجرم نے بھی کر لیا تھا، وہ خوش تھا۔و ہ لمحہ اس پر بھی آشکار ہوا تھا جس میں اس نے خود کو منال کے قریب پایا تھا۔
واپس آتے ہی وہ سیدھا ڈورس کے پاس گیا۔ 
”منال کون ہے؟“عجرم کو معلوم تھا کہ وہ یہاں اپنے فادر کے ساتھ رہتی ہے۔ اس کی مدر کی ڈیتھ ہو چکی ہے۔ معلوم اسے یہ کرنا تھا کہ ڈورس کا اس کے ساتھ کیا مسئلہ تھا ۔
”کیا مطلب کون ہے....؟اور تم کہاں غائب رہے اتنے دن بنا بتائے۔ اب تم غائب بھی رہنے لگے ہو....“ڈورس کی بات میں طنز تھا۔
”میں تمہیں سب بتا دوں گا۔ تم یہ بتاو ¿ منال کون ہے۔ تم نے مجھے اس کے ساتھ فلرٹ کرنے کے لئے کیوں کہا۔ تم نے کیوں کہاتھا کہ میں اس کا دل بری طرح سے توڑوں....“
”تمہیں یہ سب پوچھنا اب کیوں یاد آ رہا ہے۔“ ڈورس کے اعصاب تن گئے۔ ”یہ ہم پہلے ڈسکس کر چکے ہیں۔“
”لیکن اس کے ساتھ تم ایسا کیو ں کرنا چاہتی تھی۔“
”میں تمہیںکیو ں بتاو ¿ں؟“
”پھر میں منال سے پوچھ لوں گا کہ تم کون ہو اور تم دونوں کے درمیان کیا مسئلہ ہے۔“
”تم منال سے یہ سب کہو گے۔ وہ سب بھی جو ہم دونوں کے درمیان طے ہوا؟“ 
”نہیں مجھے صرف یہ جاننا ہے کہ تم نے ایسا کیوں چا ہا کہ اس کے ساتھ ایسا ہو۔“
”کیونکہ میں اس سے نفرت کرتی ہوں۔ اتنی کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔“ ڈورس نے غصے سے کہا۔عجرم اس کی صورت دیکھنے لگا۔ اسے اتنا اندازہ تو تھا ہی کہ ڈورس کا منال کے ساتھ کوئی سیریس مسئلہ ہے لیکن ڈورس منال سے اتنی شدید نفرت کرتی ہے جتنا وہ چلا کر کہہ رہی تھی اس بات کا عجرم کا گمان تک نہ تھا۔
”مگر کیوں؟ اس نے ایسا کیا کیا ہے؟“
”جو کچھ بھی کیا ہے‘ مجھے و ہ شدید نا پسند ہے۔ وہ پاپا کی بیٹی ہے ا ن کی سیکنڈ وائف کی....“ 
”تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں کہ وہ تمہاری بہن ہے۔“وہ حیرت سے ڈورس کو دیکھ رہا تھا
ڈورس کے گھر ہونے والی گیدرنگ میں صرف ایک وہی تھا جو شامل نہیں تھا۔ ایک عجرم ہی ایسا تھا جسے اس کی بہن کے بارے میں معلومات نہیں تھی اور نہ ہی ڈورس نے کبھی اس کا ذکر کرتی تھی۔
”میں نے ضروری نہیں سمجھا۔“ اس نے کمال بے نیازی سے کہا۔ ”وہ پاپا کی بیٹی ہو گی میری بہن نہیں ہے۔“
”تم نے مجھے اپنی بہن کے ساتھ فلرٹ کرنے کے لئے کہا....؟“ وہ شدید حیرت لئے پوچھ رہا تھا۔
”تم شاید بھول رہے ہو عجرم ! تم فلرٹ کرنے کے لئے راضی نہیں ہوئے تھے۔ میں نے کہا تھا کہ تم صرف اس کے ساتھ دوستی کر لو....باقی کا م وقت کر دے گا۔“ڈورس نے جتا کر کہا
”وقت نے باقی کا م کر دیا ہے۔“
”اوہ گڈ! ٹھیک ہے۔ تو اب تم اسے چھوڑ دو.... تمہارا کام ختم ....“
” مجھے یقین نہیں آرہا ڈورس! تم اتنی ظالم ہو سکتی ہو؟تم جانتی ہو جب اسے یہ معلوم ہو گا کہ میں تمہارا فرینڈ ہوں تو اس پر کیا گزرے گی۔“
نہ اس نے ایسے کسی کے ساتھ فلرٹ کیا تھا نہ اسے ضرورت تھی۔ نہ اس کے پاس حسن کی کمی تھی اور نہ ہی پیسے کی.... یہ ہی ایک کام تھا جو اس کے گروپ کا کوئی لڑکا نہیں کرتا تھا۔انہیں گرل فرینڈز کے نام پر فضول سی لڑکیوں کے ساتھ دوستی کرنے کی عادت نہیں تھی۔
اس کا خیال تھا کہ ڈورس کاحسب معمول کوئی چھوٹا سا فضول سا جھگڑا یا مسئلہ ہو گا۔جیسا کہ اس کا اکثر ہو جاتا تھا اور پھر وہ نت نئی ترکیبوں سے بدلہ لیتی تھی اور اس سب معاملے میں وہ اپنے دوستوں کو بھی معاف نہیں کرتی تھی۔منال سے ملنے کے بعد وہ بھول ہی گیا کہ وہ ڈورس کے کہنے پر اس سے ملا تھا۔
ڈورس اسے اپنی نا پسندیگی کی وجہ بتا رہی تھی۔ اس کے الجھن زدہ چہرے کو دیکھ کر اس نے کہا۔
”ٹھیک ہے چھوڑ دو سب....“ 
”کسے چھوڑ دوں....؟“
”منال اور یونیورسٹی دونوں کو....میرے ہی کہنے پر تم نے منال سے دوستی کی تھی ناں۔ تمہیں اگر مسئلہ ہے تو چھوڑ دو....“
”مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔“ اس نے اطمینان سے کہا۔ ”اب میں کسی کو بھی چھوڑ سکتا ہوں۔ منال کو نہیں....“
ڈورس نے سوالیہ نظروں سے اس کہ طرف دیکھا۔ 
“i am in love with her“
” محبت....؟“ ڈورس ہنسی۔” اس سے....؟؟؟“
”مذاق مت اڑاو ¿.... کوئی شخص اپنی محبت کا مذاق اڑایا جانا برداشت نہیں کر سکتا۔“
اس نے حد درجہ سنجیدگی سے اس کی طرف دیکھا۔ڈورس کے آس پاس چھوٹے چھو ٹے دھماکے ہونے لگے۔ 
”منال سے محبت....؟ تم اس سے محبت نہیں کر سکتے۔“ ڈورس کو گہرے صدمے سے بری طرح چوٹ لگی۔ ہر بار منال اسے کیسے نقصان پہنچا سکتی ہے ....
”میں نہ کرتا اگر میرے اختیا ر میں ہوتا۔ بس میرا اختیا ر مجھ پر سے ختم ہو گیا ہے۔میں اس کی خوبیاں اور خامیاں نہیں جانتا مگر میں اسے بے حد پسند کرتا ہوں۔“ 
”اور میں....؟؟؟“‘ڈورس جیسے ٹوٹنے ہی تو والی تھی۔
”تمہیں اب کیوں اپنا خیال آ رہا ہے ڈورس ....؟میں نے تم سے جب بھی جواب مانگا تم نے یہی کہا کہ ابھی نہیں.... ابھی نہیں....تم سوچوں گی، پھر جواب دو گی ۔ اور یہ کہ میں تمہارے انتظار میں نہ رہوں۔تمہیں بھی کوئی ملے گا تو تم اس سے شادی کر لو گی اور مجھے بھی کوئی ملے تو میں اس سے شادی کر لوں....“
”لیکن میں تمہیں چاہتی ہوں عجرم....“
”تم مجھے نہیں چاہتی ....تمہیں صرف یہ بات ہرٹ کر رہی ہے کہ میں نے تم پر تمہاری بہن کو فوقیت دی ہے۔“
”میں نے تم پر ٹرسٹ کیا۔“
”میں نے کچھ برا نہیں کیا ڈورس!“ وہ نرمی سے بولا۔” تمہارے ذاتی اختلافات اپنی جگہ مگر وہ تمہاری بہن ہے۔“ 
”جب منال کو یہ بات معلوم ہو گی کہ تم میرے کہنے پر اس کے پاس گئے تھے تو وہ تم سے نفرت کرے گی۔“
”کیا تم اسے بتاو ¿ گی....؟“
”ہاں میں بتاو ¿ں گی۔“ اس نے صا ف صاف جواب دیا۔” اگر میں نے نہ بھی بتایا توایک نہ ایک دن اسے معلوم ہو ہی جائے گا ۔ تم کب تک چھپاو ¿ گے؟“
عجرم جانتا تھا وہ ٹھیک کہہ رہی ہے۔ اگر اسے خود سے پتہ چلا تو وہ ہرٹ ہو گی۔اگر عجرم نے بھی بتایا تو بھی شاید ہی کچھ اچھا ہو ۔
”سچائی جانتے ہی وہ تم سے نفرت کرنے لگی گی۔ وہ پاپا سے نفرت کرتی ہے،مجھ سے بھی، ہم سب سے کرتی ہے۔ حقیقت جان لینے کے بعد وہ تم سے بھی کرے گی۔ وہ تمہاری طرف پلٹ کر دیکھے گی بھی نہیں....“
عجرم نے خود کو بے انتہا بے بس محسوس کیا۔ منال ہر بار صرف اپنی ماں اور پاکستان کا ذکر کرتی تھی۔ اس نے کبھی بھول کر بھی سکندر احمد یا ڈورس کا ذکر نہیں کیا تھا....عجرم جانتا تھا یہ حقیقت ہے جس سے اس کا سامنا جلد ہی ہونے والا ہے۔اسے خود پر افسوس ہو رہا تھا۔ڈورس کے کہنے پر اس نے یہ سب کیوں کیا۔ وہ کب سے اتنا گھٹیا ہو گیا تھا۔ جب اسے یہ معلوم ہو گا تو وہ ہرٹ ہو گی۔ اسے لگے گا کہ ا س کی ہر با ت جھوٹ تھی۔
اس کی ہر بات جھوٹ ہی بننے والی تھی۔
٭ ٭ ٭
اب وہ صرف اتناہی کر سکتا تھا کہ ڈورس اور منال کے تعلقات بہتر ہونے تک کا انتظار کرے۔ اور ڈورس اپنے وعدے کے مطابق خود ہی منال کو سب کچھ بتا دے۔اس نے یونیورسٹی جانا چھوڑ دیا۔ وہ منال سے دُور ہی رہنا چاہتا تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اچانک منال کو کسی طرح سے معلوم ہو اور وہ یہ سمجھے کہ وہ ڈورس کے کہنے پر اس کے ساتھ وقت گزارتا رہا ہے۔ اس نے اسے فون کیا اسے بتایا کہ وہ ملک سے باہر جا رہا ہے اور کچھ عرصے کے لئے اس سے رابطہ نہیںرکھ سکے گا۔ وہ چاہتا تھا کہ منال بلاوجہ پریشان نہ ہو۔ اس دوران وہ ڈورس سے اصرار کرنے لگا کہ وہ اس صورتحال کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرے۔
ٹیمپل میں اس کی آواز پر وہ کیسے پلٹتا، جب وہ اس سے کہہ چکا تھا کہ وہ وہاں نہیں ہے۔ اسے نہیں اندازہ تھا کہ اتنے بڑے شہر میں اسے دیکھ لیا جائے گا۔ اسے خوف تھا کہ وہ اس کی ہر بات اس کے منہ پر دے مارے گی۔ اس کے سب سچ جھوٹ بن جائیں گے۔
جب محبت ہوتی ہے تو ہزار طرح کے خدشے اور وسوسے بھی اپنے آپ ہی نمو پانے لگتے ہیں۔ وہ اس ردعمل کا سوچ کر سہم جاتا تھا جو منال کا اس ساری کہانی کو سنانے کے بعد سامنے آنے والا تھا۔ وہ خود سے باتیں کرتا تھا‘ اسے اپنے سامنے کھڑا کر کے‘ غصے سے بھری اس کی آنکھوں ‘ اور تلخ سوالوں کے جواب دیتا رہتا تھا۔
اس رات سب فرینڈزاچانک ہی اس کے فلیٹ میں آ گئے۔ ڈورس سب کو اکھٹا کر کے لائی تھی۔ ان سب کی آمد کے ٹھیک ڈیڑھ گھنٹے بعد ڈور بیل ہوئی ۔ وہ کچن میں ان سب کے لئے کوکنگ کر رہا تھا۔
جب وہ باہر آیا تو سامنے منال کھڑی تھی۔ پاس ہی ڈور س کھڑی تمسخر سے اسے گھور رہی تھی۔ 
وہ جتنی حیرت ظاہر کر سکتا تھا اس نے کی۔ وہ یہاں رات کو اس وقت کیوں آئی تھی؟ جب کہ اسے معلوم ہے کہ وہ یہاں نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا تھا کہ منال رات کو اس کے فلیٹ میں چیک کرنے آئی ہو کہ وہ یہاں ہے یا جھوٹ بول رہا ہے۔
ڈورس نے بڑی ادا سے عجرم کے کندھے پر اپنا بازو اور پھر اس بازو پر اپنا سر رکھا تھااور پھر مسکرائی تھی۔عجرم کو ساری بات سمجھنے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگا تھا۔ڈورس نے اسے دھوکہ دیا تھا۔ منال کی آنکھوں میں آنسو بھر گئے۔ 
”منال!“عجرم نے اسے پکارا .... مگر وہ نہیں رکی....
جاتے جاتے وہ اپنی واضح نفرت کا ثبوت دے گئی تھی۔ مالا گرتے ہی ٹوٹ چکی تھی۔ عجرم نے اس کا ایک ایک موتی چنا، وہ صرف ایک مالا ہوتی تو وہ اسے وہاں پھینک کر نہ جاتی۔وہ اس کی محبت اُتار کر پھینک گئی تھی۔ جتنی تیزی سے وہ اس کے پیچھے گیا تھا اتنی ہی سست روی سے واپس آیا۔ اب اس کا کہیں کچھ نہیں رہا تھا۔ وہ اسے فون کر رہا تھا مگر فون پر اس کی کال ریسیو نہیںکی جا رہی تھی۔ یہ بد ترین انجام تھا جو اس سارے واقعہ کے ساتھ ہوا تھا۔ سب حیرا ن پریشان کھڑ ے تھے سوائے ڈورس کے....
”یہ تم نے کیا کیا ڈورس....؟“ اس کا لہجہ اور انداز دونوں خطرناک تھے۔ 
”کچھ بھی نہیں ....تمہارے موبائل سے اسے ٹیکس کیا کہ وہ یہاں آجائے۔ وہ یہاں آگئی اور ہمیں دیکھ کر پریشان ہو گئی۔ شاید وہ ہمیں یہاں ایکسپکٹ نہیں کر رہی تھی۔“ڈورس مزے سے اسے بتانے لگی۔
”وہ مجھے بھی یہاں ایکسپکٹ نہیں کر رہی تھی۔ تمہیں معلوم تھا کہ میں اس کے لئے ملک سے باہر ہوں۔ جب میں یہاں ہوں ہی نہیں تو تم نے یہ حرکت کیوں کی....؟“ اس کے لہجے اور آنکھوں سے جیسے شعلے نکل رہے تھے۔
”میں نے وہی کیا جو مجھے کرنا چاہیے تھا۔ تم صرف میرے ہو....“ڈورس بھی سیدھے اصل بات پر آ گئی۔
”کب سے....؟“
”جب سے ہماری دوستی ہوئی ہے تب سے....“
*جاری*


No comments:

غازی از ابو شجاع ابو وقار قسط نمبر60 Ghazi by Abu Shuja Abu Waqar

Ghazi  by  Abu Shuja Abu Waqar  غازی از ابو شجاع ابو وقار  پیشکش محمد ابراہیم 60 آخری قسط نمبر  Ghazi by Abu Shuja Abu...

Powered by Blogger.