رقصم_از_ایمل_رضا قسط نمبر 15
رقصم_از_ایمل_رضا
قسط نمبر 15
”آپ صرف تھوڑی دیر کے لئے
چلے جایا کریں۔ میںآ پ کے ساتھ ہوں گی۔ آپ کی وہاں موجودگی ضروری ہے۔“ وہ چاہتی
تھیں کہ وہ گھر سے باہر نکلے۔ کام میں اپنا دل لگائے۔
”میں نہیں جانا چاہتا۔“ ہر بار کا ایک ہی انکار۔ ان کے چہرے پر بے چارگی چھا
گئی۔
”آپ جانتے ہیں مجھے آپ سے زیادہ اور کچھ پیار انہیں۔ مجھے کاروبار کے تباہ ہونے کی
نہیں۔ آپ کی فکر ہے۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ میں اس کے سب معاملات نہیں دیکھ سکتی اور
مجھے ان معاملات کے لئے آ پ کی ضرورت ہے لیکن اب اگر آپ نہیں آنا چاہتے تو میں
اصرار نہیں کروں گی۔آپ کے آرام کے ساتھ میں چاہتی ہو ں کے آپ کا کام میں دل لگ
جائے۔ “
وہ اتنی اچھی تھیں کہ ہر بار حالا ت کے ساتھ انہیں ہی سمجھوتا کرنا پڑتا تھا اور و
ہ جی جان سے کرتی بھی تھیں۔ وہ ایک با ہمت اور ہمدرد خاتون تھیں مگر کچھ باتوں کے
لئے ساری ہمت بھی کم ہی ہوتی ہے۔ اتنا پھیلا ہوا کاروبار۔ اس کے مسائل، گھر، سکندر
احمد کی دیکھ بھال، یہ ان کہ ہمت ہی تھی جو سب دیکھ رہی تھیں۔
سکندراحمد نے ان کی طرف دیکھا.... ان کی شریک حیات تھک گئی تھی ....وہ دیکھ سکتے
تھے/
”ٹھیک ہے ....میں آوں گا۔“
ہفتے میں ایک بار آنے کی کوشش کرتے کرتے وہ روز آنے لگے۔ کچھ وقت کے لیے ہی سہی
لیکن وہ آفس میں موجود ہوتے تھے۔ ان دو کے ساتھ ڈورس بھی آفس آتی تھی۔ پہلے سکندر
احمد اکیلے ہی اتنا کام کر لیتے تھے کہ وہی کام اب وہ تین دیکھ رہے تھے۔
اکثر ڈورس اپنا لنچ لے کر ان کے آفس آتی تو وہ اٹھ جاتے،
” میں گھر جا رہا ہوں صوفیہ!“ کہتے اور چلے جاتے۔
صوفیہ ڈورس کو دیکھتیں۔” تم جانتی ہو ابھی وہ ٹھیک نہیں ہیں پھر بھی....“
” پھر بھی میں ضدی ہوں کہ ان کے ساتھ لنچ کروں گی۔ میں اور کتنا صبر کروں ماما؟“
” جتنے صبر سے وہ اپنی بیٹی کی گمشدگی کا دکھ جھیل رہے ہیں ‘ اتنا۔“
ڈورس ہونٹ کاٹ کر رہ گئی۔پاپا کے ایسے رویے نے اس کے اندر سے زندگی کا سارا حسن
نچوڑ لیا تھا۔ وہ انہیں مر کر دکھا دیتی اگر اس سے ان کا غم کچھ کم ہو جاتا۔
وہ دونوں واپس گھر کی طرف آ رہے تھے ۔ جب انہوں نے کھڑکی میں سے سر نکال کر چلا کر
آواز دی۔
”منال ! وہ دیکھو .... مجھے اس گاڑی میں نظر آ رہی ہے۔“
انہوں نے سڑ ک پر تیز رفتاری سے گزرتی کار کی طرف اشارہ کیا۔
’ جلدی چلو اس کے پیچھے....“
ان کا بس چلتا تو اتر کر دوڑ لگا دیتے۔ دس منٹ تک کار کا پیچھا کرنے اور اسے رکنے
کا کہہ کر وہ اپنی گاڑی میں واپس آ کر بیٹھ گئے۔
وہ کوئی ایشن لڑکی تھی۔ منال سے دُور دُور تک نہیں ملتی تھی۔صوفیہ نے روکے جانے پر
اس سے معذرت کی تھی۔
”مجھے پورا یقین تھا کہ وہ منال ہی ہے۔“ وہ شرمندہ ہو رہے تھے۔
”مجھے بھی دیکھ کر ایسا ہی لگا تھا۔“انہوں نے ان کی تائید کی کہ انہیں رد کرنا
انہوں نے سیکھا ہی نہیں تھا۔
”آپ جانتے ہیں وہ آپ سے بہت پیار کرتی ہے۔ وہ صرف آپ کو تھوڑے سے زیادہ تنگ کر رہی
ہے۔“
”کاش ایسا ہی ہوتا....“
”آپ ایک بہترین انسان ہیں۔ اپنی گلٹ کو ختم کے لیں۔ آپ کو ناپسند کیا ہی نہیں
جاسکتا۔ جو کچھ ہوا و ہ حالات کی وجہ سے ہوا، جانتے بوجھتے آپ نے کچھ نہیں کیا۔ آپ
نے اپنی پوری کوشش کی معاملات کو سلجھانے میں لیکن بس سب کچھ ہوتا ہی چلا
گیا۔“
”مجھے سچا ثابت کر رہی ہو۔“ انہیں یقین نہیں تھا ان کی باتوں پر....
”آپ کو بتا رہی ہو ں کہ آپ غلط انداز میں خود کو سرزنش کرتے ہیں۔ “
”میری بیٹی گھر چھوڑ کر جا چکی ہے ۔ میں کیا کروں....“ بے بسی سے انہوں نے سیٹ کی
پشت سے سر ٹکا لیا۔” کاش میں اسے یہاں لایا ہی نہ ہوتا۔ اسے کہیں او ر رکھ لیتا۔
اسے الگ گھر لے دیتا مگر میری خواہش تھی کہ میری ایک ہی فیملی ہو اورایک ہی جگہ،
ایک ہی گھر میں ہو۔ “
”آپ نے بلکل ٹھیک کیا۔ اسے اور ہم سب کو ایک ساتھ ہی رہنا ہے۔ وہ میری بھی بیٹی
ہے۔ آپ ایسے ....نہ اس کے لئے نہ ہی اپنے لئے سوچیں۔ میں نے ہمیشہ آپ کو ضرورت سے
زیادہ جذباتی ہونے سے روکا، منع کیا، آپ کی محبت کی انتہا نے ڈورس کو ایسا بنا
دیا۔ مجھے کبھی بھی آپ کی ڈورس سے محبت پر اعتراض نہیں رہا .... انداز محبت پر رہا
ہے۔ آپ کی ہی محبت میں اس نے خود کو حال سے بے حال کر لیا ہے۔ آپ کی لاتعلقی نے
اسے پاگل کر دیا ہے۔ وہ رات دن اسے ہر جگہ ڈھونڈتی رہتی ہے۔وہاں بھی جہاں منال ہو
ہی نہیں سکتی۔ آپ جو کبھی اس سے ناراض نہیں ہوئے تھے اب آپ نے اس کی طرف دیکھنا ،
اس سے بات کرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ محبت ایسے ہی موقعوں پر آزمائی جاتی ہے کہ جب نفرت
بڑھنے لگے تو محبت بڑھ کر نفرت کو محبت میں بدل دے۔ کچھ بھی ہو سکندر ماضی میں
تبدیلی کا وقت گزر چکا ہے۔ تبدیلی حال میں ہی کی جا سکتی ہے۔ ماضی کے لئے صرف رویا
جا سکتا ہے یا اسے بھلایا جا سکتا ہے۔“
٭ ٭ ٭
”کھڑی نیم کے نیچے ہو ں تھاںہیکلی
جاتڑو واٹا رو منا ںجھانی مانی دیکھ لے“
”منال سینٹ سے شادی کر رہی ہے۔ “عجرم نے بلا کی سنجیدگی سے ڈورس کو اطلاع
دی۔
”کیا ....؟ کہاں ہے منال ....؟ تمہیں پتہ چلا اس کا....؟ بتاو ¿ جلدی....“
”مجھے صرف اتنا معلوم ہوا ہے کہ وہ دونوں شادی کر رہے ہیں۔“
”سینٹ سے ....؟ ناممکن.... وہ کیوں کرے گی اس سے شادی۔“ ڈورس سینٹ سے ملی نہیں تھی
لیکن عجرم کے ذریعے سے اسے جانتی تھی۔
”مذاق کر رہے ہو ناں....؟“ اسے یقین آتا بھی کیوں۔ ”تمہیں کیسے معلوم ہوا یہ
سب....؟“
وہ اسی طرح خاموشی سے بیٹھا اس کے سوال در سوال سن رہا تھا۔
”میرے ایک فرینڈنے اسے ایک ایشن لڑکی کے ساتھ دیکھا ہے۔میں نے اسے منال کی تصویر
دکھائی تو اس نے تصدیق کر دی کہ یہ وہی لڑکی ہے جسے اس نے سینٹ کے ساتھ دیکھاتھا۔“
”تم سینٹ سے ملے....؟“
”نہیں ....“ عجرم نے گہری سانس لی۔” اس نے اپنا گھر بدل لیا ہے۔ مجھے بس اتنی ہی
معلومات ملی ہیں۔ اس سے رابطہ ہی نہیں ہو رہا ہے۔ آئے دن وہ اپنے ٹھکانے بدلتا
رہتا ہے۔ کئی شہر بدل چکا ہے۔ معلوم نہیں وہ یہاں ایتھنز میں ہے بھی کہ نہیں۔ اسے
ایک جگہ سکون نہیں ملتا۔ پتہ نہیں وہ ملتا ہے یا نہیں۔“
”کوشش کرو عجرم! پلیز.... وہ کیسے ایسا کر سکتی ہے۔“
”ہاں .... وہ ایسا کیسے کر سکتی ہے۔“
ڈورس سے کہا تھا یا خود سے پوچھا تھا۔اس کے لہجے میں کچھ ایساضرور تھا کہ ڈوروس
چند لمحے اس کی طرف دیکھتی رہ گئی ۔
”جھر مر جھرمر مبلا برسے۔ بھنوری لولا گائے
مور پاپیا میٹھا بولے کوئل شور مچائے
اوتھاں ناں پوچھاں جھیل بھانوریا ہیکلی
جاتڑو واٹا رو منا ںجھانی مانی دیکھ لے“
” منال ایسا سوچ بھی کیسے سکتی ہے؟“
”کیوں نہیں سوچ سکتی....؟“ عجرم نے استہزائیہ لہجے میں پوچھا۔” کیا وہ تم سے پوچھ
کر شادی کرے گی یا مجھ سے....؟“
”مجھے نہیں معلوم....“ اس نے ایک ٹھنڈی سانس لی۔” لیکن اسے یہ شادی نہیں کرنی
چاہیے....“
عجرم نے خاموش نظروں سے ڈورس کو د یکھا ....
”او نٹھے چڑھیواونٹھرونی رڑیو رڑیو جائے
سانسری مورا جھیل بھانوریو ماسا دریو جائے
جاتڑو واٹا رو منا ںجھانی مانی دیکھ لے“
”اور تم یہ کیا ہر وقت عجیب سا گانا سنتے رہتے ہوعجرم !ایک تو آگے ہی میں بہت سیڈ
ہو ں اوپر سے یہ سیڈ سا سونگ....“
ڈورس نے کہا اور آگے بڑھ کر میوزک پلیز آف کر دیا۔
”کھڑی نیم کے نیچے....“آگے کے الفاظ بند ہو گئے۔
٭ ٭ ٭
”منال کہاں ہے....؟“ بہت کوششوں سے اس کا پتہ کرنے کے بعد انہوں نے اسے ایک
لائبریری سے پک کیا تھا۔
”من .... آل ....؟؟؟“اس نے کھانے کا آڈر آرام سے دینے کے بعد پوچھا۔اور منال کا
نام بلکل اسی طرح لیا جس طرح پہلی بار لیا تھا۔ ”مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہو۔؟“
”جھوٹ مت بولو.... تم جانتے ہو کہ وہ کہاں ہے۔“
”میں کیوں جانوں گا۔ وہ میرے ساتھ رابطے میں نہیں ہے۔“
”وہ تمہارے ساتھ رابطے میں نہیں ہو گی مگر تمہارے ساتھ ضرور ہو گی۔“ عجرم چبا چبا
کر بولا۔” بہت سے لوگوں نے اسے تمہارے ساتھ دیکھا ہے۔ اس شہر کو وہ جتنا بھی جانتی
ہو مگر ایسے گم نہیں ہو سکتی۔ اس کی مدد یقیناََ تم نے کی ہے۔“
سینٹ مزے سے سلاد کھاتارہا۔ اس کی واضح قطع میں بڑی تبدیلی آئی تھی۔ اس کے عجیب و
غریب حلےے کو انسانوں والا حلیہ مل گیاتھا
۔ اس کے گنجے سر پر بال آ گئے تھے اور انسانوں کی طرح ہی بنے ہوئے تھے۔
”بتاو
”بتاو ¿ سینٹ وہ کہاں ہے؟“ ڈورس نے بے چینی سے پوچھا۔
”تم کون ہو.... تم نے اپنا تعارف نہیں کروایا۔“ سینٹ کے لہجے میں کچھ تھا ۔ ڈورس
اس کے سوال سے جیسے سہم سی گئی۔
”میں ڈورس ہو ں....منا ل کی ....بہن.... “
”بہن .... ؟اچھا ؟حیر ت ہے۔ “
”کیوں....؟“ وہ یہ سوال نہ پوچھتی اگر سینٹ کا لہجہ اتنا بے رحم نہ ہوتا۔
” کیونکہ بہت عجیب لگ رہا ہے کہ ایک بہن اپنی بہن کے بارے میں ایک اجینی سے پوچھ
رہی ہے کہ وہ اسے اس کی بہن کے بارے میں بتا دے۔بہن کو تو خود معلو م ہونا چاہیے
کہ اس کی بہن کہاں ہے۔“
”وہ ناراض ہو کر گئی ہے۔“ ڈورس کی آواز کمزور پڑ گئی
” کس سے؟“
” ہم سب سے؟“
” ہم سب کون؟“
” مجھ سے اور پاپا سے؟“
” اسے ناراض ہی رہنے دو ‘کیوں ڈھونڈ رہے ہو؟“وہ طنز سے ہنس دیا
”پلیز مجھے بتاو ¿ سینٹ! کہ وہ کہاں ہے۔“
”مجھے نہیں معلوم کہ وہ کہاں ہے....“ ایک ہی جواب ....ایک ہی انداز....
”غلطی میری تھی‘ میں اس سے معافی مانگ لوں گی۔“
” یہ تم لوگوں کا فیملی ایشو لگتا ہے۔ میں اس بارے میں کیا کہہ سکتا ہوں۔“
”تم اس سے شادی کر رہے ہو؟“ عجرم نے اپنی طرف سے اس پر یہ انکشاف کیا کہ وہ جانتا
ہے وہ کیا کر رہا ہے۔سینٹ نے ایسے شانے اور سر کو ہلایا ‘ جیسے اسے نہیں معلوم کہ
وہ کیا پوچھ رہا ہے۔
” تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو۔ تم مجھ پر شک کرر ہے ہو؟“
”شک ہے یا حقیقت....تم بتاو ¿....“
”حقیقت....؟ تم نے ایسا سوچا بھی کیسے....؟؟“
”اس سے شادی کرنے کے لئے تم نے خود کو بدلا ہے نا؟دیکھو خود کو....“
” صبح ہی دیکھ کر نکلا تھا ....اوہ مین....“ سینٹ دیر تک ہنستا رہا۔
”تم ہمیں بتانا ہی نہیں چاہتے۔ تم بات کو گھما رہے ہو۔ تم اس سے شادی کر رہے ہو۔
تمہیں وہ اچھی لگتی تھی۔ تم نے مجھے خود بتایا تھا کہ وہ تمہیں اچھی لگتی ہے۔ “
”وہ مجھے اچھی نہیں بہت اچھی لگتی ہے.... تو....؟“وہ ساتھ ساتھ کھا رہا تھا۔” کیا
اچھے لوگ اچھے نہیں لگتے....؟اور جہاں تک رہا شادی کا تعلق عجرم!....“ اس نے دونوں
کی طرف باری باری دیکھا۔ ”جب اچھابننے والے لوگ اچھے لوگوں کی قدر نہ کریں توان
بیچاروں کو برے لوگوں کی ہی ضرورت پڑتی ہے اور میں اس کی قدر کرتا ہوں۔ میں برا
ہوں یا اچھا ہوں۔میں نہیں جانتالیکن وہ اچھی ہے۔ مجھے اتنا معلوم ہے۔“
اس کے انداز کا ہر تاثریہ بتا رہا تھا کہ وہ اگر جانتا بھی ہے تو بتائے گا نہیں۔
ڈورس بے انتہا مایوس ہو گئی۔ عام حالات میں ایسے کورے جواب پر وہ اس کا سر پھاڑ
سکتی تھی مگر اب اسے برداشت ہی کرنا پڑا۔
”ایسے الٹے سیدھے سوالوں کے لئے مجھے دوبارہ لنچ آفر مت کرنا۔ اچھے کھانے کے ساتھ
مجھے اچھی گفتگو چاہئے ہوتی ہے ورنہ خاموشی بھی کم لذیز نہیں ہوتی۔“سینٹ نے ہاتھ
نیپکن سے صاف کئے۔....یعنی وہ جا رہا تھا۔
”میں درخواست کرتا ہوں کہ تم اس کے بارے میں بتا دو۔ اس کے گھر والے بہت پریشان
ہیں۔“
”اور تم ....؟ تم نہیں ہو پریشان....؟“ سینٹ نے براہ راست اس سے پوچھا۔
”نہیں ....“عجرم نے ڈورس سے نظریں چراتے ہوئے کہا۔
”تو پھر یہاں کیا کر رہے ہو....؟“اس نے الٹا سوال کیا۔
”یعنی تمہیں معلو م ہے کہ وہ کہاں ہے۔“ ڈورس پھر بولی۔ جب کے ڈورس کوا ندازہ بھی
تھا کہ وہ اس کے سولوں کے جواب نہیں دے رہا سوائے اس کی بے عزتی کرنے کے .... وہ
بھی بہت طریقے سے....
”میں تمہارے کسی بھی سوال کا جواب دینے کے لئے پابند نہیں ہوں مس ڈورس ! میں اس کا
پتہ رکھنے کا پابند ہوں نہ ہی اس سے رابطے میں۔ اگر تمہیں وہ چاہئے تو تم اسے خود
تلاش کرو کیونکہ میرا خیال ہے جو گم کرتا ہے اسے ہی ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ دنیا کا
دستور ہے۔ اور اس دستور کو بدلنے کا میرا فی الحال کوئی ارادہ نہیں۔تمہارے گھر
والے پریشان ہیں خدا ان کی پریشانی دُور کرے۔ میں ہمدردی کر سکتا ہوں مگر کوئی مدد
نہیں۔ اگر مدد کر سکتا تو ضرور کر سکتا کیونکہ میرے برے حالات میں عجرم نے میرا
سٹوڈنٹ بن کر میری ہمدردی کی تھی۔“
”میں اتنا جانتا ہوں سینٹ کہ تم جانتے ہو کہ وہ کہاں ہے۔ میرا اندازہ غلط نہیں ہو
سکتا۔“
”اندازہ ....؟“ وہ دل کھول کر ہنسا۔” تم اندازے ہی لگا سکتے ہو۔ تم یقین کرنا کب
سیکھو گے۔؟“
”طنز کر رہے ہو....؟“
”حقیقت بتا رہا ہوں۔ برا لگا تو معذرت کرتا ہوں۔ میراکوئی ذاتی مسئلہ نہیں ہے
تمہارے ساتھ۔ مجھے جانے دو....“
”یہ جانتا ہے ، نا صرف جانتا ہے بلکہ سب حالات سے بھی واقف ہے۔ یا شادی کر چکاہے
یا کرنے والا ہے۔ “
”بتاو ¿ سینٹ وہ کہاں ہے؟“ ڈورس نے بے چینی سے پوچھا۔
”تم کون ہو.... تم نے اپنا تعارف نہیں کروایا۔“ سینٹ کے لہجے میں کچھ تھا ۔ ڈورس
اس کے سوال سے جیسے سہم سی گئی۔
”میں ڈورس ہو ں....منا ل کی ....بہن.... “
”بہن .... ؟اچھا ؟حیر ت ہے۔ “
”کیوں....؟“ وہ یہ سوال نہ پوچھتی اگر سینٹ کا لہجہ اتنا بے رحم نہ ہوتا۔
” کیونکہ بہت عجیب لگ رہا ہے کہ ایک بہن اپنی بہن کے بارے میں ایک اجینی سے پوچھ
رہی ہے کہ وہ اسے اس کی بہن کے بارے میں بتا دے۔بہن کو تو خود معلو م ہونا چاہیے
کہ اس کی بہن کہاں ہے۔“
”وہ ناراض ہو کر گئی ہے۔“ ڈورس کی آواز کمزور پڑ گئی
” کس سے؟“
” ہم سب سے؟“
” ہم سب کون؟“
” مجھ سے اور پاپا سے؟“
” اسے ناراض ہی رہنے دو ‘کیوں ڈھونڈ رہے ہو؟“وہ طنز سے ہنس دیا
”پلیز مجھے بتاو ¿ سینٹ! کہ وہ کہاں ہے۔“
”مجھے نہیں معلوم کہ وہ کہاں ہے....“ ایک ہی جواب ....ایک ہی انداز....
”غلطی میری تھی‘ میں اس سے معافی مانگ لوں گی۔“
” یہ تم لوگوں کا فیملی ایشو لگتا ہے۔ میں اس بارے میں کیا کہہ سکتا ہوں۔“
”تم اس سے شادی کر رہے ہو؟“ عجرم نے اپنی طرف سے اس پر یہ انکشاف کیا کہ وہ جانتا
ہے وہ کیا کر رہا ہے۔سینٹ نے ایسے شانے اور سر کو ہلایا ‘ جیسے اسے نہیں معلوم کہ
وہ کیا پوچھ رہا ہے۔
” تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو۔ تم مجھ پر شک کرر ہے ہو؟“
”شک ہے یا حقیقت....تم بتاو ¿....“
”حقیقت....؟ تم نے ایسا سوچا بھی کیسے....؟؟“
”اس سے شادی کرنے کے لئے تم نے خود کو بدلا ہے نا؟دیکھو خود کو....“
” صبح ہی دیکھ کر نکلا تھا ....اوہ مین....“ سینٹ دیر تک ہنستا رہا۔
”تم ہمیں بتانا ہی نہیں چاہتے۔ تم بات کو گھما رہے ہو۔ تم اس سے شادی کر رہے ہو۔
تمہیں وہ اچھی لگتی تھی۔ تم نے مجھے خود بتایا تھا کہ وہ تمہیں اچھی لگتی ہے۔ “
”وہ مجھے اچھی نہیں بہت اچھی لگتی ہے.... تو....؟“وہ ساتھ ساتھ کھا رہا تھا۔” کیا
اچھے لوگ اچھے نہیںلگتے....؟اور جہاں تک رہا شادی کا تعلق عجرم!....“ اس نے دونوں
کی طرف باری باری دیکھا۔ ”جب اچھابننے والے لوگ اچھے لوگوں کی قدر نہ کریں توان
بیچاروں کو برے لوگوں کی ہی ضرورت پڑتی ہے اور میں اس کی قدر کرتا ہوں۔ میں برا
ہوں یا اچھا ہوں۔میں نہیں جانتالیکن وہ اچھی ہے۔ مجھے اتنا معلوم ہے۔“
اس کے انداز کا ہر تاثریہ بتا رہا تھا کہ وہ اگر جانتا بھی ہے تو بتائے گا نہیں۔
ڈورس بے انتہا مایوس ہو گئی۔ عام حالات میں ایسے کورے جواب پر وہ اس کا سر پھاڑ
سکتی تھی مگر اب اسے برداشت ہی کرنا پڑا۔
”ایسے الٹے سیدھے سوالوں کے لئے مجھے دوبارہ لنچ آفر مت کرنا۔ اچھے کھانے کے ساتھ
مجھے اچھی گفتگو چاہئے ہوتی ہے ورنہ خاموشی بھی کم لذیز نہیں ہوتی۔“سینٹ نے ہاتھ
نیپکن سے صاف کئے۔....یعنی وہ جا رہا تھا۔
”میں درخواست کرتا ہوں کہ تم اس کے بارے میں بتا دو۔ اس کے گھر والے بہت پریشان
ہیں۔“
”اور تم ....؟ تم نہیں ہو پریشان....؟“ سینٹ نے براہ راست اس سے پوچھا۔
”نہیں ....“عجرم نے ڈورس سے نظریں چراتے ہوئے کہا۔
”تو پھر یہاں کیا کر رہے ہو....؟“اس نے الٹا سوال کیا۔
”یعنی تمہیں معلو م ہے کہ وہ کہاں ہے۔“ ڈورس پھر بولی۔ جب کے ڈورس کوا ندازہ بھی
تھا کہ وہ اس کے سولوں کے جواب نہیں دے رہا سوائے اس کی بے عزتی کرنے کے .... وہ
بھی بہت طریقے سے....
”میں تمہارے کسی بھی سوال کا جواب دینے کے لئے پابند نہیں ہوںمس ڈورس ! میں اس کا
پتہ رکھنے کا پابند ہوں نہ ہی اس سے رابطے میں۔ اگر تمہیںوہ چاہئے تو تم اسے خود
تلاش کرو کیونکہ میرا خیال ہے جو گم کرتا ہے اسے ہی ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ دنیا کا
دستور ہے۔ اور اس دستور کو بدلنے کا میرا فی الحال کوئی ارادہ نہیں۔تمہارے گھر
والے پریشان ہیں خدا ان کی پریشانی دُور کرے۔ میں ہمدردی کر سکتا ہوں مگر کوئی مدد
نہیں۔ اگر مدد کر سکتا تو ضرور کر سکتا کیونکہ میرے برے حالات میں عجرم نے میرا
سٹوڈنٹ بن کر میری ہمدردی کی تھی۔“
”میں اتنا جانتا ہوں سینٹ کہ تم جانتے ہو کہ وہ کہاں ہے۔ میرا اندازہ غلط نہیں ہو
سکتا۔“
”اندازہ ....؟“ وہ دل کھول کر ہنسا۔” تم اندازے ہی لگا سکتے ہو۔ تم یقین کرنا کب
سیکھو گے۔؟“
”طنز کر رہے ہو....؟“
”حقیقت بتا رہا ہوں۔ برا لگا تو معذرت کرتا ہوں۔ میراکوئی ذاتی مسئلہ نہیں ہے
تمہارے ساتھ۔ مجھے جانے دو....“
”یہ جانتا ہے ، نا صرف جانتا ہے بلکہ سب حالات سے بھی واقف ہے۔ یا شادی کر چکاہے
یا کرنے والا ہے۔ “
*جاری*

No comments: